پاکستان میںدہشت گردی کی نئی لہر

سلمان عابد(پاکستان)
پاکستان میں حالیہ دنوں میں ہونے والی دہشت گردی اور بالخصوص کراچی ایرپورٹ پر دہشت گردوں کا حملہ ظاہر کرتا ہے کہ معاملات کی سنگینی خوفناک حد تک بڑھ گئی ہے ۔ طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے نہ صرف ان واقعات کی ذمہ داری قبول کی ، بلکہ مزید حملوں کی دھمکی دی ہے ۔ان کے بقول حکومت نے سیاسی اور انتظامی و جنگی حکمت عملی کے تحت ہمیں مذاکرات میں الجھا کر کمزور کرنے کی کوشش کی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اب طالبان کے مختلف گر وپس میں ہونے والی تقسیم کے نتیجے میں حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے عمل میں عملا ڈیڈ لاک جو پہلے ہی سے قائم تھا ،مزید گہرا ہوگیا ہے ۔اگرچہ کچھ دن قبل جرگہ نے حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے عمل کی بحالی کا ایک مشترکہ اعلامیہ بھی جاری کیا تھا ۔ جرگہ میں شامل لوگوں کی کوشش تھی کہ معاملات کو دیوار سے لگانے کی بجائے دوبارہ مذاکراتی عمل کو ہر صورت میں بحال کیا جائے ۔ان کے بقول حکومت کو چاہیے کہ وہ مذاکرات کے عمل کو بحال کرنے کے لیے کچھ ایسے اقدامات کرے جو طالبان میں اعتماد کی فضا پیدا کرے ۔ان اقدامات میں کرفیو میں نرمی ، غیر اعلانیہ جنگ بندی کا خاتمہ ، بمباری کو بند کرنا جیسے اقدامات شامل تھے ۔

لیکن کراچی ایرپورٹ پر حملہ ، اے ایس ایف کی اکیڈمی پر حملہ ،شمالی وزیرستان میں سیکورٹی اہلکاروں پر حملہ اور تفتان میںایران سے آنے والے زائرین پر دستی حملوں کے بعد لگتا ہے کہ طالبان او ران کے مختلف گروپوں نے ریاست او رحکومت کے خلاف مذاکرات کی حکمت عملی کو ختم کرکے عملًا اعلان جنگ کردیا ہے ۔کراچی ایرپورٹ پر حملہ کے نتیجے میں دو پہلو ابھر کر سامنے آئے ہیں ۔ اول کہ ہماری سیکورٹی اداروں نے مشکل حالات میں دہشت گردوں کے عزائم کو خاک میں ملاتے ہوئے تمام دہشت گردوں کا خاتمہ کردیا ۔ اگرچہ اس میں سیکورٹی اداروں کے کئی اہلکار شہید ہوئے ہیں ، لیکن اگر سیکورٹی ادارے ، فوج اور رینجرز بڑی کاروائی کرکے ان دہشت گردوں کا خاتمہ نہیں کرتے تو صورتحال پاکستان کے لیے اور زیادہ خطرناک ہوسکتی تھی ۔دوم فوج اور رینجرز کی بروقت کاروائی کے باوجود یہ بات بھی اہم ہے کہ ہماری سیکورٹی انتظامیہ میں کافی ایسی خرابیاں ہیں جن کو بنیاد بناکر کوئی بھی دہشت گرد ملک اور ریاست کے نظام پر قبضہ کرکے اسے چیلنج کرسکتا ہے ۔کیونکہ یہ سوال اہم ہے کہ آخر دہشت گرد کس طرح ان جدید اسلحوں اور بارودسمیت دیگر مواد کے ساتھ ایرپورٹ جیسے حساس علاقہ میں داخل ہوگئے ۔ یہ عمل ظاہر کرتا ہے کہ ہماری سیکورٹی کے انتظامات یا تو ناقص ہیں یا ان میں بعض لوگوں نے کسی بھی مفاد کے تحت ان دہشت گردوں کی معاونت فراہم کی ہے ۔