پتھر بازوں کی موت کے معاملے میں میجر ادتیہ کمار پر درج ایف ائی ائی سے دستبرداری کے لئے سپریم کورٹ میں مرکز نے لگائی گوہار

نئی دہلی۔ مرکزی کی مودی حکومت اور جموں اور کشمیر کی محبوبہ مفتی حکومت کے درمیان میں میجر ادتیہ کمار کو لے کر تلخیاں پیدا ہوسکتی ہیں‘ میجر ادتیہ کمار جس پر شوپیان میں پتھر بازی کرنے والے دولوگوں کی موت کا ذمہ دار ٹھراتے ہوئے ریاستی پولیس نے ایک ایف ائی آر درج کیاہے۔

سپریم کورٹ کی جانب سے آرمی عہدیداروں کے خلاف کی گئی کاروائی کے اٹھ روز بعد‘ مذکورہ مرکز نے اب میجر ادتیہ سے اپنی حمایت کے اظہار میں ایف ائی آر کو کالعدم قراردینے کا مطالبہ کیا ہے۔

مرکز نے سپریم کورٹ میں جو حلف نامہ داخل کیاہے اس کے مطابق’’ انڈین یونین اس معاملے کو حساس قراردیتے ہے ‘ موجودہ کی کیس میں یہ سمجھاجارہا ہے کہ ادارے کے قانونی عمل میں میں یہ مکمل طور پر امتناع ہوگا‘ سوائے مرکزی حکومت کے سابق کے تحدیدات کے۔ کہنا یہ ہے کہ درج ایف ائی آر غیر اہم ہے ‘ کیونکہ سابق کا کوئی امتناع پولیس کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ وہ ایف ائی آر درج کرے‘‘۔

جموں کشمیر کے محکمہ داخلہ کے اس سے پہلے اعلامیہ میں کہاگیاتھا کہ کے مصلح دستوں کی علاقائی طاقت کو امداد دہشت گرد سرگرمیوں کی روک تھام کے لئے ہے۔

مارچ6کے روز لفٹنٹ کرنل کمار ویر سنگھ کے والد اور ایک وکیل وینت دھانڈے کے پٹیشن پر ردعمل پیش کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے سوال اٹھایاتھا کہ کس طرح جموں او رکشمیر حکومت آرمی افسروں کے ساتھ عام مجرموں جیسا سلوک کرسکتی ہے۔مرکز نے کہاکہ ’’ یہ بات واضح ہے کہ جموں او رکشمیر میں غیرسماجی عناصر اور اور دہشت گرد قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں جس سے ریاست کی سکیورٹی پر اثر پڑرہا ہے۔

ان کے پاس خطرناک او رجدیدہتھیار رہتے ہیں ‘ اور یہاں تک کہ سرحد پار سے ہمارے ملک کے مفاد کو نقصان پہنچانے کے لئے انہیں مدد حاصل ہوتی ہے‘‘۔ حکومت نے یہ بھی کہا ہے کہ آندھرا پردیش ہائی کورٹ کی ایک پانچ رکنی بنچ نے ایک ایسے شخص کی موت پر جو پولیس افیسر کو اس کا کام کرنے سے روکنے یا سلف ڈیفنس کے دوران ہوئی تھی ‘ جن حالات میں یہ واقعہ پیش آیاتھا وہ یہا ں پر میجر ادتیہ کے کیس میں لاگو نہیں ہوتے۔

چیف جسٹس آف انڈیا کا بڑے تبصرہ اس وقت سامنے آیا جب ریاستی حکومت نے سپریم کورٹ میںیہ کہتے ہوئے یوٹرن کیاکہ میجر کمار کا نام ایف ائی آر میں شامل نہیں ہے۔ مگر بنچ نے کہاکہ جب بھی ان کا نام ایف آئی آر میں شامل کیاجائے تو کسی بھی ان کامحاصرہ کیاجاسکتا ہے۔اپنی رپورٹ میں مفتی یکومت نے شکایت کی ہے کہ فوج ان کے لیٹر کا جواب نہیں دے رہی ہے اور کہاکہ’’ کیا وہ قانون سے بالاتر ہیں؟ اور کیاان کو قتل کرنے کالائسنس حاصل ہے؟‘‘۔

اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے کہاکہ’’ ہزار فوجی ہماری حفاظت میں اپنی جان دیتے ہیں۔ مذکورہ حکومت ان واقعات پر اس طرح کی بحث نہیں کرتی‘‘۔سی جی ائی نے کہاکہ’’ منسوخی کے لئے معاملے کو 24اپریل کے روز فہرست میںآنے دیں۔دریں اثناء اس وقت تک ایف آئی آر کی بنا ء پر کسی قسم کی کوئی تحقیقات عمل میں نہیںآنے چاہئے‘‘