پانی ، بجلی اور علاج آپ نے روک لیے ، ہم بورنگ ، جنریٹر لگالیے

شہریوں کو درکار سہولت دیتے تو ٹیکس کی چوری کیوں کرتا کوئی ۔ عوامی رائے
کالا دھن

محمد مبشرالدین خرم
حیدرآباد۔30نومبر۔ہندستانی شہری ٹیکس چور نہیں ہیں بلکہ ہنگامی حالات سے نمٹنے کیلئے گھروں میں کچھ رقومات جمع کرنے پر مجبور ہیں ۔ تجارتی برادری سیلس یا انکم ٹیکس میں چوری کی قائل نہیں ہے اگر حکومت انہیں بنیادی سہولتیں فراہم کرنے میں کوتاہی نہیں کرتی اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی یقینی بناتی ہے تو ایسی صورت میں عام شہری اپنے گھروں میں دولت جمع کرنے کے نظریہ کو ختم کرنے تیار ہیں۔ہندستان کو نقد رقم کے لین دین سے پاک مملکت بنانے کا خواب دیکھنے والی حکومت دراصل مغربی ممالک کے طرز پر اپنی معیشت کو فروغ دینے کی کوشش کر رہی لیکن اگر مغربی ممالک میں شہریوں کو حاصل سہولتوں کی طرح سہولتیں فراہم کی جانے لگیں اور انہیں ان کے اپنے مسائل سے بے پرواہ رکھا جانے لگے تو عام شہری بھی ٹیکس کی ادائیگی میں غفلت نہیں برتے گا۔ نقد لین دین سے پاک تجارت کا مطلب ملک میں ٹیکس کی ادائیگی کے نظام کو رائج کرنا اور اس میں بہتری لانا ہے تو ایسی صورت میں جو ممالک پلاسٹک کرنسی یا الکٹرانک ادائیگیوں پر انحصار کئے ہوئے ہیں ان ممالک میں شہریوں کو فراہم کی جانے والی سہولتوں کا جائزہ لیا جائے تو اس بات کا اندازہ ہوگا کہ ان ممالک کے شہریوں کو نہ صرف شہری سہولیات کی فراہمی میں کوتاہی نہیں کی جاتی ہے بلکہ انہیں علاج و معالجہ کیلئے بھی فکرمند ہونا نہیں پڑتا۔تجارتی برادری کا کہنا ہے کہ انہیں مؤثر برقی سربراہی حاصل نہیں ہوتی

جس کے سبب انہیں جنریٹر پر انحصار کرنا پڑتا ہے جس کے اخراجات وہ اپنی آمدنی میں ظاہر نہیں کرپاتے ۔ جبکہ مغربی ممالک جہاں نقد لین دین سے پاک سماج موجود ہے ان ممالک میں برقی سربراہی منقطع ہوتی ہے تو یہ عالمی ذرائع ابلاغ کیلئے خبر ہوتی ہے۔ اسی طرح مغربی ممالک میں ٹیکس ادائیگیوں اور کارڈ یا الکٹرانک ادائیگیوں پر انحصار کرنے والے شہریوں کو ہنگامی حالات میں دواخانہ منتقل کرنا پڑے تو اسے کوئی رقم جمع نہیں کروانی پڑتی بلکہ حکومت کی جانب سے اسے مفت علاج و معالجہ کی سہولت فراہم کی جاتی ہے اور اسے شہری حقوق کا اہم حصہ تصور کیا جاتا ہے جبکہ ہندستان میں سرکاری دواخانوں کا رخ کرنے سے بہتر بیمار رہنا پسند کیا جاتا ہے اور کارپوریٹ دواخانوں میں رقم جمع کروانے تک علاج کا آغاز تک نہیں ہوپاتا۔اسی لئے شہری دواخانہ کی ادائیگیوں کیلئے گھروں میں رقومات جمع کرنے پر مجبور ہیں۔ امریکہ و لندن میں تعلیمی اخراجات حکومت کی جانب سے ادا کئے جاتے ہیں اور اگر کوئی خانگی تعلیمی نظام کا حصہ بھی ہیں تو انہیں کافی کم فیس ادا کرنی ہوتی ہے جس کی بنیادی وجہ شہریوں کی جانب سے وصول کیا جانے والا ٹیکس ہے جس کے ذریعہ مفت معیاری نظام تعلیم یقینی بنایا جا رہا ہے ۔ ہندستان میں معیاری تعلیم کا حصول ایک بہت بڑا چیلنج ہے اور بچوں کی فیس کی ادائیگی کیلئے عام شہری کو ٹیکس سے بچت کرنی پڑتی ہے ۔ اسی طرح حکومت کی جانب سے مختصر مدت کیلئے پانی کی سربراہی عمل میں لائی جاتی ہے

