پاکستان کیوں دوستی نہیں چاہتا ؟

غضنفر علی خان

پاکستان کا موجودہ رویہ اور اس کی ماضی میں جو حکمت عملی رہی، اس کی روشنی میں یہ امید بسا اوقات حسرت میں بدل جاتی ہے کہ پاکستان کبھی ہندوستان سے پائیدار دوستی قائم کرے گا اور برصغیر ہند و پاک پر امکانی جنگ کے سیاہ بادل کبھی نہیں منڈلائیں گے ۔ پچھلے چند ہفتوں سے تو گویا دونوں ممالک کی سرحد پر جنگ جیسی صورتحال ہے۔ ہر روز کوئی نہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش آتا ہے ۔ دونوں ممالک کے امن پسند شہری مسکرانے کیلئے ترس جاتے ہیں۔ جنگ بندی کی خلاف ورزیاں تو جیسے پاکستان کیلئے معمول بن گئی ہیں۔ ہمارے سرحدی علاقوں کے گاؤں پاکستان کے رینجرس اور بعض باقاعدہ فوج کی فائرنگ شل باری سے تہس نہس ہورہے ہیں۔ گاؤں کے گاؤں انسانی آبادی سے خالی ہورہے ہیں۔ان آبادیوں کو کہیں ہندوستانی فوج کی محفوظ پناہ گاہوں میں رکھا جارہا ہے تو کہیں مہاجر کیمپوں میں وہ مقیم ہیں ۔ حالات اتنے سنگین ہوگئے ہیں۔ کشمیری علاقہ سانبا میں تو اتنی بربادی ہوئی ہے کہ ایک معمر دیہاتی نے جس کا گھربار ، مویشی سب کچھ تباہ ہوگیا ۔ ا یک ٹیلی ویژن پر یہاں تک کہہ دیا ’’روز روز کی شلباری نے ہماری زندگی اجیرن کردی ہے۔ اس سے بہتر یہ ہے کہ ہندوستانی فوج ایک بار آر پار کی جنگ کرلے‘‘ ۔ کسی علاقہ کی انسانی آبادی کبھی جنگ کی تجویز نہیں رکھتی۔ صرف اسی صورت میں یہ بات کہی جاسکتی ہے جبکہ زندگی مشکل ہوجائے۔ سانبا کے ہی لوگ نہیں، سرحدی گاؤں کے دوسرے لوگ بھی روزانہ کی شلباری اور موٹار برسانے یا فائرنگ سے جو پا کستان کر رہا ہے،

