ٹی وی شو یا میدانِ جنگ

میرا کالم              سید امتیاز الدین
ہم کو دنیا میں اگر کسی چیز سے بہت ڈر لگتا ہے تو وہ ہے لڑائی جھگڑا ۔ اسکول کے دنوں میں اکثر بچے کھیل کود کے دوران تلخ کلامی اور ہاتھا پائی پر اتر آتے ہیں ،ہم سے اُن دنوں بھی کبھی کسی سے لڑائی نہیں ہوئی ۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ ہم نہایت شریف اور امن پسند واقع ہوئے ہیں بلکہ اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ ہماری جسمانی ساخت ایسی ہے کہ اگر ہم کسی سے لڑائی کا جوکھم مول لیں تو اس کا انجام کیا ہوگا  ، یہ ہم خوب جانتے ہیں ۔ لڑنا تو دور کی بات ہے اگر دو فریق ہم کو حکم بنانا چاہیں تو بھی ہم پہلوتہی کرجاتے ہیں کیونکہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ کبھی صلح صفائی کرانے کی نیت سے دخل دینے والا خود بُری طرح پٹ جاتا ہے ۔ ہماری اب تک کی زندگی اس لئے بھی پُرامن گزری ہے کہ ہم نے جنگجو قسم کے لوگوں سے راہ و رسم ہی نہیں رکھی ۔ خیر ، اس بزدلانہ تمہید کا مقصد صرف اتنا ہے کہ ہم نے چند دن پہلے اخبار میں ایک رنگین تصویر دیکھی جو بظاہر کسی فلم کا سین معلوم ہورہی تھی ۔ تصویر میں ایک باریش بزرگ شاہانہ لباس میں ملبوس دکھائی دیئے جن کے گلے میں موتیوں کی مالائیں تھیں ۔ موصوف ایک خاتون کا ہاتھ مروڑ رہے تھے ۔ خاتون کا رخِ زیبا فلم کی اداکاراؤں کا سا تھا ۔ تصویر کا پس منظر بھی رومانی سا تھا لیکن خبرک ی سرخی تھی ’’راست ٹی وی شو کے دوران خود ساختہ بھگوانوں کی ہاتھا پائی‘‘ ۔ خبر پڑھنے سے معلوم ہوا کہ جن صاحب کو ہم بزرگ سمجھ رہے تھے ان کا نام اوم جی ہے اور خاتون کا نام راکھی بائی ہے جو خیر سے نجومی بھی ہیں ۔ اوم جی اور راکھی بائی اپنے ستاروں کی گردش سے بے خبر آئی بی این 7 ٹی وی چینل پر ایک مباحثہ میں شریک ہونے کے لئے تشریف لائے تھے ۔ اوم جی اور راکھی بائی دونوں رادھے ماں کے تعلق سے بعض تنازعات پر بحث کررہے تھے  ۔ہمارے قارئین رادھے ماںکا احوال بھی اخبارات میں دیکھتے رہے ہوں گے ۔ یہ محترمہ بھی ایک نادرِ روزگار خاتون ہیں ۔ خود ہمارا ارادہ اُن کے بارے میں ایک کالم لکھنے کا تھا لیکن اُن کے بارے میں کچھ معلومات حاصل کیں تو ہم کو عافیت اسی میں نظر آئی کہ اس سلسلے میں سکوت اختیارکریں ۔

خیر تو ہم بات کررہے تھے اوم جی اور راکھی بائی کی ۔ اوم جی شاید رادھے ماں کے حامیوں میں سے ہیں۔ انھوں نے بحث کے دوران گرم ہوتے ہوئے راکھی بائی سے کہا ’’آخر تم رادھے ماں کو بُرا بھلا کہنے والی ہوتی کون ہو؟‘‘  ۔ اس چیلنج پر راکھی بائی مشتعل ہوگئیں اور انھوں نے اوم جی کو تمیز سے بات کرنے کو کہا ۔ ظاہر ہے کہ جب آپ کسی کو تمیز سے بات کرنے کو کہتے ہیں تو اس کا صاف مطلب یہ ہوتا ہے کہ فریقِ مخالف بدتمیزی سے بات کررہا ہے ۔ اوم جی اور راکھی بائی میں گالی گلوج ہوئی اور اوم جی نے راکھی بائی کے طمانچہ رسید کیا اور اس کے دونوں ہاتھ پکڑ لئے اور کہا کہ تُو کیا مارے گی مجھے ۔ نوبت جب یہاں تک پہنچی تو غنیمت ہے کہ اس پروگرام کے اینکر نے بیچ بچاؤ کیا اور اس طرح یہ شو ختم ہوگیا اور بحث نامکمل رہی ۔ ہم نہ تو ناصح مشفق ہیں اور نہ مصلح قوم ۔ اس پورے واقعے سے سب سے زیادہ تکلیف ہمیں اس بات سے پہنچی کہ ایسا شاندار شو جس میں کوئی اداکاری نہیں تھی صرف حقیقت سے بھرپور گالی گلوج اور مارپیٹ تھی ،ٹی وی پر دکھایا گیا اور ہم دیکھنے سے محروم رہ گئے ۔ اس ٹی وی چینل سے ہم درخواست کریں گے کہ شائقین کے بے حد اصرار پر یہ دلکش شو ایک بار پھر باقاعدہ اعلان کرکے دکھایا جائے تاکہ دنیا کو معلوم ہو کہ بحث اور جاندار بحث کیسے کی جاتی ہے ۔

