پتے جو لاپتہ ہوگئے

میرا کالم مجتبیٰ حسین
ہمارے پاس ایک ڈائری ہے جو 1980سے 2000 ء تک ہمارے زیر استعمال رہی۔ 1980 ء میں جب ہم اپنے پہلے بیرونی سفر پر جاپان جانے لگے تو ہم نے اس میں اپنے بعض اہم ہندوستانی احباب کے پتے اس خیال سے لکھ لئے تھے کہ جاپان کے لمبے قیام کے دوران میں کہیں ہمیں اپنے ان احباب سے رابطہ قائم کرنے کی ضرورت نہ پیش آجائے۔ اسّی اور نوّے کی دہائیوں کا عرصہ ہماری ادبی، سماجی، تخلیقی سرگرمیوں کا نہایت فعّال زمانہ رہا ہے۔ اس عرصہ میں ہم نے کئی بیرونی ممالک کے سفر کئے۔ نئی نئی زمینوں پر قدم رکھنے کے علاوہ نئے نئے آسمانوں میں جھانک آئے۔

جوں جوں ہمارے تعلقات نے وسعت اختیار کی، ہماری اس ڈائری میں نئے پتے جلوہ فگن ہوتے چلے گئے۔ تعلقات کے نئے پھول کھلنے لگے اور رشتوں کی کلیاں چٹکنے لگیں۔ جاپان جاتے وقت ہماری اس ڈائری میں اپنے ہندوستانی احباب اور رشتہ داروں کے صرف بیس پتے لکھے گئے تھے مگر جب 2000 ء میں ہم پھر امریکہ جانے لگے تو دیکھا کہ اس ڈائری میں پتوں کی تعداد ایک ہزار سے تجاوز کرگئی ہے اور اس میں مزید پتوں کے اندراج کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ گئی ہے۔ پھر بھی ہم اس ڈائری کو اپنے ساتھ لے گئے اور ایک نئی ڈائری میں نئے اور ضروری پتوں کو لکھنے لگے۔ پچھلے دس بارہ برسوں سے یہ ڈائری ہمارے پاس ایک عظیم مخطوطے یا ہمارے رشتوں اور تعلقات کے عالیشان مقبرے یا آخری آرام گاہ کے طور پر محفوظ ہے۔ ایک زمانہ تھا جب ہم پھیل کر خود زمانہ بن گئے تھے، مگر اب سمٹ کر ایک ایسا دلِ عاشق بن گئے ہیں

جس کی ہر دھڑکن یادوں کا خاموش طوفان بپا کردیتی ہے، جس کی ہر کسک اسے صبر و تحمل کا پتھر بنادیتی ہے اور جس کی ہر آواز لق ودق صحرا کی وسعتوں اور تنہائیوں میں تحلیل ہوکر اس بات کا اعلان کرتی ہے کہ اول فناء آخر فنا۔ کل ہمیں ذرا سا سکون میسر آیا اور فرصت ملی تو ہم نے پتوں کی اس ڈائری کو کھول کر پڑھنا شروع کیا۔ ایک دو صفحوں کے بعد ہی ہمیں اندازہ ہوا کہ اس ڈائری میں شامل کئی پتے اب ہمارے لئے لاپتہ ہوچکے ہیں۔ کئی رشتوں کی سانس اُکھڑ چکی ہے، تعلقات کی نبض رُک گئی ہے، قدرت نے مراسم کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے اور کئی بزرگوں اور احباب نے اس عالم فانی سے اپنا رشتہ توڑ کر عالم بالا میں مستقل سکونت اختیار کرلی ہے جہاں کا پتہ خود ہمیں بھی نہیں معلوم ہے(انشاء اللہ جلد ہی معلوم ہوجائے گا) ۔ ہم نے سوچا کہ جو لوگ اب اس دنیا کی گلیاں، سڑکیں، محلے اور شہروں کو چھوڑ کر چلے گئے ہوں اور جن کا اب اس دنیا سے کوئی تعلق ہی نہ رہ گیا ہو انہیں یہاں کے پتوں میں کیوں مقید رکھا جائے۔ ہمارا کرب یہیں سے شروع ہوا، اور دل پر یکے بعد دیگرے بجلیاں سی گرنے لگیں۔ اب آپ سے کیا چھپائیں کہ ساٹھ برس پہلے ہم حیدرآباد کے محلہ فرحت نگر کے ایک ایسے مکان میں رہتے تھے جہاں جانے کے لئے کئی تنگ گلیوں سے گزرنا پڑتا تھا

