کے این واصف
’’پرواسی بھارتیہ دیوس‘‘ (غیر مقیم ہندوستانیوں کا جشن) کے نام ہندوستان میںہر سال ایک جشن منایا جاتاہے جس کا مقصد سال میںایک بار ساری دنیا میں برسرکار NRI’s کویکجا کرنا ہوتا ہے ۔ یہ ایک اچھا سلسلہ ہے جس کے ذریعہ دنیا کے مختلف ممالک میں مقیم ہندوستانی باشندوں کوآپس میں ملنے اور ساتھ ساتھ حکومت ہند کے وزراء اور اعلیٰ عہدیداروں سے شخصی ملاقات کا موقع حاصل ہوتا ہے۔ یہ سلسلہ 2002 ء میں اٹل بہاری واجپائی کی قیادت میں قائم بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت کے دور میںشروع ہوا تھا ۔ یہ جشن ہر سال 7 تا 9 جنوری مرکزی حکومت کے زیر اہتمام منعقد ہوتا ہے ۔ بی جے پی حکومت کی جانب سے شروع کیا گیا یہ سلسلہ 14 سال بعد خود بی جے پی کی حکومت میں پہلی بار منقطع بھی ہوا جس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ جشن کی تیاریاں بروقت مکمل نہ ہوپائیں۔ چنانچہ حکومت نے اس کے متبادل کے طور پر تمام سفارت خانوں کو یہ ہدایت جاری کی کہ وہ ’’پرواسی بھارتیہ دیوس‘‘ کا اہتمام اس سال انفرادی طور پر اپنی اپنی ایمبسی میں کریں۔ لہذا سفارت خانہ ہند ریاض نے پچھلے ہفتہ ایمبسی میں اس جشن کا اہتمام کیا جس کا افتتاح قائم مقام سفیر ہند ہیمنت کوٹلوال نے کیا۔ سکریٹری سفارت خانہ ہند ڈاکٹر حفظ الرحمن نے نظامت کے فرائض انجام دیئے ۔ اپنے ابتدائی کلمات میں ڈاکٹر حفظ الرحمن نے غیر مقیم ہندوستانیوں کے جشن ، اس کے اغراض و مقاصد اور پروگرام کی تفصیلات سے واقف کرایا ۔ نیز ڈاکٹر رحمن نے مہمانانوں کا رسمی خیرمقدم بھی کیا۔
اپنے افتتاحی کلمات میں قائم مقام سفیر ہند ہیمنت کوٹلوال نے کہا کہ پرواسی بھارتیہ دیوس کے انعقاد میں حکومت کا مقصد ملک سے باہر کام کرنے والے ہندوستانیوں کو ملک سے جوڑے رکھنا ہے ۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہندوستانی سفارت خانے ہر ملک میںاپنے باشندوں کی مدد کیلئے ہمیشہ مستعد رہتے ہیں۔ انہوں نے پچھلے چند برسوں میں عرب ممالک میں حالات کے خراب ہونے سے پیدا ہوئی صورتحال اور حکومت ہند کی جانب سے ان ممالک سے ہندوستانی باشندوں کو بروقت اور بحفاظت وطن پہنچانے کے آپریشنز کی تفصیلات بھی دیں۔ ہیمنت نے کہا کہ اب تک جتنے پرواسی جشن وطن میں منعقد ہوئے ان میں غیر مقیم ہندوستانیوں کے مسائل زیر بحث لائے گئے اور حکومتی سطح پر ان مسائل کو بڑی حد تک حل بھی کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک سے باہر کام کرنے والے ہر انفرادی ہندوستانی کی وطن کیلئے خدمات ہیں اور حکومت ان کی قدر کرتی ہے۔ ہیمنت نے کہا کہ غیر مقیم ہندوستانیوں نے ان ممالک میں بہترین تجربہ اور مہارت حاصل کی جو شخصی طور پر ان کیلئے اور وطن کیلئے ایک اثاثہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ حکومت ملک کی ترقی کے منشاء سے گاؤں گاؤں اور قریہ قریہ میں ٹوائلیٹس بنانے سے اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کرنے تک کے پروگرامس پر سنجیدگی سے عمل پیرا ہے۔ انہوں نے غیر مقیم ہندوستانیوں سے کہا کہ وہ اپنی انفرادی حیثیت میں ملک کی ترقی کیلئے کئے جانے والی ترقیاتی پروگرامس میں اپنا حصہ ادا کرنے کی کوشش کریں۔ ہیمنت نے کہا کہ حکومت جدید ٹکنالوجی سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک اور بیرون ملک کام کرنے والے چھوٹے سے چھوٹے سطح کے ملازم سے جڑے اور ان کی حسب ضرورت مدد کرنے کا اہتمام کر رہی ہے ۔ اسی طرح حکومت وطن سے دور رہنے والے اپنے باشندوں کو اپنے سماج ، تہذیبی روایات سے جڑے رکھنے اور ان کی بقاء و ترقی کیلئے موثر اقدامات کرتی ہے اور ہر اس ملک میں جہاں ہندوستانی بڑی تعداد میں بستے ہیں وہاں صحافتی پروگرامس کا اہتمام کرتی ہے تاکہ تارکین وطن میں احساس محرومی اور وطن سے دوری کا دکھ کم ہو۔
اس موقع پر انٹرنیشنل انڈین اسکول دمام کی طالبات نے ایک رنگا رنگ کلچرل پروگرام پیش کیا۔ جشن کے رسمی افتتاح کے بعد دو مختلف عنوانات پر مباحثے بھی منعقد کئے گئے ۔پہلا مباحثہ ’’ہندوستان کی اقتصادی ترقی میں این آر آئیز کا حصہ‘‘ کے عنوان سے منعقد ہوا۔ اس پیانل میں معروف سماجی کارکن کے شہاب الدین ، سید ضیاء الرحمن سی ای او یا ہندویب سائیٹ راجیو شکلا مینجنگ ڈائرکٹر HSBC اور مرزا ظہیر بیگ سائنٹسٹKFUPM دہرن شامل تھے۔ دوسرا مباحثہ کا عنوان ’’جملہ امراض کے علاج کے لئے ہندوستان کو غیر مل کیوں کیلئے ترجیحی مرکز بنانا تھا ۔اس کے پیانل میں امت زویری ، بالا چندرا نائر ، وجئے دیوداس اور معروف صحافی عرفان اقبال خاں شامل تھے ۔ دونوں مباحث کے Moderior معروف صحافی رام نارائن نائر تھے ۔ آخر میں پیانل کے اراکین نے حاضرین کے سوالات کے جواب بھی دیئے ۔ ڈاکٹر حفظ الرحمن کے ہدیہ تشکر پراس تقریب کا اختتام عمل میں آیا۔
یہ تو تھی ریاض میں منائے گئے پہلے جشن این آر آئیز کی روداد۔اس تقریب میں شریک ہندوستانیوں کی کثیر تعداد میں شائد دو یا تین افراد ایسے ہوں گے جنہوں نے اب تک ہندوستان میں منعقدہ ’’پرواسی بھارتیہ دیوس‘‘ کی ایک آدھا تقریب میں شرکت کی ہو۔ باقی سارے ’’پرواسیوں‘‘ (این آر آئیم) نے پہلی بار اس تقریب میں حصہ لیا تھا ۔ ویسے بتایا تو یہ گیا کہ اس بار ہندوستان میں یہ تقریب کے منعقد نہ ہونے کی وجہ بروقت تقریب کی تیاریاں نہ ہونا تھی لیکن این آر آئیز میں قیاس آرائیاں یہ ہیںکہ حکومت اب اس تقریب کو اس طرح ہر سال بھی ایمبسی کی سطح پر ہی منائے گی جہاں جہاں بڑی تعداد میں ہندوستانی باشندے آباد ہیں اور شائد حکومت ہند نے تجرباتی طور پر 2016 ء کی یہ تقریب سفارت خانوں کی سطح پر منعقد کی ۔ اگر ایسا ہے تو یہ این آر آئیز کے حق میں اچھا ہی ہے ۔ یہ پہلی بار تھا تو شائد یہ تقریب سفارت خانہ میں اتنے شاندار پیمانہ پر منعقد نہیں ہوئی مگر اس کو اگر سالانہ فنکشن کی حیثیت دی جاکر ہر سال اس کو بڑے پیمانہ پر منعقد کیا جائے تو ایک بڑی تعداد میں این آر آئیز اپنے اس جشن میں شریک ہوسکیں گے ۔ خصوصاً اگر ہم خلیجی ممالک کے تناظر میں دیکھیں گے تو یہاں تقریباً 70 لاکھ ہندوستانی آباد ہوں گے ۔ اگر یہاں کے سفارت خانے ہر سال ایک شہر میں یہ تقریب منعقد کی تو ہر سال ہندوستانیوں کی ایک بڑی تعداد پرواسی بھارتیہ دیوس میں شرکت کرسکتی ہے اور دوسرے یہ کہ خلیجی ممالک میں کام کرنے والے این آر آئیز کے ہر ملک میں مختلف قسم کے مسائل ہوتے ہیں۔ ان مسائل کی نمائندگی این آر آئیز ایمبسی کی سطح پر پیش کرسکتے ہیں جبکہ یہ چیز ہندوستان میں منعقد ہونے والی سہ روزہ مرکزی تقریب میں ممکن نہیں۔ نیز مرکز کی جانب سے منعقد کئے جانے والے ’’پرواسی بھارتیہ دیوس‘‘ میں حکومت کا پورا زور ملک میں غیر مقیم ہندوستانیوں کے ذریعہ سرمایہ کاری کروانے پر ہوتا ہے ۔ اس لئے این آر آئیز کے مسائل خصوصاً گلف میں کام کرنے والوں کے مسائل پس پشت رہ جاتے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ خلیجی ممالک میں ہزاروں سماجی کارکن اور سینکڑوں سماجی تنظیمیں برسوں سے خدمات انجام دے رہی ہیں۔ جن کو حکومتی سطح پر اب تک کوئی ستائش حاصل نہیں ہوئی۔اگر یہ جشن ہر ملک میں جہاں بڑی تعداد میں این آر آئیز آباد ہیں، ان کیلئے پرواسی دیوس ایمبسی کی سطح پر منعقد ہو تو یہ سماجی کارکن یا تنظیمیں حکومتی سطح پر ستائش و اعزازات حاصل کرسکتے ہیں۔ جو ان کی حوصلہ افزائی اور ہمت افزائی کا باعث ہوگا۔
قائم مقام سفیر ہند ہیمنت کوٹلوال نے ریاض میں منعقدہ ’’پرواسی بھارتیہ دیوس‘‘ کے افتتاحی خطاب میں کہا تھا کہ ہندوستانی باشندے ان غیر ممالک میں بہترین تجربہ حاصل کرتے ہیں ۔
نیز جشن کے سلسلہ میں منعقدہ مباحثے میں حصہ لیتے ہوئے سید ضیاالرحمن سی ای او یا ہندو ویب سائیٹ نے بھی کہا تھا کہ این آر آئیز کے تجربہ سے ملک کو اور خود این آر آئیز کو فائدہ پہنچانا چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ سارے ملک کی اور گنگا ندی کی صفائی پر کروڑہا روپیہ کا بجٹ مختص کیا گیا ہے ۔ اس میں Re-cycling اور دیگر چھوٹی سطح کے کام کے ٹھیکے لینے میں این آر آ ئیز سرمایہ مشغول کرسکتے ہیں اور اپنی خدمات بھی پیش کرسکتے ہیں۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں رمضان اور حج کے سیزن میں بیک وقت لاکھوں لوگ جمع ہوتے ہیں اور یہاں عوامی سہولت و بنیادی ضروریات کا ہر سطح کا کام بہترین انداز میں انجام دیا جاتا ہے ۔ خصوصاً دنیا کے اس بے مثال اجتماع میں مقدس شہروں کی صفائی کا کام ، صفائی کے اس سارے نظام میں بڑی سطح سے ادنیٰ حیثیت کے ملازمت میں برصغیر سے تعلق رکھنے والے باشندے شامل رہتے ہیں۔ جن میں کثیر تعداد ہندوستانیوں کی بھی ہوتی ہے ۔ حرمین شریفین سے ان شہروں کی صفائی کے اس بے مثال نظام کو اگر ایک case study کے طور پر لیا جائے تو ہمارے ملک میں جاری صفائی مہم کا پراجکٹ بہترین طریقہ سے انجام پاسکتا ہے ۔
بہرحال گلف این آر آئیز کی قیاس آرائیاں حقیقت ہوجائیں تو گلف این آر آء یز اس سے بے حد خوش ہوں گے اور یہ ان کے حق میں فائدہ مند بھی ہوگا۔