پائیدار ترقی ۔ سماج کو کچھ نہ کچھ دیجئے

شوکت مرزا کی تصنیف
تبصرہ نگار : شجاعت علی آئی آئی ایس ‘ ریٹائرڈ
اپنے علم و عمل سے نوجوان نسل کو متاثر کرنے والے بین الاقوامی دانشور ڈاکٹر شوکت مرزا نے اپنی مختصر لیکن جامع انگریزی تصنیف "Sustainable Development – give something back to the society” کے ذریعہ مدد کے ایک اچھوتے موضوع اور جذبہ کو منظر عام پر لایا ہے۔ انہوں نے اس کتاب کو علم سے مالا مال پروفیسر ڈی وی آر وٹھل کے نام کیا ہے جن کی خصوصیت یہ تھی کہ جو بھی ان سے ملتا ان سے کچھ نہ کچھ سیکھ کر جاتا۔ اس کتاب کا پیش لفظ Peter Stearns, George Mason University, USAنے لکھا ہے۔ اس تصنیف میں یہ بحث کی گئی ہے کہ جامعات نے جامع انجینئرس پیدا کئے ہیں لیکن ان انجینئرس نے اپنے سماج کیلئے کیا کیا ہے؟ ڈاکٹر شوکت مرزا کا یہ احساس ہے کہ مختلف شخصیات نے ان کی زندگی پر خاص نقوش چھوڑے ہیں لیکن ان کے جسم کی ساخت میں ہی یہ آرزو چھپی ہوئی تھی کہ وہ سماج کیلئے کچھ کریں اور نئی نسل کے کام آسکیں۔ آدمی کی یہ فطرت ہے کہ وہ خود کے لئے ہر چیز حاصل کرلیتا ہے لیکن اپنا وقت ، پیسہ، مہارت اور مشورے سے سماج کو مستفید نہیں کرنا چاہتا۔ وہ اپنی کتاب میں یہ کہتے ہیں ایک عام نوجوان کی طرف وہ بھی ترقی اور کامیابی کی سیڑھیوں پر چڑھنے کی خواہش رکھتے تھے ۔ وہ ایک ملک سے دوسرے ملک کو جاکر ترقی کے زینے طے کرنے کے آرزومند رہے۔ ان کی زندگی میں انقلاب اس وقت بپا ء ہوا جب وہ امریکن یونیورسٹی آف RAK یو اے ای کی صدارت سے مستعفی ہوگئے۔ اب یہاں پر انہیں اس بات کا شک و شبہ نہیں تھا کہ انہوں نے اپنے لئے اور اپنے خاندان کیلئے بہت کچھ کرلیا لیکن سماج کی خدمت کا قرض ان پر ابھی باقی ہے۔ دوجامعات کے قیام میں سرگرم حصہ ادا کرنے اور ایک جامعہ کے صدرنشین بن جانے کے بعد کامیابی کی اس رفتار اور تسلسل کو باقی رکھنا ان کیلئے کوئی مشکل کام نہ تھا لیکن انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب وہ اسی قوت ، طاقت اور جذبہ کے ساتھ سماج کیلئے کام کریں گے۔
دبئی سے واپس ہونے کے فوراً بعد انہوں نے اپنے آپ کو مختلف این جی اوز سے وابستہ کرلیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ہر جگہ انہوں نے دیکھا بے معنی، بے مطلب اور صدیوں پرانی روایتوں کے سبب لوگوںکو انصاف ملنا مشکل ہے۔ ان کا یہ احساس ہے کہ اگر حقیقی معنوں میں کسی ضرورت مند کی خدمت کرنی ہے تو چاہے وہ آپ کے پاس آئے یا آپ اس کے پاس جائیں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ خواب دیکھنا آسان ہے لیکن خواب کو حقیقت میں بدلنا اتنا آسان نہیں ہے۔ شوکت مرزا سب سے پہلے engineers without borders (India)تنظیم سے بحیثیت ڈائرکٹر وابستہ ہوئے اور اپنی انتھک محنت کے ذریعہ وہ اس کے صدرنشین بن گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس تنظیم سے وابستگی کے سبب انہیں عوامی مسائل کا زبردست تجربہ حاصل ہوا۔ خاص طورپر sanitation, power, water management اور تعلیم کے میدان میں انہیں بہت ساری جانکاری ملی۔ دیکھتے ہی دیکھتے EWBکی شاخیں ہندوستان میں پھیلتی چلی گئیں اور آج ساری دنیا میں EWB اپنا ایک خاص مقام رکھتی ہے۔ شوکت مرزا اس وقت امام زمانہ مشن ، آندھرامہیلا سبھا، فیض عام ٹرسٹ اور جعفریہ انسٹی ٹیوٹ آف سوشیل میڈیسنس سیاست جیسی تنظیموں سے وابستہ ہیں۔
اس کتاب کے دوسرے پیش لفظ میں بھارت مہاراج صدرنشین EWB, India ڈاکٹر مرزا کو ایک ایسا پرجوش شخص قرار دیتے ہیں جو اپنے اطراف کے سبھی لوگوں کو اپنے جذبہ سے متاثر کردیتا ہے۔ جتنے بھی لوگ خاص طورپر طلبہ اور پروفیشنلس ان سے ملے ہیں وہ سب کے سب جوش سے بھرگئے ہیں اور سماجی مسائل کی یکسوئی میں جٹ گئے ہیں۔ اس کتاب میں جتنے بھی واقعات اور کارنامے شامل کئے گئے ہیں ان کے طویل کاموں کی فہرست میں سے نکالے گئے چند کام ہیں جو تقلید کے متقاضی ہوگئے ہیں۔ بہرحال ڈاکٹر شوکت مرزا کی یہ کتاب ایک ایسی روشن دستاویز ہے جو خدمت کے دھنی شخصیتوں کیلئے ایک مشعل راہ ہے۔
60 صفحات پر مشتمل اس کتاب کو Lambert Academic Publishing کے زیر اہتمام Schaldungsdienst lange O.H.G.,برلن نے شائع کیا ہے۔