پارلیمنٹ کا سرمائی سیشن

اس نے کبھی کہا ہی نہیں جھوٹ کے سواء
شامل ہوئے ہیں آپ یہ اب کس کی بات میں
پارلیمنٹ کا سرمائی سیشن
مرکز میں  حکمراںپارٹی کے جن سیاستدانوں کے دل اندھے میں وہ عقل اور ضمیر کے اندھوں سے بھی بدتر سمجھے جائیں گے۔ ان کی آنکھیں اندھی نہیں ہو تیں مگر سینوں میں دھڑکتے دل اندھے ہوجاتے ہیں۔ ملک میں رواداری اور عدم رواداری کے موضوع جاری بحث اور مصنفین، ادیبوں ، فلمی شخصیتوں کے احتجاج کو نظر انداز کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے سرمائی سیشن میں اپوزیشن کی آواز کو بھی خاطر میں نہیں لایا جانا افسوسناک ہے۔ پارلیمنٹ کے سرمائی سیشن کے دوران عدم رواداری کے مسئلہ پر مباحث ہوں گے یا نہیں یہ تو ایوان کی کارروائی کے پرامن چلنے پر منحصر ہے ۔ فی الحال مودی حکومت کو اپوزیشن کی شدید تنقیدوں اور احتجاج کا سامنا ہے ۔ پارلیمنٹ سیشن میں کئی اپوزیشن پارٹیوں نے ملک کے حالیہ واقعات ، عدم رواداری اور اشتعال انگیزی پر حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور ان واقعات پر بحث کیلئے نوٹس بھی دی ہے۔ ایسے میں حکمراں پارٹی ایوان کے اندر اپوزیشن کی تنقیدوں کا سامنا کرنے سے گریز کرنے کیلئے شتر مرغ کی طرح ریت میں سروپائے بیٹھی رہے تو ملک کے حالات اور سنگینوں کا اندازہ کیا ہوگا ۔ اس سے افسوسناک بات کیا ہوگی کہ بیمار ذہن کے لوگ ملک کے اندر جاری فرقہ وارانہ اشتعال انگیز ماحول پر بیہودہ سوالات اٹھا رہے ہیں۔ مرکزی وزیر وینکیا نائیڈو سے عدم رواداری کے مسئلہ پر اتنا بیان ضرور دیا کہ مودی حکومت اس مسئلہ پر بحث کیلئے تیار ہے مگر انہیں بھی عدم رواداری کے واقعات کو غیر اہم قرار دینے کا موقع ملا ہے تو وہ ملک کی راست کیفیت کا اندازہ کرلینے سے گریز کر رہے ہیں ۔ سی پی آئی ایم کے لیڈر سیتارام یچوری نے بھی مودی حکومت کے طرز عمل اور ملک کے حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ الزام لگایا کہ مسلمانوں میں خوف کا ماحول پیدا کرنے کیلئے فرقہ پرستوں کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے ۔ ہندوستانی مسلمانوں کے اندر عدم تحفظ کا احساس پیدا کرنے والی حکومت جب پارلیمنٹ سیشن کے ذریعہ عوام کے سوالات کا جواب دینے کو ا ہمیت نہیں دیتی ہے تو پھر ایسی حکمرانی کا مستقبل بھی عوام کے ہی ہاتھوں لکھا جائے گا ۔ پارلیمانی سیشن کے دوران اپوزیشن کی جانب سے ا ٹھائے جانے والے مسائل پر حکومت کس طرح جواب دیتی ہے ۔ اپوزیشن نے ایوان میں قرارداد کی منظوری اور اشتعال انگیز تقاریر کرنے والے مرکزی وزراء کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے ۔ اب ذرا زمینی حقائق پر نظر ڈالیں کہ دادری میں مسلم شخص کے قتل کے واقعہ میں ملوث افراد کے خلاف ہنوز کوئی کارروائی نہیں کی گئی ۔ فرقہ وارانہ زہر کے ساتھ نفرت پھیلانے والوں کو بھی نوٹس نہیں دی گئی ۔ وزیراعظم کی حیثیت سے نریندر مودی نے جمہوری و سیکولر ہندوستان کے اصولوں کو نظر انداز کردیا ۔ اس کی وجہ سہمی اور دبکی ہوئی اپوزیشن ہے جو حکومت کے خلاف آواز بھی اٹھا رہی ہے تو اس میں شدت کی کمی ہوئی ہے ۔ کیا وزیراعظم مودی میں اتنا حوصلہ نہیں ہے کہ وہ آگے پڑھ کر اپوزیشن کی بات کو سنیں اور فرقہ پرستوں پر شکنجہ کس دیں۔ حکومت کی طرف سے جو کچھ رویہ اختیار کیا گیا ہے یہ سب ٹھیک نہیں ہے ۔ بہار میں عوام نے مودی کی ٹیم کو اس لئے مسترد کردیا تھا کہ ملک میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا کردیا گیا ہے ۔ مسلمانوں ، دلتوں کے خلاف منظم و منصوبہ بند  طور پر چلائے جانے والی مہم کو روکنے کی حکمراں طبقہ نے کوشش نہیں کی ۔ بظاہر حکمراں ٹولے نے ملک کے حالات کو سب کچھ ٹھیک ہے کہہ کر از خود دلاسہ دیا تھا مگر انتخابات کے نتائج نے ثابت کردیا کہ عوام فرقہ پرستی کو نہیں سیکولرازم کو پسند کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ کے سرمائی سیشن کے قیمتی وقت کو ضائع کئے بغیر حمراں پارٹی اور اپوزیشن عوام کے مسائل اور عدم رواداری کے واقعات کی روک تھام کیلئے سہولتمندانہ بجٹ کے ساتھ تحفظاتی اقدامات پر توجہ دیتے ہیں تو حالات کی بہتری کی امید کی جاسکتی ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مودی حکومت گزشتہ 17 ماہ سے کس کو خاطر میں نہیں لارہی ہے ۔ اگر اپوزیشن نے تہہ کرلیا کہ حکومت کے خلاف وہ اپنا مورچہ مضبوط کرتے ہوئے مودی حکومت کے انا کے پہاڑ کی بنیادوں کو ہلاکر رکھ دے گی تو ہوسکتا ہے کہ وہ عوام کے حق کی خاطر کامیاب ہوجائے۔ پارلیمانی تاریخ کو دیکھ کر اندازہ ہوجانا چاہئے کہ یہاں وزرائے اعظم کی نااہل کے فیصلے ہوتے رہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اب مودی کے تعلق سے بھی عوام کا فیصلہ ہوجائے۔