امتیاز متین ، کراچی
پاکستان میں بالآخر اس تبدیلی کی جانب بڑا قدم بڑھا ہی دیا گیا ہے جس کے لے گزشتہ کئی برس سے کوششیں کی جا رہی تھیں۔ جن لوگوں نے گزشتہ تین عشروں سے پاکستان کی سیاست کو قبضہ کر رکھا تھا ان لوگوں کو عوام نے اپنے ووٹکی طاقت سے مسترد کر دیا ہے۔ اس بار خاص طور پر مہم چلائی گئی تھی کہ لوگ پاکستان کی خاطر گھروں سے نکلیں اور اپنا حق رائے دہی استعمال کریں۔ بلوچستان اور خیبر پختونخواہ کے لوگ اس لحاظ سے قابل تحسین ہیں کہ انہوں نے خود کش حملوں اور دہشت گردی کے واقعات کے باوجود بڑی تعداد میں ووٹ ڈال کر دہشت گردوں اور ان سرپرست قوتوں کے منصوبوں کو زائل کر دیا۔ کراچی میں بھی خودکش بمباروں آمد کی اطلاعات گردش کر رہی تھیں لیکن اس کے باوجود لوگ بے فکری سے پولنگ اسٹیشنز گئے اور کسی دبائو کے بغیر اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ 25 جولائی 2018ء کو ہونے والے عام انتخابات کے وہی نتائج سامنے آئے جن کی عام شہری توقع کر رہے تھے لیکن شکست خوردہ جماعتوں کے قائدین اور کارکنان ایسے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہیں جس میں کسی بھی شخص کو جعلی ووٹ ڈالنے کا موقع نہیں ملا جبکہ پچھلے تمام انتخابات میں سیاسی جماعتوں کے حمایت یافتہ بدمعاش اور مسلح کارکنان پولنگ اسٹاف کو دھمکا کر جعلی ووٹ ڈالتے رہے تھے۔ تاہم اس بار ہر پولنگ اسٹیشن پر فوج اور پولیس کا پہرہ تھا اور پولنگ بوتھ کے اندر میں فوج کا مسلح سپاہی کھڑا تھا اور حساس پولنگ اسٹیشنز میں سی سی ٹی وی کیمرے لگا دیے گئے تھے۔ اس بات کا پہلے ہی سے اعلان کر دیا گیا تھا کہ جعلسازی میں ملوث پائے جانے والے پولنگ اسٹاف کے ممبران کو دو سال قید با مشقت کی سزا دی جائے گی جبکہ فوجی افسران کو اس دن کے لیے مجسٹریٹ کے اختیارات بھی دے دیے گئے تھے۔ ان حالات میں بوگس ووٹنگ ممکن ہی نہیں تھی، اسی وجہ سے عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں کہہ دیا کہ اگر کسی کو کوئی شکایت ہے تو وہ خود ووٹوں کے تھیلے دوبارہ کھلوانے میں مدد کریں گے۔ اسی وجہ سے ووٹوں کی دوبارہ گنتی میں پی ٹی آئی کو ایک نشست کا نقصان بھی اٹھانا پڑا ہے لیکن پورے ملک کے لوگوں نے عمران خان پر جس اعتماد کا اظہار کیا ہے اس سے ایک نشست کے نقصان سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ الیکشن کمیشن نے دو تین حلقوں کے ووٹوں کی دوبارہ گنتی کروانے کی درخواستیں منظور کی ہیں جس کے نتائج کا اعلان بھی جلد ہی کر دیا جائے گا۔ تاہم اس کے باوجود شکست خوردہ جماعتیں الیشن کے نتائج کو دھاندلی کا مظہر قرار دے رہی ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے تو پورے انتخابات ہی مسترد کرتے ہوئے دوبارہ انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔ بلاول زرداری نے بھی کچھ ایسے ہی خیالات کا اظہار کرتے ہوئے اپوزیشن میں بیٹھنے اور نئے انتخابات کے انعقاد تک احتجاجی مظاہرے کرتے رہنے کا اعلان کیا ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے ڈاکٹر فاروق ستار کو بھی شکست کے بعدا دھاندلی نظر آ رہی ہے، تاہم ان کے بارے میں قیاس کیا جا رہا ہے کہ وہ جلد ہی اپنی ایم کیو ایم بنانے کا اعلان کریں گے۔ دوسری جانب ایم کیو ایم حقیقی کے چیئرمین آفاق احمد نے بھی استعفیٰ دے دیا ہے اور الطاف حسین سے اختلافات کی بنا پر علیحدہ پارٹی بنانے والے آفاق احمد دوبارہ ایم کیو ایم پاکستان کا حصہ بننے والے ہیں۔ شکست ہونے پر ایم کیو ایم نے بھی انتخابی عمل پر اعتراض کیا تھا لیکن انہوں نے مولانا فضل الرحمن کی آل پارٹیز کانفرنس میں شرکت سے گریز کیا، کہا جا رہا ہے کہ پی ٹی آئی کی طرف سے انہیں حکومتی اتحاد کا حصہ بننے کی پیشکش کی گئی ہے جو یقیناً قبول کر لی جائے گی۔ یہ پی ٹی آئی کی ایک اچھی سیاسی چال ہے اس طرح کراچی کا مینڈیٹ تقسیم ہونے کے بجائے حکومت کا حصہ بن جائے گا جس کے نتیجے میں آئندہ حکومت کراچی میں آسانی سے کام کر سکے گی۔ وفاق اور صوبہ خیبر پختونخواہ میں پی ٹی آئی آسانی سے حکومت بنا لے گی جبکہ بلوچستان میں بھی اس کی اتحادی حکومت بنے گی۔ اس وقت اصل جوڑ توڑ پنجاب حکومت کے لیے ہو رہی ہے جہاں مسلم لیگ (ن) کی 129 اور تحریک انصاف کی 122 نشستیں ہیں، مسلم لیگ (ن) کی کوشش ہے کہ ہر صورت میں ان کی حکومت بن جائے تاکہ پنجاب پر ان کا سیاسی اور انتظامی غلبہ رہے اور وہ عمران خان کو اسی طرح پریشان کریں جیسے نواز شریف وزیر اعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کو پریشان کیا کرتے تھے۔ لیکن سیاسی رجحانات یہ بتا رہے ہیں کہ پنجاب میں تحریک انصاف کی ہی حکومت بن جائے گی۔ سندھ میں فی الوقت پیپلز پارٹی حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے لیکن قیاس کیا جا رہا ہے کہ آئندہ دنوں میں سندھ میں پکڑ دھکڑ کا سلسلہ شروع ہو جائے گا جس کی زد میں کئی سیاسی قائدین آئیں گے۔ اس پکڑ دھکڑ کی وجہ یہ ہے کہ سابقہ سندھ حکومت بدعنوانی کے کیسز میں گرفتاریوں کی مزاحمت کرتی رہی تھی، یہ کام انتخابات سے پہلے ہو سکتا تھا لیکن کورٹ نے ان مقدموں پر انتخابات ہونے تک اداروں کو سیاسی انتقام کے خدشے کے پیش نظر کارروائی سے روک دیا تھا۔ ممکن ہے کہ کئی لوگوں کو اسمبلی کا حلف اٹھانے کا بھی موقع نہ مل پائے، ویسے اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا کہ ممبر اسمبلی بننے کے بعد بھی کسی کو گرفتار کیا جائے کیونکہ جب نواز شریف کو بیٹی اور داماد سمیت جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجا جا سکتا ہے تو پھر کوئی بھی بدعنوان شخص جیل جا سکتا ہے۔ اس صورتحال میں قیاس کیا جا سکتا ہے کہ آئندہ دنوں میں صوبائی اور قومی اسمبلی کی کئی نشستوں پر ضمنی انتخابات کروانے پڑیں گے۔
