شیخ احمد ضیاء
مرزا حیرت بیگ اور انکی بیگم جنہیں وہ لاڈ سے بیگم پاشا کہہ کر بلاتے تھے ، اپنے اکلوتے لڑکے پاشو کے لئے لڑکی کی تلاش میں تقریباً تین سال سے در در بھٹک رہے تھے ، لیکن کوئی بھی لڑکی بیگم پاشاہ کو جچی نہیں تھی ۔ وہ ہر لڑکی میں کچھ نہ کچھ نقص ڈھونڈ لیتیں اور بے چارے حیرت بیگ حیرت میں پڑجاتے کہ ان کی بیگم پاشاہ میں خود ہزاروں نقص ہیں لیکن ان کی تعریف کرنی چاہئے کہ وہ اب تک سیکڑوں لڑکیوں میں نت نئے نقص ڈھونڈنے میں کامیاب ہورہی ہیں ۔ بیگم پاشاہ انگوٹھا چھاپ ہیں ، لیکن انھیں بہو اعلی تعلیم یافتہ چاہئے ۔ بیگم پاشاہ کو خوبصورت کہنا خوبصورتی کی توہین ہے ، لیکن انھیں بہو کی شکل میں ایک حور چاہئے ۔ بیگم پاشاہ کا میکہ خانہ بدوشوں سے بدتر ہے لیکن وہ اپنے پاشو کے لئے معیاری گھرانہ کی تلاش میں ہیں ۔ بیگم پاشاہ کا قد اتنا کم ہے کہ ان کے قد سے کم قد کا تصور ہی بعید از قیاس سمجھاجاتا ہے لیکن وہ جس لڑکی کو بھی پسند کرنے جاتی ہیں وہاں سنٹی میٹرس ہی کیا ملی میٹرس کی بھی گنجائش نہیں رکھتیں اور ان کے طے شدہ معیار سے ایک ملی میٹر بھی قد کم ہو تو اس رشتہ کو ٹھکرادیتی ہیں ۔ بیگم پاشاہ کا وزن ماشاہ اللہ ’’حد سے زیادہ‘‘ لیکن انھیں اپنی بہو کا وزن مناسب چاہئے اور اس غرض کے لئے وہ ایک عدد وزن تولنے کی مشین ساتھ لئے پھرتی ہیں ۔ بیگم پاشاہ جس دن حیرت بیگ کی جھولی میں ڈالی گئیں ، تب ان کے والدین کے پاس پھوٹی کوڑی نہیں تھی اور محلہ والوں کی اعانت سے شادی کے انتظامات کئے گئے تھے ، لیکن انہیں اپنے پاشو کے لئے ایسی سسرال چاہئے جن کے پاس دھن دولت کی فراوانی ہو ، کوٹھی نما بنگلہ ہو ، سماج میں اونچا مرتبہ ہو ، اکلوتی لڑکی ہو تاکہ مستقبل میں پاشو خود بخود ان تمام اثاثوں کا مالک بن جائے ۔ غرض بیگم پاشاہ بس بیگم پاشاہ تھیں اور حیرت بیگ اپنی بیگم کے ان معیارت سے تنگ آچکے تھے ۔ ایک دن وہ اپنی بیگم سے کہنے لگے ۔ بیگم پاشاہ آخر تم کتنی لڑکیاں دیکھو گی اور کتنے گھروں کے چکر کاٹوگی ، کتنی دعوتیں کھاؤگی اور کتنی لڑکیوں کو رلاوگی ۔ کل ہم نے جو لڑکی دیکھی ماشاء اللہ کافی مناسب ہے ۔ بی ایڈ کی سند رکھتی ہے جبکہ اپنے پاشو میاں تو صرف ڈی ایڈ ہیں ۔ گھرانہ اچھا ہے ۔ ماں باپ بااخلاق ہیں ۔ اب بس کرو بیگم میں تو تمہارے ساتھ گھومتے گھومتے تنگ آچکا ہوں ۔ اتنا سننا تھا کہ بیگم پاشاہ غصہ سے آگ بگولا ہوگئیں اور حیرت بیگ پر برسنے لگیں ۔ کہنے لگیں ۔ اجی ۔ تم کو میں بہت دنوں سے دیکھ رہی ہوں۔ ہر معاملہ میں ٹانگ اڑانے کی تمہیں عادت پڑگئی ہے ۔ تم کو میں کئی مرتبہ بولی بیچ میں نکو بولو ۔ مجھے جو کرنا ہے میں کروں گی ۔ میرا بیٹا ہیرا ہے ۔ لاکھوں میں ایک ہے ۔ کیا ایسی ویسی لڑکی کو بہو بنا کر لاؤں گی ۔ سماج میں ناک اونچی رکھنا ہے ۔ تم کو کیا معلوم ۔ کیا اچھا دکھا جی تم کو وہ رشتہ ۔ گھر دیکھے ان کا ۔ دیوان خانہ میں بیٹھنے کو ڈھنگ کا صوفہ تک نہیں ہے ۔