بیزار ہوگئے ہیں اور رفتہ رفتہ دونوں ملک جنگ کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یہ بڑی بدبختی کی بات ہے کہ یہ دو ملک کبھی ایک ہی تھے۔ 1947 ء میں برصغیر کی تقسیم ہوئی اور پاکستان وجود میں آیا۔ متحدہ ہندوستان میں جنگ کی بات ہی نہیں ہو سکتی تھی ۔ آج 67 کی عمر والے پڑوسی ملک پاکستان نے ہزاروں سالہ قدیم تہذیب ، تمدن اور اپنی تاریخ رکھنے والے ملک کے عوام کو اگر یہ کہنے پر مجبور ہوگئے ہیں بلکہ کیوں نہ ایک بار آر پار کی جنگ کرلی جائے تو پاکستان کو سوچنا چاہئے کہ ہندوستان کیا کرسکتا ہے۔ پاکستان کی جانب دوستی کا ہاتھ ہمیشہ ہندوستان نے بڑھایا۔ سابق وزیراعظم ہندوستان اٹل بہاری واجپائی جس کے ذریعہ دہلی سے لاہور گئے تھے تاکہ دونوں ممالک میں زمینی راستے کھلیں اور عوام کا آنا جانا شروع ہو۔ اس بس کو پاکستان نے واگھا تک محدود کردیا ہے لیکن دوستی کی اس فضاء کو پاکستان نے مسمار کردیا ۔ اسی دوران پا کستانی فوج نے کارگل کے علاقہ میں دراندازی کی اور ہند۔پاک دوستی کا منہ چڑھایا تھا ۔ سابق فوجی جنرل اور صدر پاکستان پرویز مشرف نے ہندوستان کا دورہ کیا تھا، لیکن بات چیت مکمل ہونے سے پہلے ہی آدھی رات کو بلا علم و اطلاع واپس پاکستان چلے گئے تھے ۔ ایسی کئی مثالیں دی جاسکتی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان ہمارے ملک سے دوستی کا خواہاں ہی نہیں ہے۔ دونوں ممالک نیوکلیئر طاقت کے حامل ہیں ۔ ہندوستان کا دانشور طبقہ سوچتا ہے کہ اگر خدانخواستہ ان کے درمیان جنگ ہو تو پھر پاکستان کی جانب سے نیوکلیئر اسلحہ استعمال ہوسکتا ہے۔ ممکن ہے کہ یہ خدشہ غلط ہو لیکن اس اندیشہ کی وجہ یہ ہے کہ پا کستان میں نیوکلیئر اسلحہ محفوظ ہاتھوں میں نہیں ہے، جبکہ ہندوستان کا سیاسی نظام اتنا مستحکم ہے کہ نیوکلیئر ہتھیار بن گیا، یہاں فوج اپنی مرضی سے کچھ نہیں کرسکتی۔ ہندوستانی فوج تو ملک کی عاملہ مقننہ اور عدلیہ کے احکام کی تعمیل کرتی ہے ۔ اندیشہ اس لئے بھی ہے کہ پاکستان میں فوج وہاں کی جمہوریت میں سب سے زیادہ طاقتور عنصر ہے ۔

حکومت اس کے آگے مجبور و بے بس ہے یا ہوجاتی ہے ۔ جمہوریت وہاں کبھی پھولی پھلی نہیں جبکہ ہندوستان میں اس کی جڑیں اتنی مضبوط ہیں کہ ہندوستان کے جمہوری نظام کو کوئی طاقت نہیں بدل سکتی۔ پاکستان کیوں ہمیشہ چھیڑ خانی کرتا ہے، کیوں امن سے دور بھاگتا ہے، ایسا سوال ہے جس پر ہندوستان سے کہیں زیادہ پاکستان کی جمہوریت پسند عناصر اور طاقتوں کو غور کرنا چاہئے ۔ فی الحال جو سرحدی خلاف ورزیاں متواتر ہورہی ہیں، وہ بھی کسی خاص مقصد کے تحت ہورہی ہیں ۔ ابھی پاکستان کی ایک کشتی کا واقعہ ہوا۔ ہندوستان نے واضح کردیا ہے کہ یہ کشتی کراچی سے نکلی تھی اور گجرات کے بوربندر کے سمندری حصہ میں گھس رہی تھی کہ ہندوستان کے کوسٹ گارڈس نے اس کو رکنے کیلئے کہا لیکن یہ کشتی اور اس میں سوار نے ہدایت پر عمل نہیں کیا اور بوٹ کو دھماکے سے اڑادیا۔ اگر یہ کشتی اسمگلرس نے لائی تھی تو انہیں اس کو تباہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی ۔ اسمگلنگ تو عام طور پر ہوتی ہے اور ایسا کرنے والے کبھی خود کو موت کے گھاٹ نہیں اتارتے۔ کشتی سواروں کا یہ اقدام ثابت کرتا ہے کہ وہ سمندر کے راستے سے ہندوستان میں دہشت گردی کرنے کے ارادے سے آئے تھے ۔ اس وقت یہ مسئلہ کافی گرم ہے ۔ ہندوستان کے وزیر دفاع کا بھی یہی کہنا ہے کہ کشتی میں سوار پاکستانی دہشت گرد تھے ۔ اگر دہشت گردی مقصد تھا تو اس سے آخر پاکستان کیا حاصل کرنا چاہتا ہے ۔ ممبئی حملوں کی طرح کا حملہ اس کا مقصد تھا تو خود پاکستانی عوام یہ پوچھ سکتے ہیں کہ حملہ میں چند ہندوستانی شہری فوت بھی ہوئے ہیں تو اس سے پاکستان کو آخر کیا فائدہ ہوگا ۔

