پردھان منتری نے کینٹین میں لنچ کیا

میرا کالم سید امتیازالدین
ہر ملک کا وزیراعظم یوں بھی سرخیوں میں رہتا ہے لیکن ہمارے پردھان منتری اپنے نئے نئے کاموں سے خود بھی سرخیاں پیدا کرتے ہیں۔ ہر آدمی دوپہر کا کھانا کھاتا ہے لیکن اگر پردھان منتری ایسی جگہ لنچ کے لئے پہنچ جائے جہاں اس کی آمد کی پہلے سے کسی کو اطلاع نہ ہو تو یہ معمولی سا واقعہ ایک اہم خبر بن جاتا ہے ۔ ہم نے یہ دلچسپ خبر آج کے اخبار میں پڑھی کہ پارلیمنٹ کی پہلی منزل پر ایک کینٹین ہے جہاں ممبرس آف پارلیمنٹ لنچ کیا کرتے ہیں ۔ یہاں ہم آپ کو بتادینا چاہتے ہیں کہ اتوار کا یہ کالم ہم چار پانچ دن پہلے ہی لکھ دیتے ہیں اس لئے آج سے مراد آج نہیں ہے ۔ یہ 2 مارچ 15ء دوشنبہ کا واقعہ ہے کہ دوپہر سوا بجے پردھان منتری اچانک کینٹین میں پہنچ گئے ۔ جو لوگ پہلے سے وہاں کھانا کھارہے تھے اور کینٹین کا اسٹاف جو ان کی خدمت میں لگا ہوا تھا اس غیر متوقع مہمان کو دیکھ کر حیران رہ گئے ۔ کینٹین کے سپروائزر بی ایل پروہت فوراً پردھان منتری کے استقبال کو آگے بڑھے ۔ شاید پروہت ان کا نام ہے ۔ وہ سچ مچ کے پروہت نہیں ہیں ۔ خیر ، پروہت صاحب نے پردھان منتری سے پوچھا ’’جناب آپ کیا کھانا پسند فرمائیں گے ۔ کوئی خاص چیز؟‘‘ ۔ مودی جی نے (جیسی کہ سیاستدانوں کی عادت ہوتی ہے) سوال کا جواب سوالیہ انداز میں دیا ’’ہاں تو خاص چیز کیا ہے یا آپ کی کینٹین کا مقبول عام پکوان کیا ہے‘‘ ۔ اس سوال و جواب یا سوال و سوال کے بعد مودی جی نے ایک سوپ اور ویجیٹرین تھالی کا آرڈر دیا ۔ سُوپ کے بعد ان کی خدمت میں ویجٹیرین تھالی پیش کی گئی جس میں چاول ، دال ، پالک کی سبزی ، راجما ، سلاد اور رائتہ شامل تھے ۔ مودی جی کو 29 روپئے کا بل دیا گیا ۔

مودی جی نے سو روپے کا نوٹ نکالا اور انہیں اکہتر (71) روپئے واپس کئے گئے ۔ مودی جی بھارت کے پہلے وزیراعظم ہیں جنھوں نے پارلیمنٹ کی کینٹین میں کھانا کھایا اور کینٹین کو اپنے قدموں سے رونق بخشی ۔ اس سے پہلے راجیو گاندھی اور ایل کے اڈوانی بھی یہاں کھانا کھاچکے ہیں لیکن دونوں بھی اس وقت بس ممبر آف پارلیمنٹ تھے ۔ کینٹین کی کتاب الرائے شاید عرصہ دراز سے کسی پردھان منتری کے انتظار میں تھی اس لئے وہ ان کی خدمت میں پیش کی گئی ۔ مودی جی نے اس میں لکھا ’ان داتا سکھی بھوا‘ ۔

