حیدرآباد۔/9اپریل، ( سیاست نیوز) شہریوں کی حفاظت کیلئے خدمات انجام دینے والی پولیس شہریوں کیلئے عذاب بنی ہوئی ہے۔ شہر کے بیشتر علاقوں میں رات کے اوقات میں پولیس کی جانب سے تلاشی مہم چلائی جارہی ہے اور اس مہم کو شہریوں کی حفاظت کے علاوہ جرائم پیشہ افراد و مشتبہ افراد کو حراست میں لینے کی کوشش قرار دیا جارہا ہے۔ لیکن اس مہم کی تفصیلات کا باریک بینی سے جائزہ لینے پر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کی جانب سے پولیس کو فراہم کردہ کھلی چھوٹ کا عہدیدار ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلم غالب آبادیوں کو نشانہ بنارہے ہیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش کررہے ہیں کہ مسلم علاقوں میں مشتبہ افراد کی تعداد زیادہ ہوا کرتی ہے۔ محکمہ پولیس کی جانب سے کی جانے والی ان کارروائیوں کے دوران تاحال کسی ایسے مشتبہ شخص کو گرفتار نہیں کیا گیا جس پر یہ کہا جاسکے کہ پولیس کی جانب سے کی جانے والی کارروائیوں میں دہشت گرد یا پھر پولیس کی پہنچ سے باہر افراد گرفتار کئے گئے ہیں۔ لیکن ان کارروائیوں میں غنڈہ عناصر جنہیں پولیس کی جانب سے چھوٹ حاصل رہی وہی دوبارہ پولیس کے ہاتھ لگے۔ محکمہ پولیس کی جانب سے حیدرآباد و سائبرآباد کمشنریٹ کے حدود میں جن علاقوں کو تلاشی مہم کے نام پر نشانہ بنایا جارہا ہے ان کا جائزہ لینے پر یہ بات سامنے آئی کہ پولیس مسلم علاقوں کو مشتبہ علاقوں کی فہرست میں شامل کررہی ہے۔ ساؤتھ زون میں کی گئی 6 بڑے پیمانے پر تلاشی مہم میں جو علاقے شامل ہیں ان میں پنجہ شاہ، چندرائن گٹہ، فلک نما، حافظ بابا نگر، تالاب کٹہ کے علاوہ پرانا پل ہیں۔ ان علاقوں میں پرانا پل کے علاوہ مابقی تمام علاقے اقلیتی غالب آبادی والے ہیں۔ ان آبادیوں میں پولیس کو بچہ مزدوری کے علاوہ کوئی ایسا مشتبہ شخص نہیں ملا لیکن دو یوم قبل کی گئی کارروائی کے دوران جوکہ برما کے مہاجرین کے کیمپوں پر کی گئی تھی 113 نوجوانوں کو حراست میں لیا گیا تھا لیکن نصف سے زائد نوجوانوں کو ان کے دستاویزات کی تنقیح کے بعد چھوڑ دیا گیا جبکہ مابقی نوجوانوں کے پاس بھی درکار دستاویزات کیلئے درخواستیں داخل کرنے کے ثبوت و شواہد موجود تھے۔ 7یا 10نوجوانوں پر پولیس نے مقدمہ درج کیا۔ ایڈوکیٹ گریشما کے مطابق پولیس کی جانب سے واضح طور پر یہ کہا جارہا ہے کہ مشتبہ افراد کی تلاش میں کئے جانے والے آپریشنس کے دوران انہیں حراست میں لیا گیا ہے اور ذرائع ابلاغ اداروں میں خبریں یہ آرہی ہیں کہ پولیس نے سینکڑوں مشتبہ نوجوانوں کو گرفتار کرلیا جبکہ حقیقت کچھ نہیں ہوتی۔ اسی طرح ویسٹ زون کے علاقوں میں کی گئی کارروائیوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو پولیس نے بنجارہ ہلز کے علاقہ زہرہ نگر میں تلاشی مہم انجام دی۔ اسی طرح بیگم بازار کے تجارتی علاقوں میں بھی پولیس کی کارروائی کی گئی لیکن رہائشی علاقوں کو فراموش کردیا گیا۔ آصف نگر میں بھی پولیس کی جانب سے کارروائی کی گئی۔ علاوہ ازیں بدنام زمانہ علاقہ منگل ہاٹ دھول پیٹ میں بھی پولیس نے برائے نام کارروائی کی لیکن پولیس کی اس کارروائی کو مقامی رکن اسمبلی نے احتجاج کرتے ہوئے رکوادیا۔ پولیس عہدیداروں کو چاہیئے کہ وہ مشتبہ افراد کی تلاش کیلئے صرف مسلم علاقوںکا رُخ کرنے کے بجائے شہریوں کی حفاظت کیلئے شہر بھر میں کسی بھی وقت کسی بھی مقام پر تلاشی مہم چلائے لیکن تلاشی مہم کے نام پر مخصوص طبقہ کے نوجوانوں کو ہراساں کیا جانا درست نہیں ہے۔