کیا ممبئی حملہ سے پا کستان نے کچھ حاصل کیا ؟ نہتے عوام کی جان لے کر کسی ملک کی فوج کچھ حاصل نہیں کرسکتی۔ پاکستان کے شہر پشاور میں دہشت پسند انسانی دشمنوں نے جو کارروائی ملٹری اسکول میں کی اس سے پاکستان کے ان دہشت پسندوں کو کیا حاصل ہوا، جو ہندوستان کے کسی شہر کے چند بے گناہ شہریوں کی ہلاکت سے ہوگا ۔ یہ بے فیض بے مقصد کارروائیاں آخر پا کستان کیوں کرتا ہے۔ اس سے پاکستان کو اسٹراٹیجک تو کوئی فائدہ نہیں ہوگا ۔ اس کے باوجود سرحد پر خلاف ورزیاں کرتے ہوئے پا کستان یہ ثبوت دے رہا ہے کہ وہ دہشت گردانہ کارروائیوں سے ہندوستان کو پریشان کرسکتا ہے ۔ پشاور سانحہ کے بعد یہ توقع پیدا ہوگئی تھی کہ دہشت گردی اور ہندوستان سے چھیڑ چھاڑ کی عادت سے پا کستان باز آجائے گا یا کم از کم پا کستان میں اس سانحہ کے بعد جو حالات پیدا ہوتے ہیں، ان سے کچھ سبق سیکھے گا۔ اگر یہ نہیں تو کم از کم اپنے ملک کے اندر پا کستانی طالبان اور اس قسم کے دیگر انتہا پسندوں کے خلاف سخت کارروائی کرے گا لیکن پا کستان نے ایسا نہیں کیا بلکہ اپنی اندرونی صورتحال پر سے توجہ ہٹانے کیلئے سرحدی مورچہ گرم کردیا ۔ یہ بات قرین قیاس نہیں بلکہ تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان کی داخلی صورتحال قابو سے باہر ہوچکی ہے ۔ سرحدی ماحول گرم کر کے پا کستان اپنے عوام کو یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ پڑوسی ملک ہندوستان سے جنگ کا خدشہ ہے۔ پاکستانی عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکتے ہوئے سرحد پر جنگ جیسا ماحول پیدا کردیا گیا ہے ورنہ کیوں اور وجہ بظاہر دکھائی نہیں دیتی کہ سرحد پر اس قسم کی خلاف ورزیاں کی جائیں ۔ آج کل پاکستان اور چین کے درمیان دوستی کے بہت چرچے ہیں۔ پاکستان ممکن ہے کہ یہ سوچتا ہو کہ سرحدی صورتحال کو بگاڑ کر وہ چین کو بھی اس جانب راغب کرسکتا ہے ۔ چین نہ تو پاکستان کا دوست ہوسکتا ہے اور نہ کبھی ہندوستان کا سچا دوست رہا ہے ۔ آج بھی ہند۔چین سرحد کا مسئلہ برقرار ہے ۔ ہندوستان اس دیرینہ حل طلب مسئلہ کا کوئی حل تلاش کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے لیکن چین ہر مرتبہ ایسی کوشش کو ناکام بنادیتا ہے ۔ پاکستان کو یہ سمجھ لینا چاہئے کہ چین اس کا بھی دوست نہیں ہوسکتا ۔ یہ تیور جو پاکستان نے اختیار کئے ہیں اس کیلئے بے حد مہنگے سودا ثابت ہوں گے ۔ صرف ایک ہی راستہ ہے کہ ہندوستان کے ساتھ پائیدار امن کی نئی بنیادوں کو پاکستان تلاش کرے اور ’’چھیڑ خوبان سے چلی جائے اسد‘‘ کی روش ترک کرے۔