ہمارے بہت سے دوستوں نے اس حالیہ دہشت گردی کے واقعات میں غیر ملکی ہاتھ کے امکانات پر بات کی ہے ۔ یقینا ایسا ہوسکتا ہے ، کیونکہ کئی غیر ملکی قوتیں ہیں جو پاکستان کو غیر مستحکم کرکے اپنے مفادات کے کھیل کو طاقت دینے کی خواہش مند ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت سنجیدگی سے ان تمام معاملات کی تحقیقات کرے کہ کیا واقعی اس میںکوئی غیر ملکی ہاتھ ملوث ہے ۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی منطق درست نہیں کہ ہم اس سارے واقعہ کی ذمہ داری غیرملکی ہاتھ پر ڈال کر اپنا دامن بچانے کی کوشش کریں ۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ان ساری دہشت گردی کے معاملات میں ہم سے بھی کئی بڑی غلطیاں ہوئی ہیں ۔ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کیا وہ محرکات ہیں جو ہمیں دہشت گردی کے تناظر میں داخلی محاذ پر درپیش ہیں ۔کیونکہ جب تک ہم اپنے داخلی مسائل کا کوئی ایسا حل تلاش نہیں کریں گے جو پائیدار ہو تو ہم اس لڑائی سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔ سیدھی سی بات ہے کہ جب آپ داخلی محاذ پر کمزور ہوتے ہیں تو غیر ملکی قوتیں آپ کی کمزوری سے فائدہ اٹھا کر آپ ہی کے خلاف کوئی نہ کوئی منصوبہ بندی کرکے آپ کو غیر مستحکم کرنے کا ایجنڈا رکھتی ہیں ۔

سوال یہ ہے کہ ہم نے کیا ایسے اقدامات کیے ہیں جو داخلی محاذ پر ہمیں دہشت گردی سے نمٹنے کی حکمت عملی میں مدد فراہم کرسکے ۔ یہ بات ٹھیک ہے کہ اب دہشت گردی کا مسئلہ کوئی داخلی مسئلہ نہیں ، بلکہ اس کے خارجی مسائل بھی ہیں ۔ لیکن جب تک ہم اپنے اندر موجود خامیوں کو تسلیم کرکے اس کی اصلاح نہیں کریں گے تو ہماری خارجی حکمت عملی بھی ہمیں سوائے ناکامی کے کچھ نہیں دے گی ۔حکومت ، ریاست اور سیاسی جماعتوں کی اکثریت نے مل کر طالبان کے ساتھ مذاکرات کی حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا، لیکن اس مسئلہ پر جو ہمیں ناکامی ملی ہے وہ بھی کسی ایک فریق کی پیدا کردہ نہیں ۔ ہمیں ماننا ہوگا کہ ہم سب فریق امن کی بحالی میں ناکام ہوئے ہیں ۔ مذاکرات کے حوالے سے اگر ہم ابھی تک کے حکومتی اقدامات کا ہی جائزہ لیں تو اس میں ہمیں کوئی واضح حکمت عملی کی بجائے تضادات کی سیاست کے پہلو نمایاں نظر آتے ہیں ۔