، جس کے باعث اجنبیوں کو ہمیں اپنے گھر کا پتہ سمجھانے میں ہمیشہ دشواری پیش آتی تھی۔ اتفاق سے ہمارے گھر کے بالکل عین سامنے واقع ایک مکان کی دیوار پر منجن بنانے والی ایک کمپنی نے اپنے منجن کا اشتہار جلی حروف میں لکھوا رکھا تھا۔ ہم یہ منجن تو نہیں استعمال کرتے تھے لیکن اجنبیوں کو اپنے گھر کا پتہ سمجھانے کے لئے اس اشتہار کو ضرور استعمال کرتے تھے۔ جب تک ہم فرحت نگر میں رہے، ہم نے اس اشتہار کی جی جان سے حفاظت کی۔ اشتہار والا مالک مکان جب بھی اپنے گھر کی سفیدی کراتا تھا تو ہم منت سماجت کرکے اس اشتہار کی حیات مستعار میں اضافہ کروا لیتے تھے۔ منجن بنانے والی کمپنی کب کی مرچکی تھی لیکن ہمارا پتہ برسوں زندہ رہا۔ سُنا ہے کہ جس دن ہم یہ گھر چھوڑ کر دہلی چلے گئے اس کے دوسرے ہی دن ہمارے پتے والے مکان کے مالک نے اپنی دیوار پر سفیدی پھیر کر ہمارے پتے کو نیست و نابود کردیا۔ ہمیں اس گلی میں رہتے ہوئے ہمیشہ غالب کے اس شعر کی یاد آجاتی تھی:

اپنی گلی میں دفن نہ کر مجھ کو بعد مرگ
میرے پتے سے خلق کو کیوں تیرا گھر ملے
آدمی کا پتہ اگرچہ ایک حقیر سی چیز ہوتا ہے کیونکہ اتنی بڑی کائنات میں ایک آدمی مختصر سے قیام کے لئے ایک مختصر سی جگہ میں جہاں جہاں رہتا ہے اس کی بھلا کیا اہمیت اور وقعت ہے، لیکن آدمی جب تک زندہ رہتا ہے اسے ہر دَم اپنا اتا پتہ عزیز ہوتا ہے اور وہ دوسروں کو اس سے آگاہ کراتا رہتا ہے۔ دنیا بالآخر فانی ہے لیکن اس بے نام و نشان اور گمنام کائنات میں کھوجانے اور معدوم ہوجانے سے قبل انسان اپنی ٹوٹی پھوٹی شناخت کو براعظموں، ملکوں، شہروں، محلوں اور گلیوں میں برقرار رہنے کے سوسو جتن کرتا ہے۔ یہاں تک کہ بالآخر سمٹ سمٹا کر نہ صرف دو گز زمین پر قانع ہوجاتا ہے بلکہ یہاں پہنچ کر بھی مزید قناعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے تو مشت خاک میں اور پھر بعد میں ایک ذرہ بے توقیر وناتحقیق میں تبدیل ہوکر بے نام و نشان ہوجاتا ہے۔ اسی عمل کا نام زندگی ہے، اور فناء ہوجانا ہی اصل میں بقاء کی علامت ہے۔
بہر حال ہم نے جب اپنی ڈائری میں سے لاپتہ پتوں کو کاٹنا شروع کیا تو لمحہ لمحہ دل پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہوتی چلی گئی۔ دل پر جبر کرکے کیسے کیسے نام اور کیسے کیسے پتے کاٹ دیئے اور ذرا سوچئے کہ کس دل سے کاٹے ہوں گے۔ ٹوکیو میں یونیسکو کے ایشیائی ثقافتی مرکز کے ڈائرکٹر جنرل ریوجی ایتوکا پتہ کاٹتے ہوئے ہماری آنکھیں لبریز ہوگئیں۔ یونیسکو کے سمینار میں پندرہ ممالک کے نمائندے شریک تھے لیکن ہمارے لئے ان کے دل میں ایک الگ ہی گوشتہ تھا۔ ہم یہ سمجھتے تھے کہ چونکہ ہم ہندوستان جیسے عظیم ملک کے نمائندے ہیں، اس لئے ان کے دل میں ہماری قدر و منزلت ہے۔ بے حد مصروف آدمی تھے لیکن ذرا سی فرصت ملتے ہی اپنے دفتر میں بلالیتے تھے۔ کسی دن ملاقات نہ ہوتی تو کوئی نہ کوئی تحفہ ہمارے ہوٹل پر روانہ کردیتے تھے۔