لڑکی کا باوا سرکاری دفتر میں ایسے پوسٹ پر ہے جہاں دو روپئے اوپر کی آمدنی نہیں ہوتی ۔ انھوں کیا خاک اچھی شادی کرسکیں گے ۔ اجی ۔ بہو لانا ہے تو یہ تمام چیزیں دیکھنا پڑتا ہے ۔ ایک دن کا معاملہ نہیں ہے ۔ عمر بھر کا رشتہ ہے ۔ تم غیر ضروری مشورہ دینا چھوڑو نئیں تو میرے سے برا کوئی نہیں ہونگا ۔ پرسوں بھی دوبدو پروگرام میں کیا کیا کی بول رہے تھے وہ اچھی لڑکی ہے ، یہ اچھی لڑکی ہے ، تمہاری آنکھیں خراب ہوچکی ہیں ۔ تم خالی میرے ساتھ رہو ۔ اپنے پاشو کو کیسی لڑکی ہونا ، یہ میرے اوپر چھوڑ دیو ۔ اب سن لی سن لی آئندہ سے بیچ میں بولے تو میں برداشت کرنے والی نئیں ۔ بیگم کا غصہ دیکھ کر حیرت بیگ حیرت میں پڑگئے اور خاموشی اختیار کرنے میں ہی عافیت سمجھنے لگے ۔ پھر بھی انھوں نے ہمت کرکے بیگم سے کہا ، بیگم میری بات سنو ۔ تم کو جو پسند آئے اسی لڑکی کو بہو بناؤ لیکن اس طرح ہر دن ایک نئی لڑکی کے گھر جانا ، دعوت کھانا ، لڑکی میں نقص نکالنا ، لڑکی کو نفسیاتی مریض بنادینا ، لڑکی کے والدین کو پریشان کرنا چھوڑو ۔ ہمیں بھی ایک لڑکی ہے آج نہیں تو کل اس کی بھی شادی کرنی ہے ۔ اگر ایسا ہی عمل دوسرے لوگ ہمارے ساتھ کریں ، تب بتاؤ ہمارے دلوں پر کیا گذرے گی ۔ اور اپنے پاشو کے لئے تم اتنا ہاتھ پاؤں مار رہی ہو کیا تمہیں یقین ہے کہ وہ شادی کے بعد ہمارا وفادار رہے گا ۔ جس پاشو کے لئے تم کئی دلوں کو توڑ رہی ہو ، کیا شادی کے بعد وہ تمہاری ایسی ہی اطاعت کرے گا جیسی اب کرتا ہے۔
شادی کے بعد ماں باپ کو ٹھکراکر بیوی کے ساتھ علحدہ گھر بسانا سماج میں عام بات ہوگئی ہے ۔ پھر کیوں تم پاشو کے لئے اتنے پاپڑ بیل رہی ہو ۔ کوئی اچھی سی لڑکی دیکھو اور پاشو کی شادی کرڈالو ۔ اگر تمہیں اچھی بہو ہی چاہئے تب تم اسکی سیرت دیکھو صورت نہیں ۔ دولت کے پیچھے مٹ پڑو لڑکی کا خاندان اور ان کے اخلاق کو ترجیح دو ۔ نیک سیرت لڑکی ، بااخلاق لڑکی ہمارے لئے یقیناً نعمت ثابت ہوگی اور ہمارے پاشو کی زندگی میں بہار لائے گی ۔ ان سے جو اولاد ہوگی وہ نیک اور صالح ہوگی اور ہمارے خاندان کا نام اونچا کرے گی ۔ بیگم پاشاہ ٹھنڈے دل سے سوچو اور کوئی جلد فیصلہ کرو۔ حیرت بیگ کی یہ نصیحتیں بیگم پاشاہ پر کچھ بھی اثر نہ کرسکیں اور انھوں نے حکم جاری کیا کہ فوراً تیار ہوجاؤ ، ہمیں کنگ کوٹھی جانا ہے ۔ ابھی ابھی مشاطہ کا فون آیا تھا کہ کوئی کروڑپتی گھرانہ ہے ۔ اٹھو حضرت ناصح مت بنو اور چپ چاپ ساتھ چلو ۔ بے چارے حیرت بیگ اپنی اس سنگ دل شریک حیات کو حیرت سے تکنے لگے اور دل ہی دل میں اس گھڑی کو کوسنے لگے ، جب ان کے والدین نے بیگم پاشاہ کو ان کے لئے منتخب کیا تھا ۔ خیر مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق انھوں نے کھونٹی سے ٹنگی شیروانی نکالی اور چلئے بیگم کہہ کر بیگم پاشاہ کے ساتھ چلنے کو تیار ہوگئے ۔