ہم کویہ خبر بہت اچھی لگی ۔ پہلی بات تو یہ کہ اس سے پردھان منتری کی سادگی معلوم ہوئی ۔وہ کسی قسم کے حفاظتی انتظامات کے بغیر عام آدمی کی طرح کینٹین میں چلے گئے (عام آدمی پر ہمیں کیجریوال جی یاد آگئے لیکن یہاں ان کا ذکر نہیں ہے) ۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہم نے سنا تھا کہ اہم ترین شخصیتوں کو جو کھانا دیا جاتا ہے اس کی باقاعدہ طبی جانچ ہوتی ہے ۔ مودی جی نے اس کی بھی پرواہ نہیں کی ۔ جو کھانا سب کھارہے تھے وہی انھوں نے بھی کھالیا ۔ مودی جی نے سو کا نوٹ دیا اور انھیں اکہتر روپے واپس مل گئے ورنہ ملک میں عام طور پر ریز گاری یا چلّر کی اتنی قلت ہے کہ اگر آپ 29 روپوں کا سامان خریدیں اور سو کا نوٹ دیں تو دکاندار ناک بھوں چڑھاتے ہیں ۔ اس سے زیادہ اہم بات یہ معلوم ہوئی کہ ہماری پارلیمنٹ کی کینٹین دنیا کی سب سے سستی کینٹین ہے ۔ ہمارے محلے میں ایک واجبی سا ہوٹل ہے جہاں ایک پلیٹ اِڈلی (جس میں دو چھوٹی چھوٹی اڈلیاں رکھی ہوتی ہیں) پچیس روپے میں ملتی ہے ۔اگر ہم دلی میں ہوتے اور پارلیمنٹ ہاوز کی کینٹین تک ہماری رسائی ہوتی تو ہم روز لنچ اسی کینٹین میں کرتے اور کتاب الرائے میں کینٹین سپروائزر کی شان میں غالب کا وہ قصیدے لکھتے جس کا آخری شعر ہے ۔
تم سلامت رہو ہزار برس
ہر برس کے ہوں دن پچاس ہزار
پھر ہم کو کسی نے بتایا کہ پارلیمنٹ کی کینٹین سبسیڈائزڈ یعنی رعایتی نرخ پر چلتی ہے اور لاگت اور قیمت میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے ۔ ہم نے دل میں سوچا کہ مودی جی نے بجٹ کی پیشکشی کے بعد لنچ کیا ورنہ کیا پتہ بجٹ میں اس کینٹین کے لئے اچھی خاصی رقم مختص کردی جاتی اور تمام ممبرس اس تجویز کو بیک زبان تالیوں کی گونج میں منظور کرتے ۔

پردھان منتری کے اس لنچ کو کوئی معمولی لنچ نہیں سمجھنا چاہئے ۔ انھوں نے حال ہی میں دس لاکھ کا سوٹ زیب تن کیا تھا ۔ اب 29 روپے کا لنچ کھا کر اس کی تلافی کردی ہے ۔ دوسرا فائدہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ایوان میں اکثر مسائل پر تلخ مباحث ہوتے ہیں لیکن کینٹین میں فضا دوستانہ رہتی ہے ۔ اگر اکثر باتیں رائتہ کھاتے کھاتے دوستانہ ماحول میں طئے پاجائیں تو ایوان میں بہت سے پیچیدہ مسائل ہنستے بولتے حل ہوسکتے ہیں ۔
ہمارے ملک میں ہر بات پر نکتہ چینی ہوتی ہے ۔ اب پردھان منتری نے کینٹین میں کھانا کھایا ۔ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن ان کے مداح اسے تاریخ کے ایک نئے باب سے تعبیر کرسکتے ہیں کہ دیکھو اب تک کسی پردھان منتری نے ایسے سادہ اور بے لوث اخلاق کا مظاہرہ نہیں کیا ۔ وہیں ان کے مخالفین یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ جب ان کے پاس سو روپے موجود تھے تو ان کو دو اور لوگوں کو بھی لنچ کرادینا چاہئے تھا ۔ اس سے ان کی غربا پروری اور مہمان نوازی کا ثبوت ملتا ۔

