پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ بحال نہ ہوئی تو کچھ ٹیلنٹ نہ رہیگا : وقار

سڈنی ، 24 مارچ (سیاست ڈاٹ کام) پاکستان کرکٹ ٹیم کے کوچ وقاریونس کا کہنا ہے کہ ملک میں کرکٹ کو بچانا ہے تو فرسٹ کلاس کے ڈھانچے کو معیاری بنانا ہوگا۔پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ زیادہ عرصے تک بحال نہ ہوئی تو جو کچھ ٹیلنٹ باقی ہے وہ بھی ختم ہو جائیگا۔ یہاں ایک انٹرویو میں پاکستانی کوچ نے کہا کہ پاکستانی کرکٹ عصرحاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں۔ اگر پاکستانی کرکٹ کو بچانا ہے تو فرسٹ کلاس کرکٹ کے ڈھانچے کو معیاری بنانا ہوگا۔پاکستان کرکٹ بورڈ نے یقیناً دیکھ لیا ہوگا کہ پاکستانی ٹیم اور دوسروں کے معیار میں کتنا واضح فرق ہے۔ اپنے حالات میں ٹیم اچھا کھیلتی ہے لیکن براعظم ایشیا سے باہر کے حالات میں بہت پیچھے دکھائی دیتی ہے خاص کر بیٹسمنوں کو سیم، سوئنگ اور باؤنس پر خاصی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کوچ نے کہا کہ اگر پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ زیادہ عرصے تک بحال نہ ہوئی تو ڈر ہے کہ جو کچھ ٹیلنٹ رہ گیا ہے وہ بھی ختم نہ ہوجائے۔ وقار نے کہا کہ مشکوک بولنگ کے بارے میں آئی سی سی کے قانون کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو ہوا۔ پاکستانی کوچ نے کہا کہ عصر حاضر کی کرکٹ میں ’پاور ہٹنگ‘ کی بڑی اہمیت ہے، لہٰذا اس بدلتی کرکٹ کے اعتبار سے ہمیں بھی خود کو بدلنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ آج کل کی کرکٹ میں 300 رنز کا بننا عام سی بات ہوگئی ہے،

لہٰذا ہمیں ایسے بیٹسمن تلاش کرنے ہوں گے جو 300 رنز تک اسکور لے جانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ انھوں نے کہا کہ 1992ء میں پاکستانی ٹیم عالمی کپ سے چھ ہفتے قبل آسٹریلیا پہنچی تھی اوراسے ان حالات سے ہم آہنگ ہونے کااچھا خاصا وقت مل گیا تھا۔ وقارنے کہا کہ بولنگ میں پاکستان کے پاس ہمیشہ ٹیلنٹ رہا ہے لیکن بیٹنگ میں ہم تگ ودو کرتے رہے ہیں۔ ’انھیں امید ہے کہ جب مصباح الحق اور یونس خان بین الاقوامی کرکٹ سے رخصت ہوں گے تو اظہرعلی، اسد شفیق اور حارث سہیل ان کی جگہ لینے کیلئے تیار ہوں گے کیونکہ یہ تینوں بہت ہی باصلاحیت بیٹسمین ہیں۔ان کے ساتھ ساتھ ہمیں مزید باصلاحیت نوجوان کرکٹرز سامنے لانے ہوں گے۔ وقار نے کہا کہ انہیں دکھ ہے کہ پاکستانی ٹیم ورلڈ کپ کے کوارٹرفائنل سے آگے نہ بڑھ سکی لیکن اس کے باوجود اس ٹیم نے جو بھی وسائل دستیاب تھے اس میں رہ کر اچھی کارکردگی دکھائی خاص کر بولرز نے اس عالمی کپ میں عمدہ بولنگ کی اور مشکلات کے باوجود ہمت نہیں ہاری۔ پاکستانی کوچ نے کہا کہ سعید اجمل، محمد حفیظ، جنید خان اور عمرگل کے بغیر ورلڈ کپ کھیلنا آسان نہ تھا۔ انھوں نے کہا کہ مشکوک بولنگ کے بارے میں آئی سی سی کے قانون کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان کو پہنچا۔

وقار یونس کو عالمی کپ کبھی راس نہ آیا
وقار یونس نے کہا کہ وہ کھلاڑی، کپتان اور کوچ کی حیثیت سے ورلڈ کپ جیتنے میں کامیاب نہیں ہو سکے ہیں جس کا انھیں افسوس ہے لیکن وہ اس بات کو ہنس کر ٹال دیتے ہیں کیونکہ جو چیز آپ کے نصیب میں نہ ہوں اس کا غم کرنا صحیح نہیں۔ وہ صرف ورلڈ کپ ہی نہیں بلکہ پوری انٹرنیشنل کرکٹ کے بارے میں سوچتے ہیں اور ان کی کوشش اور خواہش ہے کہ پاکستانی ٹیم کی کارکردگی کا گراف اوپر جائے۔ 1992ء میں وقار عین وقت زخمی ہونے سے ورلڈ کپ اسکواڈ کا حصہ نہ رہ پائے تھے۔