اس وقت پاکستان میں جو بحث چل رہی ہے اسے سن اور پڑھ کر یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی بڑے سر پھٹّول کے بغیر بروقت عام انتخابات منعقد ہونے اور پی ٹی آئی کی ملک گیر مقبولیت کے باعث بہ سے لوگوں میں (سینے میں) جلن، تن بدن میں آگ لگنے اور اضطرابی کیفیت کی شکایات بڑھ گئی ہیں۔ انتخابات جیتنے کے بعد عمران خان کے پہلے خطاب سے عام شہری کافی مطمئن ہیں اور انہیں یہ یقین ہے کہ عمران خان نے جو وعدے کیے ہیں ان پر کام کیا جائے گا۔ انہوں نے عوام کا یہ اعتماد اپنے 22 سالہ سیاسی کیریئر میں حاصل کیا ہے جس میں انہوں نے غریب عوام اور بچوں کے دیے ہوئے پیسوں سے لاہور اور پشاور میں دو کینسر ہسپتال بنائے ہیں جہاں 70 فیصد مریضوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے، تیسرا ہسپتال کراچی میں زیر تعمیر ہے جبکہ گائوں میں نمل یونیورسٹی بنائی ہے جہاں زیادہ تعداد میں غریب گھرانوں کے بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ عمران خان کو ان کی سچائی اور خلوص نیت اور حکمراں طبقات کے تکبر کی وجہ سے کامیابی ملی ہے۔ جو ان پر پھبتیاں کستے ہوئے کہتے تھے کہ عمران خان زکوۃ تو لے سکتا ہے لیکن ووٹ نہیں لے سکتا، اسے کیا معلوم سیاست اور حکمرانی کیسے ہوتی ہے؟ حالیہ انتخابات کی ایک خاص بات یہ ہے کہ تحریک انصاف سے جو لوگ سامنے آئے ہیں وہ سب پڑھے لکھے اور سلجھے ہوئے افراد ہیں جبکہ اس سے قبل سیاسی جماعتیں مختلف جرائم میں ملوث نیم خواندہ افراد کو اسمبلیوں میں پہنچاتی رہی ہیں۔ عمران خان اپنی پہلی تقریر میں کہہ چکے ہیں کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں اور اگر ان کی پارٹی کا کوئی ممبر اسمبلی کرپشن یا کسی اور مقدمے میں ملوث پایا گیا تو وہ اسے بچانے کے لیے کچھ نہیں کریں گے۔ روالپنڈی سے مسلم لیگ (ن) کے امیدوار حنیف عباسی ایفیڈرین کیس میں عمر قید اور جرامنے کی سزا پا کر اڈیالہ جیل پہنچ چکے ہیں۔ آصف زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور شہباز شریف بھی سنگین جرائم میں ملوث ہونے کی بنا پر گرفتار کیے جا سکتے ہیں۔
نواز شریف اور مریم نواز پاکستان میں کوئی بڑا انقلاب لانے کے لیے لندن سے پاکستان آئے تھے جبکہ داماد کیپٹن (ریٹائرڈ) صفدر کو پہلے ہی گرفتار کیا جا چکا تھا۔ نواز شریف کے مخالف میڈیا پر یہ خبریں دی جا رہی ہیں کہ نواز شریف کا انقلاب ایئر کنڈیشنر کے بغیر گرمی لگنے اور مچھر کے کاٹنے اور باتھ روم کی بدبو کی نظر ہو گیا۔ نواز شریف جو پہلے جلسوں میں ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کا سوال کرتے نہیں تھکتے تھے اب وہ ’’مجھے نکالو۔‘‘ کی بات کر رہے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ این آر او (نیشنل ری کنسیلی ایشن آرڈیننس) کے نتیجے میں جنرل پرویز مشرف کی جو ذلت ہوئی ہے، اس کے لیے اب کوئی بھی تیار نہیں ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ نواز شریف مایوس ہیں کیونکہ وہ اس خیال کے ساتھ پاکستان آئے تھے کہ لاہور ایئر پورٹ پر لاکھوں افراد کا مجمع ان کا استقبال کرے گا لیکن انہیں لینے کے لیے ان کے بھائی بھی ایئر پورٹ نہیں پہنچے تھے۔
