امتیاز متین، کراچی
اسے ہم پاکستان کا دورِ ابتلا نہ کہیں تو اور کیا کہیں؟ جہاں حکمراں طبقات اپنی ناجائز دولت کو بچانے کی فکر میں پڑے ہوں، وزیر اعظم اور ان کے حواریوں کی مالی غلط کاریوں کے دستاویزی ثبوت منظر عام پر آنے کے باوجود حکومتی وزرا یہ کہہ رہے ہوں کہ ان کے خلاف انتقامی کارروائی کی جا رہی ہے۔ پشاور میں اسکول پر دہشت گردوں کے خونریز حملے کے بعد ایک نیشنل ایکشن پلان بنایا گیا تھا لیکن حکومت پہلے بھی اس پر ایک حد سے آگے بڑھنے کے لیے نہ پہلے آمادہ تھی اور نہ ہی اب نظر آتی ہے بلکہ اب تو یہ لگتا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان اور دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف کوئی کارروائی کرنا حکومتوں کی ترجیحات میں شامل ہی نہیں رہا ہے کیونکہ ہر قسم کی دہشت گردی اور بدعنوانی کے پیسے کے تال میل کو توڑنے میں حکمراں طبقات کی کوئی دلچسپی نظر نہیں آتی۔ آپریشن ضربِ عضب نے پاکستان کے طول و عرض میں جاری دہشت گردی اور سنگین جرائم کی کی شدت میں بڑی حد تک کمی کر دی تھی جس کے نتیجے میں جنرل راحیل شریف کو اتنی مقبولیت حاصل ہوئی کہ وزرا کی نیندیں حرام ہونے لگی تھیں لیکن وہ اپنے وقت پر ریٹائرمنٹ لے کر فوج سے علیحدہ ہو گئے اور سعودی عرب کی سربراہی میں دہشت گردی کے خلاف بننے والے فوجی اتحاد کے سپہ سالار بن گئے۔ نئے آرمی چیف کی تقرری پر حکمراں طبقات کی جانب سے ایسی خوشیوں کا اظہار کیا گیا تھا کہ جیسے وہ آکر سارے معاملات کا رخ ان کے حق میں پھیر دیں گے لیکن ایسا نہیں ہو سکا کیونکہ سپریم کورٹ میں پانامہ پیپرز کیس جس طرح چل رہا تھا وہ اسی طرح چلتا رہا بلکہ سپریم کورٹ نے اپنے ایک عبوری فیصلے میں جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم بنا کر وزیر اعظم میاں نواز شریف، ان کے بچوں، رشتہ داروں اور دوستوں کو نہ صرف کٹہرے میں لا کھڑا کیا ہے بلکہ انہوں نے اپنی مالی دستاویزات میں جو ہیر پھیر کیے تھے انہیں بھی کھول کر رکھ دیا ہے جبکہ مختلف مالی اداروں میں انہوں نے اپنے جن لوگوں کا تقرر کیا تھا، ان کے حوالے سے بھی جے آئی ٹی کے سامنے وعدہ معاف گواہ بننے کی خبریں منظر عام پر آئی ہیں اور جب انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی نے ہم پر دبائو ڈالا تھا تو انہیں اسے حوالے سے پوچھ گچھ کے لیے دوبارہ طلب کر لیا گیا۔ ملک کی عدالتیں متحرک ہیں، بیوروکریسی غیر جانبدار ہو رہی ہے اور فوج کی جانب سے پہلے ہی یہ تاثر دیا جا چکا ہے کہ ان کا ملک کی سیاست اور اقتدار کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے، ان کے پاس اپنے کرنے کے کام بہت زیادہ ہیں لیکن اس کے باوجود اگر کوئی معاملہ سنگین نوعیت اختیار کر جائے تو لگتا ہے کہ سول ادارے کسی کام کے نہیں ہیں اور یہ کام فوج ہی کرے گی۔
چند برس پہلے جب پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی تقریباً انتہائی نچلی سطح پر پہنچ گئی تھی تو تمام کھلاڑیوں کی فزیکل ٹریننگ اور فٹنس کے لیے فوج کا سہارا لیا گیا تھا جنہوں نے ٹیم کو میچ جیتنے کے قابل بنا دیا تھا اور جب اسی ٹریننگ کے زیر اثر کھلاڑیوں نے میچ جیتنے کے بعد میدان میں ’’پش اپس‘‘ کرنا شروع کیے تو کئی وفاقی وزرا نے اسے حکومت کے خلاف فوج کا پیغام سمجھ کر لرزنا شروع کر دیا تھا۔ شاید یہ اسی تربیت کا تسلسل ہے کہ پاکستان کی ٹیم نے چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں شاندار کامیابی حاصل کی ہے۔ پاکستان میں اس جیت کو کرکٹ ورلڈ کپ میں حاصل ہونے والی فتح سے مماثل تصور کیا جا رہا ہے۔ اور یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ورلڈ کپ اور چیمپیئنز ٹرافی کے فائنل کی ایک قدر مشترک یہ ہے کہ یہ دونوں 22 رمضان کو منعقد ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ ہی یہ خیال ظاہر کیا جا رہا ہے کہ کم از کم بھارت پاکستان سے کوئی میچ رمضان میں نہیں کھیلے گا۔ عید سے پہلے عید کا تحفہ ملنے کی زیادہ خوشی کا ایک بڑا سبب بھارتی میڈیا اور سوشل میڈیا پر نشر ہونے والے وہ متکبرانہ تاثرات تھے جس کی وجہ سے میچ بھارتی شائقین کے لیے شاید کچھ اور بنا دیا گیا تھا۔ سچ تو یہ ہے کہ بھارتی شائقین کو اپنے ٹی وی چینلز سے یہ سوال ضرور پوچھنا چاہیے کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا؟ ادھر پاکستان میں فاتح ٹیم کے گھر لوٹنے والے کھلاڑیوں کا ان کے آبائی شہروں میں شاندار استقبال کیا گیا لیکن پاکستان کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی یہ خوشیاں اس وقت ماند پڑ گئیں جب ایک ہی دن میں دہشت گردوں نے پاکستان میں کئی حملے کیے۔ افغانستان کے علاقے تورا بورا اور افغان سرحد کے نزدیک ترین شہر پارا چنار میں یکے بعد دیگر دو دھماکے ہوئے جن میں 72 افراد جاں بحق اور 200 سے زیادہ زخمی ہو گئے جبکہ کوئٹہ میں آئی جی پولیس کے دفتر کے قریب ہونے والے خود کش حملے میں سات پولیس اہلکاروں سمیت 14 افراد جاں بحق اور 19 افراد زخمی ہو گئے، اسی روز شام کے وقت کراچی میں دہشت گردوں نے ایک پولیس موبائل کو اس وقت نشانہ بنایا جب اس میں بیٹھے ہوئے چار پولیس اہلکار روزہ افطار کر رہے تھے۔ موٹر سائیکل سواروں کے اس حملے میں چاروں اہلکار شہید ہوگئے۔ ملک میں دہشت گردوں کے خلاف مسلسل آپریشنز کا سلسلہ جاری ہے جس میں مختلف علاقوں میں کی جانے والی چھاپہ مار کارروائیوں میں دہشت گردوں کے پکڑے جانے، مارے جانے اور بھاری مقدار میں جدید اسلحہ اور ہلاکت خیز گولہ بارود پکڑے جانے کی خبریں میڈیا میں نشر کی جاتی رہتی ہیں لیکن اس کے باوجود دہشت گرد گروپس اپنی کارروائیاں کر جاتے ہیں کبھی گوادر کے نزدیک تعمیراتی کاموں میں مصروف مزدوروں کو ہلاک کیا جاتا ہے تو کبھی کوئٹہ میں چینی باشندوں کو اغوا کر لیے جانے جیسے خبریں آتی ہیں۔
ابھی لوگ دہشت گردی کے ہلاکت خیز واقعات کے صدمے سے نکل نہیں پائے تھے کہ جنوبی پنجاب کے علاقے احمد پور شرقیہ میں انتہائی ہلاکت خیز سانحہ اس وقت رونما ہوا جب ہائی وے پر پیٹرول سے بھرا ایک ٹینکر الٹ گیا۔ ٹینکر سے بہنے والا پیٹرول ایک کھیت میں بنی نالیوں میں جمع ہونے لگا جسے جمع کرنے وہاں بڑی تعداد میں لوگ جمع ہو گئے۔ کہا جاتا ہے کہ پولیس اور ٹرک کے ڈرائیور نے ان لوگوں کو وہاں سے دور ہٹ جانے کے لیے کہا تھا لیکن پیٹرول جمع کرنے کے لالچ میں دیکھتے ہی دیکھتے ڈھائی سو سے زیادہ افراد وہاں جمع ہو گئے۔ یہ سلسلہ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک جاری رہا اور پھر اچانک ہلاکت خیز آگ نے وہاں موجود تمام لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور ٹینکر دھماکے سے پھٹ گیا۔ سوشل میڈیا پر پیٹرول جمع کرنے اور آگ بھڑکنے کے کے مناظر کی وڈیوز گردش کرتی رہی ہیں جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ آگ ایک طرف سے آئی اور جو جہاں تھا وہ وہیں گر گیا۔ اس حادثے میں اب تک 190 افراد کی ہلاکت ہو چکی ہے جبکہ ایک سو سے زیادہ جھلسے ہوئے افراد اب بھی زیر علاج ہیں۔ اس حادثے کے بعد ملک بھر میں یہ بحث شروع ہوئی ہے کہ لوگ اپنی غربت کی وجہ سے ایسا کر رہے تھے یا لالچ یا جہالت کی وجہ سے ایسا کر رہے تھے۔ ان لوگوں کو غریب اس لیے نہیں کہا جا سکتا کہ وہاں 80 موٹر سائیکلیں اور تین چار گاڑیاں بھی جلی ہیں جن میں ایک نئی گاڑی بھی شامل ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب حکمراں طبقات کی لوٹ مار اتنی زیادہ بڑھ جائے کہ وہ اسے اپنا ٹیلنٹ سمجھنے لگیں تو پھر عوام بھی ایسے موقعے سے فائدہ اٹھانے کی بھر پور کوشش کرتے ہیں۔ تاہم دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے واقعات سے کوئی عبرت اور سبق حاصل نہیں کرتا بلکہ لوگ اپنے آپ کو صحیح سمجھتے ہیں۔ وہ بدنصیب لوگ اپنی جہالت کی نظر ہو گئے لیکن کیا ان لوگوں کو لالچی کہنے والوں کے سامنے کرنسی نوٹوں یا سونے سے بھرا ہوا کوئی ٹرک الٹ جائے تو پھر کیا ہوگا؟ نتیجہ شاید اس سے بھی زیادہ ہلاکت خیز نکلے۔
گزشتہ ہفتے سندھ کی سیاست میں بھونچال اس وقت آیا جب ذوالفقار علی بھٹو کے پوتے اور بے نظیر بھٹو کے بھتیجے اور میر مرتضیٰ بھٹو کے بیٹے ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کا ایک ویڈیو انٹرویو منظر عام پر آیا جو انہوں نے امریکہ میں دیا تھا جہاں وہ ان دنوں آرٹ کے ایک پروجیکٹ پر کام کر رہے ہیں۔ یہ انٹرویو جہاں گزشتہ چار عشروں سے سندھ میں جاری شہیدوں کے لہو کی سیاست کی نفی کرتا ہے بلکہ سندھ کے ظلم اور جبر کے ماحول اور وڈیرہ شاہی سیاست کی نفی کرتا ہے وہیں ان مختلف جنسی رجحانات بھی سوشل میڈیا پر بحث کا موضوع بنے رہے ہیں۔ حالانکہ اس میں ایسی کوئی نئی بات نہیں ہے جنرل پرویز مشرف میں سندھ کی وڈیرہ شاہی کا ایک ایسا شخص وزیر اعلیٰ بن گیا تھا جو رات کو ساڑھی پہن کر اپنے نوجوان دوستوں کے سامنے ڈانس کیا کرتا تھا۔ جب یہ خبریں ایوان صدر تک پہنچیں تو انہیں چند دن بعد وزیر اعلیٰ کے عہدے سے ہٹا دیا گیا۔ خود وڈیرہ شاہی اور ملک کے حکمراں طبقات میں عجب عجیب تماشے ہیں جن کے بارے میں کبھی کبھار کوئی خبر منظر عام پر آتی ہے، شاید یہی وجہ ہے کہ شیخ رشید احمد کہتے ہیں کہ پاکستان کے جتنے بڑے لیڈرز ہیں ان سب کی اولادیں نالائق ہیں۔ تاہم یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ مغربی ممالک کے خفیہ ایجنڈا میں خاص طور پر ایسے نرم خو لوگوں کو ترجیح دی جا رہی ہے جن کے جنسی رجحانات مختلف ہوں۔ ان باتوں سے قطع نظر اہم بات یہ ہے کہ ایک ایسے وقت میں جب یہ لگ رہا ہے کہ نواز شریف اور ان کا خاندان سیاسی منظر سے غائب ہونے والا ہے اور آصف علی زرداری اور پیپلز پارٹی کے بہت سے قائدین کا سیاسی مستقبل بھی تاریک ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے اور موجودہ حکومت کی مدت ختم ہونے سے ایک سال پہلے ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کو ایک سافٹ امیج کے ساتھ لانچ کیا گیا ہے۔ ان کا انٹرویو ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے:
’’ہائے! میں ذوالفقار علی بھٹو ہوں۔ میں ایک جنوبی ایشیائی فنکار ہوں جس میں لبنانی اور پاکستانی خون شامل ہے اور میں ’کوئیر‘ موضوع پر کام کر رہا ہوں۔‘‘
