اسلام آباد، 6 فروری (سیاست ڈاٹ کام) حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حالیہ دور میں ملکی قرضوں میں 35 فیصد اضافہ ہوا، جس کے بعد اس وقت ملک کا مجموعی قرضہ 18 کھرب 28 ارب سے زائد ہو چکا ہے ۔ گزشتہ ہفتے قومی اسمبلی میں پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی رکن اسمبلی شاہدہ رحمانی کی جانب سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں وزارت خزانہ نے ایوان کو بتایا کہ 30 ستمبر 2016 تک ملک پر 18 کھرب 2 ارب 77 کروڑ 60 لاکھ روپے قرض تھا۔وزارت خزانہ کے مطابق تین سال قبل یعنی مالی سال 2013-2012 کے اختتام تک ملکی قرضوں کا حجم 13 کھرب 48 ارب روپے تھا، اس قرض کی بڑھنے کی اہم وجہ گھریلو قرض میں 40 فیصد اضافہ تھا، یہ قرض مالی سال 2013 کے اختتام تک 8 کھرب 68 ارب روپے تھا، جو رواں مالی سال کی پہلی سہ ماہی میں بڑھ کر 12 کھرب 41 ارب تک پہنچ گیا۔اسی دورانیے میں غیر ملکی قرضوں میں 28 فیصد اضافہ ہوا، یہ قرضے مالی سال 2013 میں 4 کھرب،7 ارب 69 کروڑ تھے ، جو 30 ستمبر 2016 تک بڑھ کر 6 کھرب 14 ارب تک پہنچ گئے ۔ملکی قرضوں میں اضافے کی وجوہات بیان کرتے ہوئے وزارت خزانہ نے کہا کہ قرضے دراصل مالی خسارے میں اعانت کے لیے حاصل کیے گئے تھے ، جس کی پارلیمنٹ سے منظوری لی گئی تھی، اقتصادی ترقی کی رفتار تیز کرنے ، ضروری ملکی وسائل کو بڑھانے اور ملک کے بنیادی ڈھانچے کی تیاری کے لیے کچھ مالی امداد بیرون ملک سے حاصل کی گئی۔وزارت خزانہ کے مطابق ان قرضوں کو قومی اہمیت کے منصوبوں کی مالی اعانت کے لیے حاصل کیا گیا، جن میں بجٹ اور ادائیگیوں کے توازن، زلزلوں اور سیلابوں کے بعد دوبارہ بحالی میں مدد، یوریا، کھاد اور کروڈ آئل کی برآمد جیسے منصوبے شامل ہیں۔وزارت کے مطابق یہ قرضے لینے کا ایک اور مقصد زرمبادلہ کی شرح میں اتار چڑھاؤ سے حفاظت اور بیرونی جھٹکوں کو برداشت کرنے میں مدد حاصل کرنا تھا۔
وزارت خزانہ نے گھریلو قرضوں سے متعلق وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ یہ قرضے زیادہ تر سالہا سال ہونے والی مالی اعانت کی ضروررت کے تحت حاصل کیے جاتے ہیں، جب کہ حالیہ حکومت کی جانب سے حاصل کیے گئے زیادہ تر غیرملکی قرضوں کا مقصد حکومت کے طویل المدتی معاشی منصوبوں کی اعانت کرنا ہے ، جنھیں بجٹ کے تحت متعین کردہ قرض کی ادائیگیوں کے شیڈول کے ذریعے واپس کیا جائے گا۔وزارت نے اپنے جواب میں دعویٰ کیا ہے کہ حکومت گزشتہ تین سال کے دوران اقتصادی خطرات کو نمایاں طور پر کم کرنے ، جب کہ مختلف تعمیری ڈھانچوں کو بہتر بنانے میں کامیاب ہوئی ہے ، جس کی وجہ سے گھریلو قرضوں کی واپسی اور اخراجات میں کمی ممکن ہوئی۔وزارت نے مثال دیتے ہوئے کہا ہے کہ قومی معیشت گزشتہ تین سال کے دوران گراس ڈومیسٹک پروڈکٹ (جی ڈی پی) کی اصل رفتار 4 فیصد برقرار رکھنے کے قابل ہوئی، جس کی بدولت سال 2016-2015 میں جی ڈی پی کی شرح گزشتہ 8 سال کے دوران سب سے زیادہ یعنی 4.71 فیصد تک پہنچی۔معیشت میں بہتری کی وجہ سے مصنوعات کی پیداوار بہتر اور اجرتوں میں اضافہ ہوا جس نے بنیادی ڈھانچے کو بہتر بنانے میں مدد فراہم کی۔وزارت نے مزید بتایا کہ پاک-چین اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے سے منسلک توانائی اور انفرااسٹرکچر کے منصوبوں سے آنے والے سال میں ملک کی جی ڈی پی میں مزید 2 فیصد اضافے کی امید ہے ۔ حکومت نے جی ڈی پی کا مالی خسارہ بھی کم کرنے کا دعویٰ کیا ہے ، حکومت کے مطابق مالی سال 2014-2013 میں یہ خسارہ 8.2 فیصد تھا جو مالی سال 2016-2015 میں کم ہوکر 4.6 فیصد رہ گیا۔اس کے علاہ وزارت نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ حالیہ حکومت نے گزشتہ حکومت کی جانب سے حاصل کیا گیا 12 ارب امریکی ڈالر کا غیر ملکی قرضہ واپس بھی کیا۔ اس وقت ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر 23 ارب ڈالر سے زائد ہیں، جب کہ یہ ذخائر جون 2013 کے اختتام تک صرف 11 ارب ڈالر تھے ۔وزارت نے ٹیکس چھوٹ کو بھی ختم کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا کہ اس سے جی ڈی پی میں اضافہ ہوا، ٹیکس چھوٹ کی وجہ سے مالی سال 2013-2012 میں جی ڈی پی میں 9.8 فیصد اضافہ ہوا تھا، جسے ختم کرنے کے بعد سال 2016-2015 میں جی ڈی پی کی شرح میں 12.4 فیصد اضافہ ہوا۔وزارت خزانہ کے مطابق پبلک سیکٹر میں سرمایہ کاری میں بھی اضافہ ہوا۔ سال 2013 میں یہ سرمایہ کاری 348 ارب تھی جو رواں سال بڑھ کر 800 ارب تک پہنچ گئی۔