پدماوت، سخاوت ، حلاوت، بغاوت زمینی حقیقت مہنگائی ہے، اس پر احتجاج کیوں نہیں؟

واجد خان

بالآخر ’’پدماوت‘‘ ریلیز کردی گئی اور ایسا معلوم ہورہا ہے جیسے کوئی معرکہ سر کیا گیا ہو۔ پدماوت کی ریلیز کو حکومت کی سخاوت سے تعبیر کیا جائے یا سپریم کورٹ کی ؟ ہندوستانی شہری فلم زدہ ہیں، یہ بات ہر کوئی جانتا ہے اور خصوصی طور پر ایسی کوئی بھی فلم جو تنازعہ کا شکار ہوجاتی ہے ، اس پر اتنا واویلا مچایا جاتا ہے کہ ملک کے دیگر مسائل کو پسِ پشت ڈال کر تمام تر توانائیاں اسی فلم کو ریلیز کرنے یا نہ کرنے پر جھونک دی جاتی ہے ۔ آج مہنگائی کا کیا عالم ہے ، یہ بھی ہر کوئی جانتا ہے لیکن مہنگائی کو کبھی متنازعہ قرار نہیں دیا گیا کیونکہ اسی سے ارباب اقتدار کو کچھ لینا دینا نہیں ہے ۔ دو روز قبل ہی پٹرول کے دام 80 روپئے فی لیٹر ہوگئے اور دو ایک مقام پر احتجاج کے بعد لوگوں نے خاموشی اختیار کرلی، حالانکہ عالمی مارکٹ میں پٹرول کے دام 70 ڈالرس فی بیارل ہیں ۔ اسی مطابقت سے اگر دیانتدارانہ طور پر قیمتوں کا تعین کیا جائے تو ہندوستان میں پٹرول 25 روپئے فی لیٹر فروخت ہونا چاہئے ۔ پہلے تو یہ فیصلہ ہونا چاہئے کہ عوام کو پدماوت کی ضرورت ہے یا مہنگائی میں کمی کی ؟ پدماوت میں اب زہر کی حلاوٹ بھی محسوس کی جارہی ہے کیونکہ جان جوکھم میں ڈال کر کوئی بھی شہری اس فلم کو دیکھنا نہیں چاہے گا۔ جس جس تھیٹرس میں فلم ریلیز ہوئی ہے وہاں کوئی بھی شو ہاؤس فل نہیں چلا۔ شاید اس کی چند وجوہات میں سے ایک یہ ہے کہ لوگ ڈرے ہوئے ، سہمے ہوئے ہیں۔ کمر توڑ مہنگائی نے (جس میں تھیٹروں کے ٹکٹ کے دام میں اضافہ بھی شامل ہے) اب ہندوستان کی فلم زدہ عوام کو ’’غمزدہ‘‘ کردیا ہے ۔ وہ یہ سوچنے لگے ہیں کہ گھر چلانے کیلئے اشیائے ضروری خریدیں یا پدماوت کی ٹکٹ ؟ پدماوت ، سخاوت اور حلاوت کے علاوہ ایک لفظ بغاوت بھی ہے ۔ لہذا راقم الحروف قارئین سے یہ کہنا چاہے گا کہ اس وقت وہ پدماوت دیکھنے کے خلاف بغاوت کردیں تو فلم سازوں اور احتجاج کرنے والوں کی عقل خود بخود ٹھکانے لگ جائے گی۔ پدماوت دیکھنے کیلئے تھیٹرس جانے والوں کو کیا کوئی سرٹیفکٹ دیا جائے گاکہ فلاں فلاں نے فلاں فلاں تھیٹر پہنچ کر پدماوت دیکھ کر بہادری کا ثبوت دیا ۔ ماضی میں بھی کئی متنازعہ فلمیں ریلیز ہوئی ہیں اور ان کے خلاف بھی احتجاج ہوئے ہیں لیکن ملک کے دیگر مسائل کو پس پشت نہیں ڈالا گیا بلکہ ان پر بھی میڈیا کی توجہ برابر مرکوز رہی۔ قارئین کو یاد ہوگا کہ پدماوت کا نام پہلے پدماوتی تھا لیکن اب اس میں ’’ی‘‘ کو حذف کر کے صرف پدماوت کردیا گیا ہے جس کے بارے میں یہ کہا جارہا ہے کہ یہ ملک محمد جائسی کی لکھی گئی نظم ’’پدماوت‘‘ سے ماخوذ ہے ۔ سنجے لیلا بھنسالی قبل ازیں باجی راؤ مستانی بناچکے ہیں۔ اس میں باجی راؤ پیشوا کو مستانی نامی گانے والی سے عشق ہوجاتا ہے لیکن وہاں چونکہ پیشوا ہندو ہے اور مستانی مسلمان لہذا یہ ’’لو جہاد‘‘ نہیں ہے ۔ اگر عاشق مسلمان ہے( علاؤالدین خلجی) اور معشوقہ ہندو ہے (پدماوتی) تو پھر یہ ’’لوجہاد‘‘ ہے۔ آج ہندوستانی فلموں کے آرکائیوز میں کئی پرانی فلمیں سڑ رہی ہیں جنہیں اگر آج دوبارہ ریلیز کیا جائے تو کیا ویسا ہی ہنگامہ ہوگا جیسے پدماوت کیلئے کیا گیا ۔ مثال کے طور پر بابر ، ہمایوں ، نو شیروانِ عادل ، شاہجہاں جیسی فلمیں جب اپنے زمانے میں ریلیز ہوئی تھیں تو سوپر ہٹ ثابت ہوئی تھیں۔ خصوصی طور پر کے ایل سہگل کی فلم شاہجہاں کا گانا ’’اے دل بے قرار جھوم‘‘ آج بھی ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے ۔ علاوہ ازیں ان فلموں کو یو ٹیوب پر دیکھنے سے بھلا کون روک سکتا ہے ؟ حکومت کا کام ہے کہ عوام کی توجہ ہٹانے کیلئے نت نئے ہتھکنڈوں سے بچنا لیکن المیہ یہ ہے کہ حکومت نے ملک کی عوام کی پدماوت میں الجھا کر رکھ دیا ہے ۔ ا رے بھائی ! مہنگائی کی طرف توجہ دیں۔ پٹرول ، گیاس کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اب کی بار پیاز کی قیمت کسی بھی طرح نیچے اترنے تیار نہیں ۔ آخر کیوں ؟ راقم الحروف بھی فلموں کا شوقین ہے لیکن متنازعہ فلموں نے کبھی راغب نہیں کیا ۔ بابر ، ہمایوں اور شاہجہاں نامی فلموں کا تذکرہ خصوصی طور پر اس لئے کیا گیا ہے کہ سنگھ پریوار کو ’’مغلوں‘‘ کے نام سے ہی اللہ واسطے کا بیر ہے اسی لئے راجدھانی کی اہم سڑک کا نام جو مغل شہنشاہ سے موسوم تھا، تبدیل کردیا گیا۔ کیا اس پر کوئی ملک گیر احتجاج ہوا ؟ مہنگائی پر سب سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ تازہ ترین مثال یہ ہے کہ منموہن سنگھ کے زمانے میں پٹرول 60 روپئے لیٹر تھا اور اب 80 روپئے فی لیٹر ہے ۔ ڈیزل 45 روپئے فی لیٹر تھا اور اب 63 روپئے فی لیٹر ہے ۔ ایل پی جی کا سلینڈر 400 روپئے میں تھا لیکن اب یہ 800 روپئے میں سربراہ کیا جارہا ہے۔ دودھ 40 روپئے فی لیٹر تھا ، تاہم اب یہ 52 روپئے فی لیٹر دستیاب ہے ۔ سب سے اہم جو چیز ہے وہ ہے غریبوں کی دال جو قبل ازیں 80 روپئے فی کیلو تھی اور اب 200 روپئے فی کیلو تک پہنچ گئی ہے ۔ اب آپ یا تو پدماوت دیکھ لیں یا ایک کیلو دال خرید لیں۔ مرضی آپ کی ! فلموں کے بارے میں تفصیلات فراہم کرنا اس مضمون کا مقصد نہیں ہے بلکہ تنازعات کو غیر ضروری طول دیتے ہوئے صرف ایک معمولی فلم جس سے کسی کا کوئی بھلا ہونے والا نہیں ہے، کو ایسی اہمیت دی جارہی ہے جیسے ’’پھر کل نہیں آئے گا‘‘ مستقبل میں بھی ایسی نہ جانے کتنی فلمیں آئیں گی جو تنازعہ کا شکار ہوسکتی ہیں لیکن ہمارے سیاستدانوں کو چاہئے کہ وہ فلمی تنازعہ کو ملک کی تاریخ سے خلط ملط نہ کریں۔ تاریخی حقائق آج بھی ’’دیانتدار‘‘ مورخین کے پاس محفوظ ہیں تاہم یہ بات بھی ہر دانشور جانتا ہے کہ تاریخی یا پیریڈ فلموں کے علاوہ کاسٹیوم ڈراماس میں زیب داستان کیلئے بعض اضافے کئے جاتے ہیں جن کا حقیقی تاریخ سے کوئی تعلق نہیں ہوتا اور اس نکتہ کی فلم کے آغاز سے قبل ہی disclaimer کے ذریعہ وضاحت کردی جاتی ہے تو پھر ہنگامہ کس بات کا ؟
قارئین سے میری گزارش ہے کہ وہ پدماوت فلم ضرور دیکھیں لیکن صرف ڈھائی گھنٹے تک محظوظ ہونے کیلئے۔ تھیٹر سے باہر آتے ہی آپ حقیقی دنیا میں آجائیں گے جہاں ہر طرف مہنگائی آپ کا تعاقب کرے گی اور زمینی حقیقت بھی یہی ہے۔
wajid-siasat@yahoo.in