یہ ویڈیو ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کی آواز سے شروع ہوتی ہے جس میں وہ ایک خاتون سے بات کر رہے ہیں اور اس میں عربی زبان کا استعمال ہوتا ہے اور اسی پر وہ فون بند کر دیتے ہیں کیونکہ انہیں عربی بولنے پر طیارے سے اتار دیا جاتا ہے۔اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو جونیئر اسکرین پر ایک اسٹیج پر آتے ہوئے نظر آتے ہیں جس میں وہ ایک مخنث کا روپ دھارے نازیہ حسن کے مشہور گانے ’’ڈسکو دیوانے‘‘ پر اسٹیج پر رقص کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔دراصل ذوالفقار علی بھٹو جونیئر ’’ٹرمیرک پراجیکٹ‘‘ کے تحت ’’مسلمان مسل مین‘‘ یعنی مسلمان اور مردانگی کے عنوان پر ایک تعلیمی پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں جس کے ذریعے وہ پاکستان میں مردانگی کے بارے میں تصورات کو فن کے ذریعے سمجھنے اور سمجھانے کی کوشش میں ہیں۔ مگر اس پراجیکٹ اور اس کا مقصد کسی کے ذہن میں نہیں بلکہ بحث کا موضوع ان کے کپڑے، ناخنوں پر لگی نیل پالش اور انٹرویو کے دوران کشیدہ کاری کے مناظر ہیں۔
جنوبی ایشیا میں مردانگی کے تصورات پر ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کا کہنا ہے کہ ’’پاکستان یا ایسی بہت سی ریاستیں جو قومیت کے نظریے پر بنی ہیں وہاں ایسا تصور قائم کیا گیا ہے ریاست کا نمائندہ ایک طاقتور مرد ہے لیکن یہ احمقانہ تصور ہے۔ میرے نزدیک مردانگی کیا ہے؟ مردانگی نزاکت ہے، نسوانیت ہے اور نرم ہو سکتی ہے۔
تاریخ بہت اہم ہے کیونکہ ہم جو آج بنا رہے ہیں وہ کل کی بنیاد پر ہے ۔ میں نے اپنا بچپن بہت پرامن طریقے سے گزارا۔ مگر ایک چیز جو اس میں بار بار آئی وہ یہ تھی کہ تشدد ہر جگہ ہے۔ میرے والد کو کراچی میں میرے گھر کے سامنے قتل کر دیا گیا تھا، میں اس وقت چھ برس کا تھا۔ میرے دادا کو بھی مارا گیا تھا۔ میری پھوپھی کو قتل کیا گیا، میرے چچا کو بھی قتل کیا گیا۔ سب کو قتل کیا گیا۔ تو میری شناخت تشدد کے ذریعے بنی، طاقت کے ذریعے بنی۔‘‘
اس انٹرویو سے سندھ کے ان بہت سے لوگوں کو مایوسی ہوئی ہے جو شہیدوں کے لہو اور مظلومیت کے ووٹ پر اپنی سیاست جاری رکھنا چاہتے ہیں، لیکن اب یہ انداز سیاست بہت زیادہ عرصے تک چلانا ممکن نہیں ہوگا کیونکہ نئی نسل کے ووٹر اب یہ سوال کر رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے جو لوگ شہیدوں کے خون کے نام پر ووٹ لیتے رہے ہیں انہوں نے ہماری زندگیوں کو آسان بنانے کے لیے کیا کیا ہے؟ کچھ لوگ اب بھی جنرل ضیا الحق کی سیاست کو الزام دیتے ہیں کہ حالانکہ ان کی موت کو 29 سال بیت چکے ہیں لیکن کچھ لوگ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے ذوالفقار علی بھٹو جونیئر کی ایسی تربیت کروا کر پیپلز پارٹی اور بھٹو خاندان سے انتقام ہے۔ لیکن ہو سکتا ہے کہ یہ انتقام نہ ہو بلکہ انہیں سندھ کی سیاست کے لیے تیار کیا جا رہا ہو کیونکہ سندھ کی سیاست اور سماج میں وراثت کی بہت اہمیت ہے۔ میر مرتضیٰ بھٹو کی بیوی غنویٰ بھٹو نے اتنے برس خاموشی گزار دیے ہیں جبکہ آصف علی زرداری اپنے بیٹے بلاول کو بھٹو کا نام دے کر دو تین بار سیاست میں لانچ کر چکے ہیں لیکن وہ پھر انہیں پیچھے ہٹا کر خود سامنے آ جاتے ہیں جس سے یہ گمان ہوتا ہے کہ پارٹی کے سینئر رہنما نوجوان بلاول بھٹو زرداری کو پارٹی چیئرپرسن کے عہدے پر قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہو رہے۔