ہمارے ایک سادہ لوح دوست ہم سے پوچھ رہے تھے کہ لنچ اور دوپہر کے کھانے میں کیا فرق ہوتا ہے ۔ ہم نے ان کو سرسری سا جواب دے دیا کہ کوئی فرق نہیں ہوتا ۔ یہ کھانے والے پر منحصر ہے کہ وہ کیا سوچ کر کھارہا ہے ۔ اس پر ہمیں اپنے دفتر کے زمانے کی ایک بات یاد آگئی ۔ ہمارے دفتر میں ایک صاحب تھے ۔ ویسے تو وہ کسی بڑے عہدے پر فائز نہیں تھے لیکن ہمیشہ بہت لئے دئے رہتے تھے ۔ یوں لگتا تھا جیسے ان کو اپنا مستقبل بہت شاندار دکھائی دے رہاہے اور وہ آنے والے دنوں کے لئے خود کو تیار کررہے ہیں ۔ خدا کا کرنا کیا ہوا کہ ان کا تبادلہ ایک ایسی جگہ پر ہوگیا جہاں ان کو گھومنا پھرنا زیادہ پڑتا تھا ۔ ان کو اس مقصد سے ایک جیپ دی گئی تھی ۔وہ ہر روز ادھر ادھر گھومتے پھرتے اور ٹھیک ایک بجے دوپہر گھر پہنچتے اور ڈرائیور سے کہتے ’ میں اب لنچ کروں گا تم بھی کہیں کچھ کھا کے آجاؤ‘ ۔ ان کے ڈرائیور کے مزاج میں تجسس کا مادہ تھا ۔ ایکدن وہ کسی فائل کے بہانے گھر میں داخل ہوگیا ۔ دیکھا کہ صاحب دال چاول کھاتے بیٹھے ہیں ۔ ڈرائیور خاموشی سے باہر آگیا۔ اگلے دن دوپہر کو صاحب نے اپنے گھر پر جیپ سے اترتے ہوئے ڈرائیور سے کہا ’’میں ذرا لنچ کروں گا ۔ تم بھی کہیں کچھ کھا کر آجاؤ‘‘ ۔ ڈرائیور نے جواب دیا ’’حضور! آج کل میں بھی لنچ ہی کرتا ہوں‘‘ ۔ صاحب نے تیوری چڑھا کر پوچھا ’’کیا مطلب ہے؟‘‘ ڈرائیور نے جواب دیا ’’میری بیوی بھی مجھے توشے میں دال چاول دیتی ہے ۔ ساتھ میں کٹی ہوئی پیاز اور دو تین ہری مرچیں جن سے کھانے کا مزہ دوبالا ہوجاتا ہے ۔ آپ بھی تو یہی کھاتے ہیں ۔ ہم دونوں ہی لنچ کرتے ہیں‘‘ ۔
بات سادگی کی چل رہی ہے تو ہمیں سادگی کی مثال اور یاد آگئی ۔ ہم نے اخبار میں پڑھا تھا کہ جن دنوں منموہن سنگھ وزیراعظم تھے تو ایک بار انھوں نے دیکھا کہ ان کے ڈرائیونگ لائسنس کی مدت ختم ہوچکی ہے تو وہ خؤد ہی اس کی تجدید کے لئے متعلقہ دفتر پہنچ گئے ۔ لوگوں نے ان کو دیکھا تو کھلبلی مچ گئی ۔ اسی طرح ایک بار وہ آسام کے دورے پر تھے تو جو دال فراہم کی گئی تھی وہ ذرا ناقص قسم کی تھی ۔ انھوں نے کوئی شکایت نہیں کی ۔
سادگی اور منکسر المزاجی ایک ایسا وصف ہے جس سے آدمی کی قدر وقیمت گھٹتی نہیں اور بڑھ جاتی ہے ۔

سادگی کا ایک اور نمونہ ہمارے سابق پریسیڈنٹ اے پی جے عبدالکلام بھی ہیں ۔ جب وہ پریسیڈنٹ بنے تو ان کے بہت سے رشتہ دار اور جان پہچان کے لوگ ان کی حلف برداری کی تقریب میں شرکت کے خواہش مند تھے ۔ عبدالکلام نے مدراس (چینائی) سے دہلی تک اپنے خرچ پرٹرین کی سکنڈ کلاس کی دو بوگیاں ریزرو کرائیں ۔ دو دن کے لئے دہلی میں ان کے قیام و طعام کے مصارف برداشت کئے ۔ واپسی کا خرچ بھی خود برداشت کیا ۔ نہ اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کیا اور نہ حکومت کو زیر بار کیا ۔ جب وہ راشٹرپتی بھون میں بحیثیت صدر داخل ہوئے تو ان کا کل سامان دو سوٹ کیسوں میں آگیا تھا ۔ عہدہ چھوڑنے کے بعد انھوں نے وہی مختصر سا سامان لیا اور رخصت ہوگئے ۔
بہرحال ہمارے ملک میں ابھی بھی سیدھے سادے مخلص خدمت گذاروں کی کمی نہیں ہے ۔ اسی لئے کئی گھٹالوں کے باوجود ہم اب بھی ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ملکوں میں اہم مقام رکھتے ہیں ۔ ایمانداری اور سچائی کی ہم سب کو ضرورت ہے ، دکھاوے کی نہیں ۔