رشیدالدین
اندرون ملک مسائل …نریندر مودی ملک کے باہر
تحفظات …مسلمان دوسروں سے زیادہ حقدار
’’وزیراعظم نریندر مودی ہندوستان میں عارضی قیام کے بعد وطن واپس ہوگئے‘‘۔ نریندر مودی کے دو ممالک کے دورہ پر روانگی کے ساتھ ہی ایک سیاسی تجزیہ نگار نے کچھ اس طرح کا تبصرہ کیا ہے۔ یہ تبصرہ سنتے ہی ہمیں پہلے کچھ عجیب سا لگا لیکن مودی کے وزیراعظم بننے کے بعد متواتر بیرونی دوروں کا جائزہ لیں تو یہ تبصرہ حقیقت دکھائی دے رہا ہے ۔ چیف منسٹر گجرات کی حیثیت سے اپنی ریاست تک محدود رہنے والے نریندر مودی کو وزیراعظم بنتے ہی جیسے پر نکل آئے ہیں اور ان کا دل اب وطن میں نہیں لگ رہا ہے ۔ وہ ملک کے باہر سکون اور چین تلاش کر رہے ہیں ۔ اقتدار کے 16 ماہ میں 25 سے زائد ممالک کا دورہ یقیناً ایک ریکارڈ ہے۔ مودی نے گزشتہ 16 ماہ میں ملک کی تمام ریاستوں کا دورہ نہیں کیا لیکن بیرونی دوروں کے سلسلے میں ان کی رفتار تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ انتخابات سے قبل مودی نے ہر ریاست میں بی جے پی کی انتخابی مہم میں حصہ لیا تھا اور اچھے دنوں کا وعدہ کیا تھا ۔ آج 16 ماہ گزرنے کے بعد عوام مودی اور اچھے دن کا انتظار کر رہے ہیں۔ بیرونی دوروں کی اسی رفتار کو دیکھتے ہوئے تجزیہ نگاروں کا یہ تبصرہ حق بجانب ہے کہ ہندوستان نریندر مودی کیلئے صرف عارضی ٹھکانہ ہے اور حقیقی وطن تو دنیا کے ممالک ہیں۔ ہندوستان میں بے چینی اور ملک سے باہر سکون حاصل ہونا اس اعتبار سے بھی درست ہے کہ مودی نے عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل نہیں کی۔ ستم بالائے ستم یہ ملک کے مسائل میں روز افزوں اضافہ ہی ہورہا ہے ۔ وزیراعظم ان مسائل کا سامنا کرنے کے موقف میں نہیں ہیں۔ لہذا عوامی مسائل سے فرار کا واحد راستہ بیرونی دورے ہیں اور اسی میں وہ عافیت محسوس کر رہے ہیں۔ بیرونی دوروں کی رفتار سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ وزیراعظم کے دفتر کو دوسرے ممالک کے دعوت ناموں کا انتظار ہے۔ عام طور پر سربراہان مملکت ایسے ممالک کے دورے کو ترجیح دیتے ہیں جن سے سفارتی تعلقات کا استحکام ملک کے مفاد میں ہو۔ ایسے ممالک کو ترجیح دی جاتی ہے کہ جن سے دوستی ملک کی اقتصادی ترقی میں معاون ثابت ہو یا پھر عالمی سطح پر ابھرنے کیلئے ایسے ممالک کی تائید ضروری ہو
لیکن یہاں باہمی مفادات نہیں بلکہ صرف دورہ سے مطلب ہے۔ نریندر مودی ان دنوں آئرلینڈ اور امریکہ کے دورہ پر ہیں۔ ہندوستان کے کسی وزیراعظم کا گزشتہ 60 برسوں میں یہ پہلا دورہ آئرلینڈ ہے۔ یہ خود سفارتی اعتبار سے اس ملک کی اہمیت کا اندازہ کرنے کیلئے کافی ہے ۔ اگر یہی رفتار رہی تو پانچ سالہ میعاد میں نریندر مودی ورلڈ ٹور کا ریکارڈ قائم کرسکتے ہیں۔ ممکن ہو تو وہ دنیا کے نقشہ پر چند نئے ممالک کی کھوج میں کامیاب ہوجائیں گے ۔ آخر ہندوستان میں نریندر مودی کا من کیوں نہیں لگ رہا ہے ؟ نریندر مودی جو عوام سے من کی بات کرتے ہیں آج تک اس بات کا خلاصہ نہیں کیا کہ ان کا من ہندوستان کے باہر کیوں بہلتا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب اندرون ملک مسائل تعاقب کرنے لگیں تو ملک کے باہر ہی مختصر مدت کیلئے ہی سہی راحت محسوس ہوگی۔ گزشتہ 16 ماہ کے دوران عوام نے حکومت سے جو توقعات وابستہ کی تھی، ان پر تو پانی پھر گیا۔ ساتھ میں نت نئے چیالنجس کھڑے ہوچکے ہیں۔ نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات میں تحفظات کے مسئلہ پر آگ لگی ہوئی ہے۔ مہنگائی نے عام آدمی کی کمر توڑدی۔ آر ایس ایس اور اس کی محاذی تنظیمیں مختلف مسائل پر شر انگیزی میں مصروف ہیں۔ ملک کے مختلف علاقوں میں حکومت سے مایوس کسان خودکشی کر رہے ہیں لیکن نریندر مودی بیرونی دوروں سے خودکو محظوظ کر رہے ہیں۔ انسانی حقوق اور شخصی زندگی کے حق کی پامالی کی منصوبہ بندی کے دوران مودی ان ممالک اور عالمی اداروں کا کس طرح سامنا کر رہے ہیں
