گر آگ لگاؤگے تو بھڑکے کی فقط آگ
تکمیل ہو وعدہ کی تو بہتر بھی ہوں حالات
پاکستانی دہشت گرد کی گرفتاری
اودھم پور میںبی ایس ایف کے دستے پر حملے کے بعد ایک پاکستانی دہشت گردکی گرفتاری عمل میں آئی ہے ۔ یہ دہشت گرد خود کونویدیعقوب قرار دیتا ہے اور اس نے حملے کے جواب میں کی گئی کارروائی میں مہلوک اپنے ساتھی دہشت گردکی محمد نعمان عرف مومن کی حیثیت سے شناخت کی ہے ۔ اس واقعہ کی این آئی اے کے ذریعہ تحقیقات کا آغاز کردیا گیا ہے ۔ یہ دہشت گرد خود کو پاکستان میں فیصل آبادکا ساکن اور اپنے مہلوک ساتھی کو پاکستان ہی میں بہاولپور کا ساکن بھی بتاتا ہے ۔ ابھی باضابطہ طور پر اس معاملہ کی تحقیقات میں تیزی نہیں آئی ہے ۔ این آئی اے کی ٹیم اس واقعہ کے سلسلہ میں گرفتار دہشت گرد سے پوچھ تاچھ میں مصروف ہے ۔ پاکستان نے تاہم فوری حرکت میں آتے ہوئے یہ تردید کردی ہے کہ ہندوستان میں گرفتار دہشت گرد اس کاشہری نہیں ہے ۔ پاکستانی رجسٹرار کے بیان کے مطابق اس کے ریکارڈز کے مطابق ایسا کوئی شخص اس کاشہری نہیں ہے۔پاکستان چاہتا ہے کہ ہندوستان اس دہشت گرد کے پاکستانی ہونے کے تعلق سے ثبوت فراہم کرے ۔اکثر و بیشتر دیکھا گیا ہے کہ ہندوستان میں جب کبھی دہشت گردانہ حملے ہوتے ہیں اور شک کی سوئی پاکستان کی سمت اشارہ کرتی ہے تو پاکستان فوری اس کی تردید میں جٹ جاتا ہے ۔ ممبئی حملوں کے بعد بھی ایسا ہی ہوا تھا تاہم یہ ثابت ہوگیا کہ دہشت گردانہ حملے جو ممبئی میں کئے گئے تھے ان کی پاکستان میں منصوبہ بندی کی گئی تھی اور اس پر عمل کرنے والے بھی پاکستانی شہری تھے ۔ ایک پاکستانی اجمل قصاب کو ہندوستان میں مقدمہ چلانے کے بعد پھانسی کی سزا دیدی گئی جبکہ دوسرے ملزمین ہنوز پاکستان میںہیںاور ان کے خلاف مقدمہ چلایا جا رہاہے لیکن اس کی پیشرفت انتہائی سست رفتار ہے ۔ اس مقدمہ کی رفتار جس سستی سے چل رہی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ خاطیوں کو کیفر کردار تک پہونچانے کی بجائے انہیں بچانے پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے ۔ اب اودھم پور میں ہوئے حملے کے بعد پاکستانی شہری کی گرفتاری کے بعد ایک بار پھر پاکستان نے تردیدی موقف اختیار کیا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ گرفتاردہشت گرد کاپاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے اور وہ اس کا شہری نہیںہے۔ ہندوستان کواس ادعا کی تائید میں ثبوت فراہم کرناچاہئے ۔
جہاں تک ثبوت فراہم کرنے کی بات ہے یقینی طورپر ہندوستان اس تعلق سے ثبوت فراہم کرے گا۔ابھی اس معاملہ میںتحقیقات این آئی نے شروع ہی کی ہیں۔ معاملہ ابتدائی مرحلہ میںہے ۔ گرفتار دہشت گردسے پوچھ تاچھ کی جا رہی ہے ۔سارے واقعات کی کڑیاں ملائی جارہی ہیں۔ پاکستان میں اس کی لشکرطیبہ کے گروپس میں تربیت ‘ پھر سرحد پار سے ہندوستان میںدر اندازی ‘ مختلف مقامات پر قیام اور پھر اودھم پورمیںآمداور بی ایس ایف پر حملہ تک کی تمام کڑیاں جوڑی جارہی ہیں ۔ جیسے ہی این آئی اے تحقیقات میں کسی اہم مرحلہ تک پہونچ جائیگی اورایک ناقابل تردید ثبوت اس کے ہاتھ آجائیگا پاکستان کواس سے واقف کروادیاجائیگا۔ویسے بھی ممبئی دہشت گردانہ حملوں کے کیس میں پاکستان کوٹھوس ثبوت پیش کئے گئے تھے اس کے باوجود خاطیوںکے خلاف مقدمہ انتہائی سست رفتار سے چل رہا ہے ۔ پاکستان آج تک کہتا رہا ہے کہ اسے ان ملزمین کے خلاف ٹھوس ثبوت کی ضرورت ہے ۔حد تو یہ ہوگئی کہ یہ ملزمین پاکستان کی عدالتوں سے ضمانتیں حاصل کرنے میں بھی کامیاب ہوگئے ہیںاس کی اصل وجہ یہی ہے کہ پاکستان میں ان کے خلاف مقدمہ سنجیدگی سے نہیںچلایا جا رہاہے۔ صرف ضابطہ کی تکمیل کی جا رہی ہے اور سماعت میںمسلسل رکاوٹیںپیدا کی جارہی ہیں۔ خاطیوںکو گھیرنے کے بجائے انہیںبچنے کے مواقع زیادہ فراہم کئے جا رہے ہیں ۔ ایک سے زائد مرتبہ موقع ملنے کے باوجود بھی حکومت پاکستان نے ان کے خلاف قانونی شکنجہ کسنے میںمستعدی کا مظاہرہ نہیںکیا ہے ۔
ایسے حالات میں اب اودھم پور میں گرفتار دہشت گرد کے پاکستانی ہونے کاثبوت بھی فراہم کیا جائے تو یہ امید نہیںکی جاسکتی کہ پاکستان اس حقیقت کو تسلیم کرلے گا۔ یہاں بھی وہ کوئی نہ کوئی بہانہ تراشے گا اور خود بچنے کی کوشش کریگا۔ایسے وقت میں جبکہ دونوںملکوں کے داخلی سلامتی کے مشیروںکی بات چیت کی راہ ہموار ہوسکتی ہے اسطرح کے واقعات حالات کوبگاڑنے اور بات چیت میںرکاوٹ کا سبب بن سکتے ہیں۔پاکستان کو ٹال مٹول اور حیلے بہانوں سے کام لینے کی بجائے حقیقت پسندی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ اسے اپنے اس وعدہ کو پوراکرنا ہوگا کہ اس کی سرزمین کومخالف ہند سرگرمیوںکیلئے استعمال کرنے کی اجازت نہیںدی جائیگی ۔جب تک وہ اس وعدہ کو سنجیدگی سے پورانہیںکریگا اس وقت تک حالات کا بہتر ہوناممکن نہیں ہے۔ اودھم پور جیسے حملے باہمی تعلقات میں مزید بگاڑ کا باعث ہی بن سکتے ہیں۔