(مرحوم امجد صابری کی شہادت کے تناظر میں)
محمد جسیم الدین نظامی
قیام پاکستان کے 40سال بعد کسی تجزیہ نگار نے کہا تھا کہ ’’ چالیس سال قبل اک قوم کو ایک ملک کی تلاش تھی، اوراب چالیس سال بعد ایک ملک کو اک قوم کی تلاش ہے‘‘
؎تقریباً 29سال پہلے کا یہ چشم کشا تبصرہ پاکستان کی نراج، داخلی خلفشاراورنظم و نسق کی بد حالی کی تصویر پیش کرتا ہے۔اسلام کے نام پر بننے والا پاکستان آج’’ دہشت ناک خواب‘‘ بن گیا ہے ۔دہشت گردی کے چھوٹے بڑے واقعات کے ساتھ پاکستان میںآج عام شہریوںکی زندگیاں محفوظ نہیں۔ لوگ ایک دوسرے کو عام باتوں پر موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں ۔ کوئی بھی کسی پربھی گستاخ رسولؐ ہونے کا ٹھپہ لگاکر سرعام قتل کرڈالتاہے ،قانون کا کوئی خوف نہیں، عدل اور انصاف کا گویا کہیں گزر ہی نہیں۔ ملک کا حکمراں طبقہ عوام کو تحفط فراہم کرنے میں ناکام ہے۔ ’’خود ساختہ جہادی طبقہ‘‘ مذہب کے نام پر دہشت گردی کا ننگا ناچ ناچ رہا ہے ،مگرحکومت ہے کہ ہردہشت گردی کے بعد روایتی اعلان اوررسمی کارروائی کے بعد اپنی ساری توانائیاں اپنے اقتداکی حفاظت میں صرف کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔ یہ کس قد ر المناک پہلوہے کہ ایک عالمی سطح پر مشہور اورمقبول شخصیت کو دن دہاڑے ہجوم کے درمیان قتل کردیا گیا اور مجرم آرام سے فرار ہو گئے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے کھڑے مونگ پھلیاں بیچتے رہے۔ کچھ دیر بعد مجرم کا خاکہ جاری کردیا گیا۔ سخت کاروائی کے احکامات جاری ہوئے، تھوڑے تھوڑے دن بعد منہ کا ذائقہ تبدیل کرنے اور عوام کا ذہن بدلنے کے لیے سیاسی قائدین بیان دینگے کہ ’’امجد فرید صابری کے قاتلوں کو گرفتار کرو’’ اور پھر سکوت طاری ہوجائے گا۔ زندگی پھر رواں دواں ہوگی اور چند دن بعد کسی اور مشہور شخصیت کو دن دہاڑے قتل کردیا جائے گا۔ کیا یہی ہے پاکستان کا قانون؟ کہ دہشت گردوں کو اس بات کا کوئی ڈر ہی نہیں کہ انھیں سزا ملے گی یا گرفتار کیا جائے گا۔ قاتل گرفتار کرنے والے تو اس دور میں بھی قاتل تک پہنچ جاتے تھے جب ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی نہیں کی تھی۔مگرآج پاکستان کی حالت یہ ہے بقول اس شعر کے ….
نکلو گے تو ہر موڑ پہ مل جائیں گی لاشیں
ڈھونڈو گے تو اس شہر میں قاتل نہ ملے گا
ہائے افسوس ! حمد اور مدحت مصطفیﷺ میں مست رہنے والے والے عاشق رسولؐ ،جن کی کسی سے کوئی دشمنی نہیں کوئی عناد نہیں جن کی گواہی پوری دنیا دے رہی ہے،انہیںبے دردی سے گولی مارکرشہیدکردیا گیا۔اب تک موصول ہونے والی اطلاع کے مطابق،کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے حکیم اللہ محسود گروپ کے ترجمان قاری سیف اللہ محسود نے معروف قوال امجد صابری پر حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اب یہ بات ان بدبختوں کو کون سمجھائے جو شریعت کے نام پر رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں امجد صابری جیسے عاشق رسول(ﷺ) اور ہمہ وقت ذکر خدا و رسول میں مگن رہنے والے انسان کا روزے کی حالت میں بھی خون بہانے سے نہیں چوکتے اور اس کے عوض جنت حاصل کرنے کی توقع رکھتے ہیں، مگر ان کے بارگاہِ ایزدی میں مردود ہونے کا اس سے بڑا اور کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ انہیں جنت کے ٹکٹ والی واردات کے بعد جنازہ بھی نصیب نہیں ہوتا اور کوئی ان کی مغفرت کے لئے ہاتھ اٹھانے والا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ مگر جس امجدصابری کو قتل کرکے ان سفاکوں نے اپنے لئے جنت کا ٹکٹ کٹوایا اس کے جنازے میں عملاً لاکھوں افراد کی نمناک آنکھوں کے ساتھ شمولیت نے بارگاہِ ایزدی میں انکے بلنددرجات کی گواہی دے دی ہے۔ یہ حقیقت ا ظہر من الشمس ہے کہ دہشت گردی اور اسلام دو متضاد چیزیں ہیں۔ جس طرح رات اور دن ایک نہیں ہو سکتے، اسی طرح دہشت گردی اور اسلام کا ایک جگہ اور ایک ہونا، نا ممکنات میں سے ہے۔ لہذا جہاں دہشت گردی ہو گی وہاں اسلام نہیں ہو گا اور جہاں اسلام ہو گا وہاں دہشت گردی نہیں ہو گی۔طالبان پاکستان میں اسلامی نظام نافذ کرنے کے داعی ہیں ،یہ الگ بات ہے کہ وہ خود اسلامی تعلیمات سے بے بہرہ ہیں۔شاید اسی لئے اپنے مقصد کے حصول کیلئے وہ تمام غیر اسلامی کام برملا کر رہے ہیں جو قران و حدیث ،سنت نبوی ؐاور اسلامی شریعت کے خلاف ہیں، لہذا ان کا اسلامی نظام نافذ کرنے کا دعویٰ انتہائی مشکوک اور ناقابل اعتبار ہے ۔آخر یہ کیسا جہاد ہے کہ اس نے خون مسلم کو ارزاں بنادیا ہے ؟یہ صرف مسلمانوں کو ہی مار رہے ہیں۔بچوں اور بچیوں کے اسکول جلاتے ہیں۔ طالبعلموں اور اساتذہ کے قتل اور اغوا میں ملوث ہیں۔ اغوا برائے تاوان بھی کرتے ہیں اور منشیات کی تجارت بھی۔مساجد اور بازاروں پر حملے کرتے ہیں اور پھر بڑی ڈھٹائی سے، ان برے اعمال کی ذمہ داری بھی قبول کرتے ہیں۔طالبانی دہشت گردوں نے اسلام اور پاکستان کی شبیہ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔اس نے اپنی دہشت گردی اور غیر انسانی کاروائیوں کے ذریعہ تقریباً 70,000 سے زیادہ بے گناہ اور معصوم پاکستانی مرد،خواتین جن میں بچے بھی شامل ہیں، کو ناحق قتل کیا ہے۔یہ دہشت گرد اسلام کے مقدس نام کو مسلسل بدنام کر رہے ہیں۔ انکی ’’جہادی جنونیت ‘‘ مسلمان تو کیا غیر مسلموں کو بھی مذہب اسلام سے متنفر کر رہی ہے۔
ان دہشت گردوںنے کیا رسول اکرم ﷺکی یہ حدیث نہیں پڑھی، جس میں کہا گیا ہے کہ ’’مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرا مسلمان محفوظ رہے‘‘ہمارا مذہب اسلام امن کا درس دیتا ہے، نفرت اور دہشت کا نہیں۔اسلام امن اور سلامتی کا دین ہے، یہ افراد اسلام کے پرامن چہرے پر سیاہ دھبہ ہیں، مذہب کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کے گلے کاٹنے والوں کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیںہوسکتا ۔ نفاذ قرآن و سنت کا نعرہ لگا کر ’’فساد فی الارض‘‘ پھیلانے والوں کی منفی سرگرمیوں کو ہرحال میں روکا جانا چاہئے۔طالبان اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہیں لیکن ان کی ظالمانہ کاروائی کو دیکھتے ہوئے انہیں مسلمان تو کیا انسان بھی نہیں کہا جا سکتا ہے۔ مذہب اسلام دہشت گردی اور معصوموں کا خون بہانے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ ایسا کرنے والے خواہ کوئی بھی ہوں مسلمان نہیں ہوسکتے، بلکہ یہ درندے تو انسان کہلانے کے بھی حقدار نہیں۔برسوں سے جاری انکی دہشت پسندانہ کارروائیوکا شکار ابکی بار مرحوم امجد صابری بن گئے۔وہ امجدصابری جس نے کبھی کسی کا برانہیں چاہا،کسی کو تکلیف نہیں پہنچائی ،آسٹریلیا سے چارٹرڈ اکاؤنٹ کی تعلیم چھوڑکر، فن قوالی کے ذریعہ محبت پیاراوربھائی چارہ کو فروغ دینے اپنی زندگی وقف کردی تھی،انہیں بے وقت موت کی نیند سلادیا گیا۔ جہاں تک مرحوم امجد صابری کی بات ہے انہوں نے قوالی کی دم توڑتی روایت کو زندہ کیا، بین الااقومی شہرت یافتہ قوال غلام فرید صابری کے بیٹے امجد صابری والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فن قوالی کو نئی جہت عطاکی ۔ مقبول صابری کے بھتیجے امجد صابری 23دسمبر 1976کو کراچی میں پیدا ہوئے،غلام فرید صابری کے 5بیٹوں میں امجد صابری کا نمبر تیسرا تھا۔ بتا یا جاتاہے کہ امجد صابری نے 9سال کی عمر میں اپنے والد سے فن قوالی سیکھنا شروع کیا، امجد صابری کہتے تھے کہ اپنے والد سے قوالی سیکھنا آسان نہیں تھا۔ان کا کہنا تھا کہ امی جان کے منع کرنے کے باوجود ابو صبح چار بجے اٹھا دیتے تھے، تہجد کی نماز پڑھوانے کے بعد ریاض کرایا کرتے تھے، امجد صابری نے پہلی بار صرف 12سال کی عمر میں 1988میں اسٹیج پر پرفارم کیا۔اپنے والد کی زندگی میں تو انہی کے ساتھ محفل سماع میں شریک ہوتے رہے، مگر 1994میں غلام فرید صابری کے انتقال کے بعد خود بطور مرکزی قوال پرفارم کرنا شروع کیا۔امجد صابری نے امریکہ، برطانیہ اور کینیڈا سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں فن کا مظاہرہ کیا اور اپنے والد اور چچا کے انداز کو برقرار رکھنے کی کوشش کی۔ امجد صابری کے علاوہ غلام فرید صابری کے کسی اور بیٹے نے فن قوالی میں نام پیدا نہیں کیا۔ کئی نسلوں سے فن گائیکی کی خدمت کرنے اور وقت کے ساتھ ساتھ نئی جہتوں کو متعارف کرانے والے صابری خاندان میں صابری برادرز کے بعد امجد صابری نے حمد و ثناء کے فروغ اور صوفیانہ کلام کواپنی خاندانی روایت کے مطابق نہ صرف اوڑھنا بچھوڑنا بنایا بلکہ حمدوثناء کا یہ پیغام دنیا بھرمیں پہنچایا۔امجد صابری اپنی دلکش آواز کی بدولت قوالی کی صنف میں برصغیر کے گلوکاروں میں منفرد حیثیت کے حامل تھے۔امجد صابری نے قوالی کی صنف کو نوجوان نسل میں متعارف کرایااوراپنے والد کی گائی ہوئی قوالی تاجدار حرم کو ایسے انداز میں پیش کیا کہ سننے والے جھوم اٹھے۔قوالی میں اپنی منفرد پہچان بنانے والے صابری خاندان کے چشم و چراغ، خوبصورت آواز، حمد و ثناء کا ہر وقت لبادہ اوڑھنے اور محبتیں بانٹنے والے خوبصورت انسان اور بہترین گلوکار امجد صابری کو کراچی میں دہشت گردوں نے ہمیشہ کیلئے خاموش کر دیاجس سے شائقین قوالی کی پوری دنیاسوگوار ہے۔یہ کیسا المیہ ہے کہ پاکستان میں برسو ں سے کھلے عام دہشت گردی کا مظاہرہ ہو رہا ہے لیکن حکومت کی سست روی اور لاپروائی کی وجہ سے اب تک وہاں سے مکمل دہشت گردی کا خاتمہ نہیں ہو سکا ہے۔حکومت کو چاہئے کہ دہشت گردی میں کوئی بھی ملوث ہو ان کے خلاف سخت کاروائی ہو،تبھی اس ملک کو ایسے درندوں سے پاک کیا جا سکتا ہے۔جس طرح سے معصوموں کی جانوں سے کھیلاجاتا رہاہے یہ دہشت گردی کی انتہاء ہے ،ایسے افراد کبھی بھی مسلمان نہیں ہو سکتے ہیں،او ر ان کا انسانیت سے بھی کوئی تعلق نہیں ہو سکتا۔ اسلام ایسا مذہب ہے
جس میں دہشت گردی اور انتہا پسندی کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔یہ گمراہ اور شرپسند عناصر اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام کو بدنام کر نے میں لگے ہیں ایسی طاقت کو نیست ونا بود کرنے کیلئے ہرشعبہ حیات کے ذمہ داروں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونے کی ضرورت ہے ۔مرحوم امجدصابری کو شہید کردینے کی طالبان نے بظاہرجو وجہ بیان کی ہے وہ ہے رسول پا ک ﷺ کی شان میں گستاخی،جبکہ دنیا جانتی ہے انکی پوری زندگی مدحت رسولؐ میں ہی گذری۔اوراگرکوئی معاملہ فی الواقع تھا بھی تو اس کا فیصلہ عدالت کریگانہ کہ ایسا گروہ یا طبقہ جو بذات خود خلاف شریعت عمل کا دن رات مرتکب ہورہا ہو۔۔مرحوم امجد صابری کے قتل سے انسانیت کا مثبت چہرہ داغ دار ہوگیا۔ دنیا کے افق پر گونجتی پاکستان کی سریلی آواز خاموش کردی گئی۔ فن کے وارث کو منوں مٹی تلے سلادیا گیا۔ ہنستے مسکراتے گھر کو اداس کردیا گیا۔کسی سے مسلکی نظریاتی یا سماجی اختلافات کا مطلب یہ تو نہیں کہ اپنے مخالف کا وجود ہی مٹادیا جائے؟گویا …
رائج ہے میرے دیس میں نفرت کا قاعدہ
ہوجس سے اختلاف اسے ماردیجئے