یہ عنایت خاص صرف ہمارے لئے مختص تھی۔ ٹوکیو کی آخری شام کو ریوجی ایتو اور بیگم ایتوا ساکسا کے علاقہ میں ہمیں لے کر ایک گیشا گھر میں گئے، جہاں جاپان کی کلاسیکی موسیقی کی دھنوں پر ہمیں حسب توفیق گیشاؤں کے ساتھ رقص بھی کرنا پڑا۔ ہمیں بار بار یہ خیال آتا تھا کہ جس ملک میں ریوجی ایتو جیسے لوگ رہتے ہوں وہاں کے لوگوں نے دوسری جنگ عظیم میں اتنے مظالم کیسے ڈھائے ہوں گے۔ کاش کہ دنیا آسانی سے سمجھ میں آسکتی۔ کیسے بتائیں کہ کیسے کیسے محترم، عزیز اور دلنواز ہستیوں کے پتے ہم نے اپنی ڈائری میں سے کاٹ دیئے۔ ایک ایک پتہ کٹتا تھا تو لگتا تھا کہ جذبوں اور احساسات کے ایک عالیشان محل کو ڈھایا جارہا ہے۔ پروفیسر سوزوکی تاکیشی، کنور مہندر سنگھ بیدی سحر، راجندر سنگھ بیدی، سردار جعفری، اخترالایمان، مجروح سلطان پوری، کیفی اعظمی، عزیز قیسی، باقر مہدی، شکیلہ بانو بھوپالی، امرتا پریتم، وقار لطیف، شیام لال ادیب، فکر تونسوی، صادقین، مشفق خواجہ، احمد ندیم قاسمی، پروفیسر سخا چوف، شان الحق حقی، محمد طفیل، سراج منیر، منیر نیازی، قتیل شفائی، آل احمد سرور، پروفیسر خورشید الاسلام، خواجہ عبدالغفور، ساغر نظامی، ملک راج آنند، سعید شہیدی، دھرم ویر بھارتی، حکیم عبدالحمید۔ سینکڑوں ناموں میں سے کن کن کے نام گنائیں۔