انتخابات سے قبل یہ پروپیگنڈا کیا جا رہا تھا کہ انٹیلیجنس ایجنسیاں اور فوج الیکشن میں اپنے امیدوار لے کر آئی ہیں۔ اس سلسلے میں مسلم لیگ (ن) سے علیحدہ ہونے والے سابق وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار اور دوسرے ان امیدواروں کی جانب اشارہ کیا جا رہا تھا جنہوں نے جیپ کا انتخابی نشان لیا تھا لیکن چوہدری نثار اور سارا جیپ گروپ ہی قومی اسمبلی سے باہر ہو گیا۔ اس سلسلے میں دوسرا نام تحریک لبیک پارٹی کا نام لیا جا رہا تھا۔ بریلوی مسلک کی اس مذہبی جماعت کو ختم نبوت کے مسئلے پر فیض آباد دھرنے اور پارٹی کے قائد خادم حسین رضوی کی یاوہ گوئی کی وجہ سے شہرت حاصل ہوئی تھی۔ اس پارٹی قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے ایک ہزار امیدوار نامزد کیے تھے لیکن انہیں سندھ کی دو صوبائی نشستوں پر کامیابی ملی ہے جبکہ ایم کیو ایم پاکستان سے علیحدہ ہونے والے گروپ پاک سر زمین پارٹی کے متعلق یقین ظاہر کیا جا رہا تھا کہ انٹیلیجنس ایجنسیاں ایم کیو ایم کو توڑنے کے لیے سامنے لائی ہیں لیکن اہل کراچی نے انتخابات میں انہیں بھی یکسر مسترد کر دیا۔ عام طور پر پاکستان کے لوگوں کے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ کٹر مذہبی جماعتوں کو پسند کرتے ہیں لیکن انتخابی نتائج ہمیشہ اس مفروضے کے برعکس ہی نکلتے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس بار ساری مذہبی جماعتوں نے ایک بار پھر متحدہ مجلس عمل کے پلیٹ فارم پر جمع ہو کر کوئی بڑا اپ سیٹ کرنے کی کوشش کی تھی لیکن انتخابی نتائج سے وہ خود ہی اپ سیٹ ہو گئے ہیں، متحدہ مجلس عمل کے ہارنے والے دوسرے بڑے رہنمائوں میں حافظ حسین احمد اور جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور اکرم خان درانی کی شکست کے بعد کہا جا رہا ہے کہ متحدہ مجلس عمل میں بھی اختلافات ہو گئے ہیں ، ممکن ہے یہ اتحاد جلد ہی تحلیل ہو جائے ۔ عام انتخابات میں جو دوسرے بڑے برج گرے ہیں ان میں مسلم لیگ (ن) کے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور پیپلز پارٹی کے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی شامل ہیں۔ اس کے علاوہ عوامی نیشنل پارٹی کے سربرارہ اسفندیار ولی، غلام احمد بلور، قومی وطن پارٹی کی سربراہ آفتاب شیر پائو، پختونخواہ ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی، پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال، ایم کیو ایم پاکستان کے لیڈر ڈاکٹر فاروق ستار بھی ہارنے والی نمایاں شخصیات میں شامل ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے جن وفاقی وزرا کو شکست ہوئی ہے ان میں خواجہ سعد رفیق، طلال چوہدری، عابد شیر علی، امیر مقام، عبدالقادر بلوچ اور دوسرے کئی اہم لیگی رہنما شامل ہیں۔