ایک تاثر حکومت نے دیا کہ وہ اور فوج طالبان سے مذاکرات کے حوالے سے ایک ہی طرز کی پالیسی اور حکمت عملی رکھتی ہے ۔ لیکن اب ہم سب جانتے ہیں کہ مذاکرات کے حوالے سے ابتدا ہی سے فوج اور حکومت میں حکمت عملی کے حوالے سے ایک واضح تضاد موجود ہے۔ فوج یہ بات کئی بار کہہ چکی ہے کہ ہمیں اگر مذاکرات کا راستہ اختیار کرنا ہے تو ہمیں ریاست کی رٹ کو کمزور کرکے یہ تاثر نہیں دینا کہ ہم نے کسی دباو یا خو ف کی بنیاد پر مذاکراتی عمل کو اختیار کرنے کا راستہ اپنایا ہے ۔جبکہ بہت سے لوگوں نے یہ تاثر بھی دیا کہ حکومت ہر صورت میں مذاکرات کے عمل کو ہی آگے بڑھانے کی خواہش مند ہے ۔ لیکن ان مذاکرات کی کامیابی کے لیے جو کردار حکومت کو ادا کرنا چاہیے تھا ، اس میں کئی مسائل غالب ہیں ۔

اصل مسئلہ تو حکومت اور فوج کے درمیان باہمی رابطے اور اتفاق کا تھا جس میں مسائل ہیں ۔ طالبان کے کئی گروپس پہلے ہی یہ کہہ چکے ہیں کہ حکومت ایک طرف ہم سے مذاکرات کی بات کرتی ہے تو دوسری طرف فوج نے ہمارے خلاف اعلانیہ جنگ شروع کی ہوئی ہے ۔اس تضاد میں مذاکرات کا عمل کیسے ممکن تھا ۔اس بات میں یقینا وزن ہے ، لیکن سوال یہ ہے کہ طالبان نے اس کے جواب میں اب جو دہشت گردی یا املاک پر حملہ کرنے کی حکمت عملی اختیار کی ہے ، اس کی کوئی کیونکر حمایت کرے گا۔ طالبان کی جانب سے بنائی گئی کمیٹی کے اہم رکن پروفیسر ابراھیم کے بقول طالبا ن اگر اس طرح ریاست کے اداروں یا املاک پر حملہ کریں گے تو ان کی کوئی بھی حمایت نہیں کرے گا۔عمران خان اور تحریک انصاف جو طالبان سے مذاکرات کی سب سے بڑی حامی جماعت ہے ، موجودہ صورتحال میں ان کے لیے بھی طالبان کی حمایت کرنا آسان نہیں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ تحریک انصاف کی کورکمیٹی نے ابتدائی بیان دیا ہے کہ اگر فوج نے طالبان کے ایسے گروپوں کے خلاف آپریشن کا فیصلہ کیاجو مذاکرات پر یقین نہیں رکھتے تو ہم فوج کی حمایت کریں گے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اگر طالبان نے اپنی کمیٹی کو بنائی تھی اس سے مذاکرات کرکے یا اسے اعتماد میں لے کر ہی کوئی فیصلہ کرنا چاہیے تھا ، لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ طالبان نے اپنی ہی بنائی گئی کمیٹی کو بھی پس پشت ڈال کر جنگی حکمت عملی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ممکن ہے کہ اس میں مذاکرات کے تناظر میں طالبان میں جو مایوسی آئی ہے اس کا بھی ردعمل موجود ہو۔ اسی طرح غیر اعلانیہ جنگ سے بھی ان کا جو نقصان ہوا ہے اس کا ردعمل بھی ہوسکتا ہے ۔ لیکن اس کے لیے جب تک حکومت نے طالبان کے ساتھ مفاہمت کا راستہ اختیار کیا ہوا تھا ، تو اس کا انتظار کیا جاتا یا اپنے تحفظات اپنی ہی بنائی گئی کمیٹی کی مدد سے حکومت کے سامنے پیش کیے جاتے ۔بہت سے لوگوںکا خیال ہے کہ طالبان کے مختلف گروپوں میں جو گروپ بندی ہوئی اسی کو روکنے کے لیے انھوں نے اب دوبارہ جنگ کی حکمت عملی اختیار کی ہے۔لیکن یہ حکمت عملی کسی بھی طور پر مناسب نہیں ۔اس کا نقصان یہ ہوا کہ خود ملک میں طالبان کا اپنا سیاسی مقدمہ کمزور ہوا ہے اور وہ لوگ جو طالبان کے حامی تھے اب ان کی رائے بھی تبدیل ہورہی ہے ۔

لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہماری ریاست او رحکومت اس جنگی حکمت عملی کے تحت ملک میں امن کے عمل کو بحال کرسکے گی ؟ کیونکہ یہ بات اتنی سادہ نہیں۔ ماضی میں بھی ریاستی اداروں نے ان طالبان لوگوں کو ختم کرنے کی جو بھی حکمت عملی اختیار کی اس میں بھی اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ان ہی صفحات پر پہلے ہی یہ عرض کیا گیا تھا کہ طالبان کے معاملہ میں ہماری رائے عامہ منقسم ہے ۔ اس تقسیم شدہ رائے میں جب بھی کوئی ادارہ جنگی حکمت عملی اختیار کرے گا تو اس کی حمایت اور مخالفت کا پہلو سامنے آئے گا ۔ اس لیے ہمیں اس سارے معاملے میں جذباتی ہونے کی بجائے کچھ ہوش مندی کی حکمت بھی اختیار کرنی ہوگی ۔ ہوش مندی کا تقاضہ یہی ہونا چاہیے کہ حکومت تمام فریقوں کو ساتھ کرکے یا ان کو قائل کرکے ہی کسی بڑے فیصلہ کی جانب پیش رفت کرے ۔ اب وقت ہے کہ حکومت اس سارے معاملہ پر دوبارہ سر جوڑ کر بیٹھ کر تمام فریقوںسے مشاورت کے عمل کو یقینی بنا کر کوئی نئی حکمت عملی کا راستہ اختیا رکرے ۔ حکومت کو تمام فریقوںکو بتانا ہوگا کہ اب تک کہ مذاکراتی عمل کا کیا بنا اور اس کے کیا نتائج برآمد ہوئے ۔ اب بھی اگر حکومت مذاکرات ہی کی حکمت عملی کو ہی آگے بڑھانا چاہتی ہے تو اس کی کامیابی کے امکانات کا بھی جائزہ لے کر سب کو اعتماد میں لینا ہوگا۔ لیکن اس کے برعکس اگر ہم آپریشن کی جانب بڑھنا چاہتے ہیں تو ضرورت اس امر کی ہے کہ پہلے اس بات کا ضرور تجزیہ کریں کہ اس میں اگر ہمیں کامیابی نہ مل سکی تو اس کے بعد کا کھیل کیا ہوگا۔
ہماری سیاسی وعسکری قوتوں سمیت سیاسی قیادتوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ پاکستان اس وقت ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہے ۔ ایسی صورتحال میں ہمیں کوئی نہ کوئی امن کا راستہ تلاش کرنا ہے ۔ لیکن اس کے لیے اندرونی تضادات سے باہر نکل کر نئی سیاسی حکمت عملیوں کی ضرورت ہے ۔ ایک اور بات یہ بھی سمجھنی ہوگی کہ محض انتظامی بنیادوں یا حکمت عملی سے مسئلہ حل نہیں ہوگا، بلکہ اس کے لیے ہمیں سیاسی بنیادوں پر بھی کوئی حکمت عملی وضع کرنی ہوگی ۔یہ یاد رہے کہ حکومت اور فوج کے پاس بھی آپریشن کے فیصلہ کے بعد آپشن محدود ہوگئے ہیں او راسی میں سے ہمیں کچھ ایسے نتائج کی ضرورت ہوگی جو ملک میں امن کا راستہ تلاش کرنے میں ہم سب کو مدد فراہم کرسکے۔ وگرنہ دوسری صورت میں اگر ہم دہشت گردی کو روکنے میں ناکام ہوتے ہیں اور دہشت گردی کے سامنے ہم اعصابی جنگ ہار گئے تو ریاست اور حکومت دونوں ہی سیاسی تنہائی کا شکار ہوجائیں گے ۔
برائے رابطہ ائی میل:salmanabidpk@gmail.com
برائے ایس ایم ایس00923008429311