ایک ہزار پتوں میں سے جب ہم نے گزرے ہووؤں کے پتے کاٹ دیئے تو ہم نے غم جہاں کا حساب کیا۔ پتہ چلا کہ جملہ 790 ( سات سو نوے) پتے کٹ چکے ہیں۔ حساب کتاب اور حساب فہمی کے ہم قائل نہیں ہیں۔ اس لئے ریاضی میں کبھی پچیس فیصد سے زیادہ نشانات حاصل نہیں کرسکے۔ مگر جب احساس ہوا کہ 1980ء سے یہاں تک آتے آتے ہمارے اسّی فیصد تعلقات رحلت فرماچکے ہیں اور ہماری سماجی زندگی سمٹ سمٹاکر صرف بیس فیصد ہی باقی رہ گئی ہے تو ہمیں اپنی شخصی زندگی اچانک بہت چھوٹی نظر آئی بلکہ اتنی چھوٹی نظر آئی کہ ہم نے اپنے آپ کو مشت خاک سے گزر کر ایک ذرہ بے توقیر میں تبدیل ہوتے ہوئے محسوس کیا۔ اپنے کرم فرماؤں اور یارانِ رفتہ کے بچھڑ جانے اور ان سے اس دنیا میں پھر نہ مل پانے کے احساس نے شدت اختیار کی تو ہمیں سندھ کے مشہور صوفی بزرگ شاہ عبداللطیف بھٹائی کا ایک واقعہ یاد آگیا۔ شاہ عبداللطیف بھٹائی جس شہر میں رہتے تھے وہاں ڈاکووں نے ایک بار زبردست ڈاکہ ڈالا۔ ڈاکہ کی ایسی سنگین واردات پہلے کبھی پیش نہ آئی تھی۔ کوتوال شہر نے اعلان کیا کہ جو کوئی بھی ڈاکوؤں کا اتا پتہ بتائے گا یا ان کا سراغ دے گا اسے بھاری رقم دی جائے گی۔ انعام کی رقم اتنی بھاری تھی کہ سارے تندرست، صحت مند اور توانا لوگ ڈاکوؤں کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے ۔ دو دن بعد شاہ عبداللطیف بھٹائی بھی اپنے تکیہ سے غائب ہوگئے۔

دیگر نوجوان تو ڈاکوؤں کی تلاش کے لئے پہلے ہی سے نکلے ہوئے تھے۔ اب تو شاہ صاحب کے معتقدین اور مرید بھی ان کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے۔ چپہ چپہ چھان مارا لیکن کہیں بھی شاہ عبداللطیف بھٹائی نہ ملے۔ ایک دن شہر میں کسی معزز ہستی کی موت واقع ہوگئی اور لوگ اسے دفنانے کے لئے جیسے ہی قبرستان پہنچے تو دیکھا کہ شاہ عبداللطیف بھٹائی قبرستان کے ایک گوشہ میں بیٹھے ہوئے گیان دھیان میں مصروف ہیں۔ ان کے معتقدین نے حیرت سے پوچھا ’’ شاہ صاحب! آپ یہاں قبرستان میں کیا کررہے ہیں؟ ہم تو آپ کی تلاش میں ہر روز شہر کے گلی کوچوں اور جنگلوں کی خاک چھان رہے ہیں۔‘‘ اس پر شاہ صاحب نے کہا ’’ وہ جو کوتوال صاحب نے ڈاکوؤں کو تلاش کرنے کے لئے بھاری انعام کا اعلان کیا ہے اسی کو حاصل کرنے کی آس میں یہاں آیا ہوں ‘‘۔ ارادت مندوں نے دست بستہ عرض کی ’’ حضرت قبلہ ! ڈاکوؤں کو پکڑنے کے لئے آپ بستیوں اور جنگلوں میں جائیں۔ وہ آپ کو یہاں قبرستان میں کیونکر ملیں گے؟ ‘‘ شاہ صاحب نے بڑے اعتماد کے ساتھ فرمایا ’’ وہ چاہے کہیں بھی چلے جائیں، انہیں بالآخر آنا تو یہیں ہے‘‘۔ ہمیں اچانک احساس ہونے لگا ہے کہ اب ہمیں بھی اپنے بچھڑے ہوئے احباب کو پھر سے پانے کے لئے شاید تصوف کی اس منزل سے گزرنا پڑجائے گا۔ رہے نام اللہ کا۔ (ایک پرانی تحریر)