انتخابی مہم کے دوران اور انتخابات والے دن دہشت گردوں الیکشن کو سبوتاژ کرنے کی ناکام کوشش کی جس میں بھاری جانی اور مالی نقصان تو ہوا ہے لیکن انتخابات کا انعقاد رکوانے میں ناکام رہے۔ انتخابات کی سے چند دن قبل ڈیرہ اسماعیل خان سے پی ٹی آئی کے صوبائی امیدواراور سابق صوبائی ویزیراکرام اللہ گنڈا پور ایک خود کش حملے میں جاں بحق ہو گئے، اس سے قبل ان کے بھائی اور صوبائی وزیر اسرار اللہ گنڈاپور بھی ایک خودکش حملے میں جاں بحق ہوگئے تھے جبکہ اس وقت یہ بال بال بچ گئے تھے۔انتخابات میں رخنہ ڈالنے کے لیے الیکشن والے دن بلوچستان میں دو افسوسناک واقعات رونما ہوئے جن میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔پہلا واقعہ کوئٹہ میں اس وقت رونما ہوا جب داعش کے ایک خود کش بمبار نے پولنگ اسٹیشن کے سامنے پولیس کی گاڑی کے پاس خود کو اس وقت دھماکے سے اڑا لیا جب اسے پولیس اہلکاروں نے پولنگ اسٹیشن میں داخل ہونے سے روکا تھا۔ اس حملے میں پانچ پولیس اہلکاروں سمیت 31 افراد شہید اور 31 سے زیادہ زخمی ہو گئے۔ اس سے قبل خضدار میں نامعلوم شخص نے کوشک کے پولنگ اسٹیشن پر ہینڈ گرینیڈ پھینک کر فرار ہو گیا تھا جس سے ایک پولیس اہلکار شہید اور تین خواتین زخمی ہو گئیں جبکہ پاک ایران سرحد کے قریب دشتک کے علاقے میں دہشت گردوں نے فوج کی گاڑیوں پر اس وقت حملہ کیا جب وہ بلیدہ کے پولنگ اسٹاف کو لے کر جا رہے تھے ۔ اس حملے میں تین فوجی اہلکار شہید اور پولنگ اسٹاف سمیت 10 افراد زخمی ہوئے۔ اس سے قبل مستونگ میں بلوچستان عوامی پارٹی کی کارنر میٹنگ میں پارٹی کے رہنما میر سراج رئیسانی سمیت 158 افراد جاں بحق ہو گئے تھے۔ میر سراج رئیسانی بلوچستان میں بھارت نواز علیحدگی پسندوں کے خلاف ایک بڑی آواز تھے جو کوئٹہ میں فٹبال میچ کے دوران ہونے والے دھماکے میں اپنا نوعمر بیٹا اور والد کھو چکے تھے۔ وہ متعدد بار اپنی تقاریر اور سوشل میڈیا پیغامات میں پاکستان کے لیے اپنی جان دے دینے کی باتیں کرتے رہے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کا جنازہ سرکاری اعزاز کے ساتھ قومی پرچم میں لپیٹ کر اٹھایا گیا تھا۔ گو کہ دہشت گردی کے ان واقعات کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے اور سرکاری سطح پر خاموشی بھی ہے لیکن سوشل میڈیا پر ان واقعات کے لیے ایک بار پھر مودی سرکار کی طرف انگلیاں اٹھئی جا رہی ہیں۔ جس کے ثبوت کے طور پر مودی سرکار کے وزرا، ریٹائر جنرلوں اور اجیت کمار دوول کے یو ٹیوب پر موجود بیانات استعمال کیے جا رہے ہیں جن میں وہ افغانستان میں موجود دہشت گردوں کو معاوضہ دے کر بلوچستان میں دہشت گردی کروانے کی باتیں کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ممکن ہے عمران خان وزیر اعظم کا حلف اٹھانے کے بعد بلوچستان میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا واضح لائحہ عمل کا اعلان کر دیں گے۔
الیکشن 2018ء … انتخابی نتائج
پاکستان تحریک انصاف 114
پاکستان مسلم لیگ (ن) 64
پاکستان پیپلز پارٹی 43
متحدہ مجلس عمل 13
آزاد امیدوار 13
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان 06
پاکستان مسلم لیگ (ق) 04
بلوچستان عوامی پارٹی 03
بلوچستان نیشنل پارٹی 02
گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس 02
عوامی مسلم لیگ پاکستان 01
عوامی نیشنل پارٹی 01
پاکستان تحریک انسانیت 01