جہاں شخصی آزادی کا احترام کیا جاتا ہے۔ اندرون ملک مسائل کے ساتھ بیرون ملک تو کیا بہار کے چناؤ میں کس صورت سے رائے دہندوں کا سامنا کریں گے۔ شہری آزادی کو کچلنے کی تیاری اور نجی زندگی میں تانک جھانک کیلئے قانون سازی کی سرگرمیوں سے دنیا بھر میں ہندوستان کا امیج کس طرح ابھرے گا ؟ امریکہ روانگی سے عین قبل امریکہ سے عصری جنگی ہیلی کاپٹرس کی خریدی کے معاہدہ کو منظوری دی گئی۔ آخر امریکہ کی خوشنودی اور دفاعی شعبہ میں تجارت سے ہندوستان کو کیا حاصل ہوگا؟ دوسری طرف سشما سوراج نے واشنگٹن میں امریکی ہم منصب جان کیری سے ملاقات کی جس میں امریکہ نے ممبئی دہشت گرد حملوں کے سلسلہ میں ہندوستان کے موقف کی تائید کی۔ اسی امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف لڑائی میں نواز شریف کی ستائش کی ہے۔ امریکہ کو ہندوستان یا پاکستان سے ہمدردی نہیں بلکہ مفادات کی تکمیل اولین ترجیح ہے ، چاہے وہ کسی بھی ملک سے ممکن ہوں۔ امریکہ سے ہتھیاروں کے خریدی کے معاہدہ سے اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کیلئے اس کی تائید حاصل نہیں کی جاسکتی۔ امریکہ سے زیادہ چین سے قربت ہندوستان کے مفاد میں ہے۔ ویسے بھی ہندوستان کوئی کمزور ملک نہیں کہ اسے کسی سہارے کی ضرورت پڑے ، وہ خود تیزی سے ابھرتی طاقت ہے اور اقتصادی ترقی میں چین سے ساجھیداری کی جاسکتی ہے۔ دراصل انتخابات کے موقع پر بی جے پی اور سنگھ پریوار نے جس انداز میں مودی کو پراجکٹ کیا ، عوام انہیں مسیحا سمجھ بیٹھے لیکن ان کی حقیقت بتدریج آشکار ہونے لگی ہے۔ ایک ناتجربہ کار شخص کو کانگریس کی غلطیوں کے سبب عوام نے چیف منسٹر کی کرسی سے اٹھاکر وزارت عظمی تک پہنچادیا جس کا خمیازہ آج بھگتنا پڑ رہا ہے ۔
نریندر مودی جنہیں عصر حاضر کے مرد آہن سردار پٹیل کے طورپر پیش کیا گیا ، وہ ملک تو درکنار خود اپنی ریاست گجرات پر کنٹرول کے موقف میں نہیں ہیں۔ ایک 23 سالہ نوجوان نے ان کی نیند حرام کردی ہے۔ پٹیل طبقہ کیلئے تحفظات کی مانگ کرتے ہوئے شروع ہوئی یہ تحریک گجرات سے دہلی تک کیلئے چیلنج بن چکی ہے ۔ اس تحریک سے مذکورہ طبقہ کی جذباتی وابستگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تشدد پر قابو پانے کیلئے فوج کو طلب کرنا پڑا۔ 8 افراد کی موت واقع ہوئی۔ نریندر مودی جو کبھی گجرات کے ناقابل تسخیر شہنشاہ کی طرح تھے، ان کے قلعہ میں اب دراڑ پڑنے لگی ہے۔ تحفظات کی تحریک کو کچلنے کیلئے طرح طرح کے حربے استعمال کئے گئے اور قیادت کرنے والے نوجوان کو لاپتہ کرنے کی کوشش کی گئی۔ تحریک کوریالی کی اجازت نہیں دی گئی اور موبائیل و انٹرنیٹ سرویسز کو مسدود کردیا گیا جو عوام کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ اس تحریک نے نریندر مودی کو خود اپنی ریاست میں بے بس کردیا ہے اور وہ ملک بھر میں مذاق کا موضوع بن چکے ہیں۔ جب گجرات کا خوشحال پٹیل طبقہ تحفظات کی مانگ کرسکتا ہے تو پھر مسلمان تحفظات سے محروم کیوں ؟ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں بشمول بی جے پی اور ملک میں قائم شدہ تمام کمیشنوں نے اعتراف کیا کہ مسلمان ملک میں دلتوں سے بھی زیادہ پسماندہ ہیں۔ اس حقیقت کے باوجود مسلمان تحفظات کے فوائد سے محروم ہیں۔ دستور میں ترمیم کے ذریعہ آبادی کے تناسب سے مسلمانوں کو تحفظات ملنے چاہئے۔ راجندر سچر اور دیگر کمیٹیوں نے حکومتوں کو جو رپورٹ پیش کی، اس میں مسلمانوں کی تعلیمی ، معاشی اور سماجی پسماندگی کا احاطہ کیا ہے ۔ حکومتوں کو مسلمانوں کے ساتھ انصاف کے لئے مزید کسی سروے یا رپورٹ کی ضرورت نہیں۔ مسلمانوں کی پسماندگی کے بارے میں ملک کا ہر عام شہری اعتراف کرتا ہے، ایسے میں آج بھی مسلمانوں کو انصاف کے حصول کیلئے جدوجہد کرنی پڑ رہی ہے۔ جب کبھی مسلمانوں سے انصاف کا معاملہ ہوتا ہے تو حکومتیں کوئی نہ کوئی کمیٹی کا کمیشن تشکیل دے کر مسئلہ کو ٹالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ برسوں تک کمیشن اپنی رپورٹ پیش نہیں کرتے اور ہر پارٹی انتخابات سے عین قبل مسلمانوں کو تحفظات کا وعدہ کرتی ہے ۔ اسی دوران گجرات میں تحفظات کی تحریک سے پریشان آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے تحفظات پالیسی کا از سر نو جائزہ لینے کی تجویز پیش کی ۔ اگرچہ سیاسی اغراض کے تحت بی جے پی نے موہن بھاگوت کے بیان سے اختلاف کیا
لیکن یہ حقیقت ہے کہ آر ایس ایس حکومت کی مارک درشک ہے اور حکومت وہی کرے گی جو آر ایس ایس چاہے گی ۔ آر ایس ایس چونکہ بنیادی طور پر اعلیٰ طبقات ، برہمن واد کے غلبہ والی تنظیم ہے، وہ کبھی بھی پسماندہ طبقات کیلئے تحفظات کی تائید نہیں کرسکتی۔ موہن بھاگوت کے بیان سے بہار میں چناوی نقصان کے اندیشہ کے تحت بی جے پی نے ایک نئی چال چلی۔ اپنی زیر اقتدار ریاست راجستھان میں 19 فیصد اضافی تحفظات کا اعلان کردیا۔ حالانکہ سابق میں عدلیہ نے ان تحفظات کو مسترد کردیا تھا لیکن دوبارہ قانون سازی کے ذریعہ راجستھان میں تحفظات کو 68 فیصد تک پہنچانے کی کوشش کی گئی ہے۔ کسی سروے یا کمیشن کی رپورٹ کے بغیر معاشی پسماندگی کی بنیاد پر تحفظات کا اعلان کردیا گیا جبکہ دستور میں معاشی پسماندگی تحفظات فراہمی کی بنیاد نہیں بن سکتی۔ وسندھرا راجے حکومت نے جن طبقات کو تحفظات فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، ان کا شمار خوشحال طبقات میں ہوتا ہے لیکن بی جے پی نے راجستھان سے بہار کی انتخابی مہم چلانے کیلئے یہ حربہ استعمال کیا۔ تحفظات کے مسئلہ پر اگر آر ایس ایس کا سخت گیر رویہ برقرار رہا تو عین ممکن ہے کہ بہار انتخابات کے بعد مرکزی حکومت تحفظات کی پالیسی کا از سر نو جائزہ لینے کی کوشش کرے گی۔ ملک میں عوامی حقوق کی پامالی اور نجی زندگی میں مداخلت کے لئے جس سیاہ قانون کی منصوبہ بندی کی گئی تھی، عوامی احتجاج کے بعد اس سے دستبرداری اختیار کرلی گئی۔ اس طرح کے اقدامات ملک میں ایمرجنسی کی یاد تازہ کرتے ہیں۔ کیا نریندر مودی ملک کو دوبارہ ایمرجنسی کی طرف لیجانا چاہتے ہیں۔ جس بات کا اشارہ پارٹی کے سینئر قائد ایل کے اڈوانی نے کیا تھا۔ ان کا یہ کہنا درست ثابت ہورہا ہے کہ ملک کی موجودہ صورتحال ایمرجنسی کی طرف پیشرفت کر رہی ہے۔ الغرض ملک کے داخلی مسائل اور خاص طور پر عوام سے کئے گئے وعدوں کی تکمیل پر توجہ دیئے بغیر بار بار بیرونی دورے کرنا نہ صرف نریندر مودی بلکہ بی جے پی کو مہنگا پڑے گا۔ بہار انتخابات میں عوام کا فیصلہ نریندر مودی کی کارکردگی پر ریفرنڈم کی طرح ہوگا۔ نکہت افتخار نے کیا خوب کہا ہے ؎
چاہے نظریں ہوں آسمانوں پر
پاؤں لیکن زمین پر رکھئے