جس کے سبب شہریوں کو بورویل اور اضافی پانی کی خریدی پر انحصار کرنا پڑتا ہے جبکہ رقمی لین دین سے پاک ممالک میں ہمہ وقت پانی کی سربراہی جاری رہتی ہے۔ حکومت کی جانب سے اپنے تجارتی اداروں اور بازاروں میں صیانتی انتظامات کو بہتر بنانے کیلئے تجاویز جاری کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ وہ خانگی سیکیوریٹی عملہ اور سی سی ٹی وی کا انتظام کریں جبکہ جن ممالک کی نقل حکومت ہند کر رہی ہے ان ممالک میں ایسا نہیں ہوتا بلکہ ان کا پولیس کا عملہ اتنا مستعد ہوتا ہے اور ان کا سی سی ٹی وی نظام اتنا مستحکم ہے کہ اس طرح کی اضافی خدمات حاصل کرنے کی انہیں ضرورت پیش نہیں آتی۔آزادہند میں حکومت کی جانب سے اتنا معیاری ٹرانسپورٹ سسٹم تک روشناس نہیں کروایا جا سکا کہ اس عوامی نظام ٹرانسپورٹ کے استعمال میں کوئی عار محسوس نہ کرے بلکہ حکومت کے نظام ٹرانسپورٹ کے استعمال کو سہولت تصور کرے۔ مغربی ممالک میں جہاں لوگ کارڈ اور الکٹرانک ادائیگی کو اختیار کئے ہوئے ہیں انہیں اپنی خانگی گاڑیاں تکلیف دہ نظر آتی ہیں اور وہ عوامی نظام ٹرانسپورٹ کو اختیار کرنے میں بہتری سمجھتے ہیں۔ حکومت ہند کی جانب سے یہ بنیادی سہولتیں جیسے تعلیم‘ ضمانت تغذیہ‘ معیاری ٹرانسپورٹ نظام‘ معیاری علاج و معالجہ کی مفت سہولت‘ گرانقدر وظائف پیرانہ سالی ‘ ضمانت تحفظ و صیانت‘ معیاری برقی و آبرسانی سربراہی کے علاوہ بہترین انفراسٹرکچر کی سہولتیں فراہم کرتے ہوئے پلاسٹک کرنسی اور الکٹرانک ادائیگیوں کے فروغ و لزوم کے متعلق فیصلہ کیا جاتا ہے تو ایسی صورت میں ملک کے عام شہری کو گھر میں پیسہ رکھنے یا ٹیکس سے بچنے کے اقدامات کی کوئی ضرورت ہی باقی نہیں رہے گی کیونکہ جن مقاصد کیلئے شہری اپنے گھروں میں پیسے جمع رکھتے ہیں یا ان رقومات کو بینک تک نہیں پہنچاتے ہیں وہ مسائل ہی حکومت کے سپرد ہو جائیں گے تو شہریوں کو ٹیکس کی ادائیگی میں بھی کوئی تکلیف نہیں ہوگی بلکہ انہیں اس بات کی طمانیت حاصل رہے گی کہ اگر ان کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو حکومت اسے مرنے کیلئے چھوڑ نہیں دے گی بلکہ کے اس کے بہتر سے بہتر علاج و معالجہ کے ساتھ اپنے ٹیکس دہندہ شہری کو عزت و قدر کے ساتھ گذر بسر کے سامان مہیا کروائے گی۔