ممبئی حملوں کے بعد انسداد دہشت گردی کو اولین ترجیح، ایس ایم کرشنا کیساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے ہیلاری کلنٹن کا خطاب
نئی دہلی۔ 19 جولائی (پی ٹی آئی) امریکہ نے آج دہشت گرد حملوں سے بچنے کیلئے ہندوستان کو اس کی کوششوں میں اپنی طرف سے بھرپور تعاون کا عہد کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے معاملے میں پاکستان پر جس حد تک ممکن ہوسکے دباؤ ڈالا جائے گا۔ امریکہ نے یہ اعتراف بھی کیا کہ ممبئی کے حالیہ سلسلہ وار دھماکوں کے بعد انسداد دہشت گردی کے اقدامات کو مزید اہمیت اور اولین ترجیح حاصل ہوگئی ہے۔ امریکہ وزیر خارجہ ہیلاری کلنٹن نے ہند۔ امریکی حکمت عملی مذاکرات کے دوسرے مرحلے میں آج اپنے ہندوستانی ہم منصب ایس ایم کرشنا سے بات چیت کے بعد کہا کہ داخلی سلامتی اور انسداد دہشت گردی جیسے مسائل پر اولین ترجیح دینے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ اور ہندوستان جیسے دونوں ملکوں کو دہشت گردی کی لعنت سے بچانے اور ہر طرح محفوظ رکھنے کے راستے تلاش کئے جارہے ہیں۔ مسز کلنٹن نے دعویٰ کیا کہ پاکستان پر یہ واضح کردیا گیا ہے کہ ہر قسم کی دہشت گردی اور انتہا پسندی سے نمٹنا خود پاکستان کے مفادات میں ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اس بات پر ہم ہرگز یقین نہیں رکھتے کہ دنیا میں کہیں ایسے بھی دہشت گرد ہوں گے جنہیں کسی حکومت کی طرف سے محفوظ پناہ گاہیں اور آزادانہ نقل و حرکت کے راستے فراہم کئے جاتے ہوں گے، کیونکہ اگر ایسی سرگرمیوں کو نظرانداز کردیا جاتا ہے تو اس کے انتہائی سنگین عواقب برآمد ہوتے ہیں، جن سے نمٹنا اور کنٹرول کرنا دشوار ہوجاتا ہے۔ مسٹر کرشنا کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ممبئی پر 2008ء کے دہشت گرد حملے کے بعد امریکہ نے انتہائی واضح انداز میں یہ کہہ دیا تھا کہ یہ ساری بین الاقوامی برادری کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ ان حملوں کے سازشیوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کیلئے حتی المقدور تعاون کرے۔ امریکہ نے بالخصوص پاکستان سے اصرار کیا تھا کہ وہ مکمل شفافیت اور عجلت کے ساتھ اس ضمن میں عملی قدم اٹھائے کیونکہ یہ اس (پاکستان کی ذمہ داری ہے۔ مسز کلنٹن نے کہا چونکہ یہ امریکہ کی پالیسی بھی ہے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ 2008ء کے ممبئی حملوں کے سازشی عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے۔ ظاہر ہے کہ ہندوستان اور امریکہ جو کچھ بھی کریں گے ، ان کی بھی اپنی حدیں ہیں، لیکن ہم چاہتے ہیں کہ جہاں تک ممکن ہوسکے، پاکستان پر زیادہ سے زیادہ دباؤ برقرار رکھا جائے۔ مسز کلنٹن 2008ء کے ممبئی حملے کے سازشیوں کو کیفرکردار تک پہونچانے میں پاکستان کی ناکامی سے متعلق ایک سوال کا جواب دے رہی تھیں۔ پاکستان پر دباؤ ڈالنے سے متعلق امریکی دعوے پر بھی سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ مسز ہیلاری کلنٹن نے دعویٰ کیا کہ ہندوستان اور پاکستان کے مابین مذاکرات سے امریکہ کو خوشی ہوئی ہے اور کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ حوصلہ افزاء اندازِ فکر ہے جس سے دونوں ممالک کے درمیان مزید اعتماد سازی کی راہ ہموار ہوگی اور وہ ایسے قدم اٹھا سکیں گے جن سے بہتر ماحول کا مظاہرہ ہوگا جو دہشت گردی جیسے اہم مسئلہ سے نمٹنے کے لئے ضروری ہے۔ مسٹر کرشنا اور مسز کلنٹن دونوں ہی نے پاکستان میں دہشت گردوں کو محفوظ پناہ گاہوں کے مکمل خاتمے اور صفائے کی ضرورت پر زور دیا۔ دونوں قائدین کی ملاقات کے بعد جاری کردہ مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں واقع دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانوں کا خاتمہ خود پاکستان کے مستقبل اور سارے علاقہ میں استحکام و سلامتی کیلئے سازگار ہوگا۔ امریکی وزیر خارجہ ہیلاری کلنٹن نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف امریکہ کی عالمی مہم میں پاکستان بھی ایک کلیدی حلیف ملک ہے۔ امریکہ نے پاکستان پر بارہا یہ واضح کردیا ہے کہ دہشت گردی سے ہم دونوں کو سنگین خطرہ لاحق ہے۔ مسز کلنٹن نے کہا کہ ’’ہم اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ پاکستان کو چاہئے کہ وہ اپنے عوام، اپنی علاقائی سالمیت، اپنے اقتدارِ اعلیٰ کے تحفظ کے لئے پہلے خود اپنے طور پر دہشت گردی کے خلاف کارروائی کرے۔ مسز کلنٹن نے ہندوستان کے ساتھ سیول نیوکلیر سمجھوتہ کے بارے میں کہا کہ امریکہ اس سمجھوتہ کا مکمل طور پر پابند ہے، لیکن ہندوستان سے خواہش کی کہ وہ نیوکلیر نقصانات کے بارے میں اقوام متحدہ کی روایات کے مطابق مناسب تعمیل و ترمیم کرے تاکہ نقصانات پر ہرجانہ قواعد کو بین الاقوامی ضابطوں سے ہم آہنگ کیا جاسکے۔ مسز کلنٹن نے اس ضمن میں ایک سوال پر جواب دیا کہ ہم اپنے سمجھوتہ پر مکمل طور پر قائم تو ہیں لیکن چاہتے ہیں کہ ہندوستان بھی اپنے طور پر درکار تبدیل کرے تاکہ اس سمجھوتہ کو ہر صورت میں قابل عمل اور قابل نفاذ بنایا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس سمجھوتہ کے پابند ہیں کیونکہ اس سمجھوتہ کی تکمیل کے لئے ہم نے سخت محنت کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ چار رکنی نیوکلیر سپلائرس گروپ (این ایس جی) میں ہندوستان کی شمولیت کی امریکہ مکمل تائید کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ مرحلہ وار اساس پر ہندوستان کو این ایس جی میں شامل کیا جائے۔