ہمارے ملک میں خاص بات یہ ہے کہ اگر یہاں کوئی بُری بات ہوتی ہے تو ہوتی ہی چلی جاتی ہے ۔ آج سے پچاس ساٹھ سال پہلے بھی رشوت ستانی کا چلن تھا بلکہ اس سے پہلے بھی رہا ہوگا ۔ لیکن رشوت کا نرخ بہت کم تھا ۔ کسی دفتر میں کوئی کام نکلوانا ہو تو لوگ کبھی متعلقہ کلرک کو چائے پلادیتے تھے ۔ کام ہونے پر دس بیس روپے دے دیتے تھے  اب یہی رشوت اتنی بڑھ گئی ہے اور ہر سطح پر اعلی سے اعلی پیمانے پر چل رہی ہے ۔ ہزاروں لاکھوں کے گھٹالے ہورہے ہیں بلکہ رشوت کی رقم اتنی بڑھ گئی ہے کہ اسے ہندسوں کی بجائے الفاظ میں لکھنا پڑتا ہے ۔ یہی حال چھیڑ چھاڑ کا ہے ۔ پہلے نوجوان سیٹیاں بجا کر خوش ہوجاتے تھے ۔ اب بدسلوکی اتنی بڑھ گئی ہے کہ کئی باعصمت لڑکیوں نے شرم و حیا کے مارے جانیں دے دی ہیں ۔ اب تک ٹی وی کے مباحثے تفریح طبع کا باعث تھے ۔ اب ٹی وی مباحثے بھی خطرے سے خالی نہیں ۔ اب ٹی وی چینل کوئی مباحثہ رکھنے سے پہلے شرکاء کا پچھلا ریکارڈ دیکھیں گے ۔ اسٹوڈیو میں داخل ہونے سے پہلے تمام حصہ لینے والوں کا بلڈ پریشر دیکھا جائے گا ۔ ان کی جامہ تلاشی ہوگی  ۔ ٹی وی اینکر کی قابلیت صرف سوال کرنے کی حد تک محدود نہیں رہے گی بلکہ اس کی صحت اور جسمانی طاقت کو بھی اسی طرح پرکھا جائے گا جیسے پولیس اور فوج میں بھرتی کے لئے دیکھا جاتا ہے تاکہ ایمرجنسی میں وہ بیچ بچاؤ کا کام بھی بخوبی انجام دے سکے ۔

ہمارے سیاسی مباحثے بھی بہت خطرناک ہوسکتے ہیں ۔ ہر تھوڑے دنوں میں ہمارے ملک میں الیکشن ہوتے ہیں ۔ الیکشن کے ساتھ ہی اوپینین پول ، اگزٹ پول اور پھر نتائج اور ان کاتجزیہ  ۔ہر پارٹی دوسری پارٹی کو نااہل ثابت کرنا چاہتی ہے ۔ امیدوار اپنی کامیابی کے دعوے اس وقت تک کرتے ہی رہتے ہیں جب تک نتیجہ نکل نہیں جاتا اور ان کی ضمانت ضبط نہیں ہوجاتی ۔ برسراقتدار پارٹی کے نمائندے کہتے ہیں کہ ہم نے اتنے ترقیاتی کام کئے ہیں کہ عوام کی پریشانیاں دور ہوگئی ہیں ۔ دوسری پارٹیوں کے نمائندے کہیں گے کہ عوام بھوکوں مررہے ہیں ، پریشانیوں میں اضافہ ہوا ہے ۔ لوگ آپ سے بے زار ہیں ۔ وہ ہم جیسے مخلص کام کرنے والوں کو حکومت کی گدّی پر دیکھنا چاہتے ہیں ۔ یہی بحث لڑائی جھگڑے کا باعث بن سکتی ہے ۔ ایک پارٹی کا نمائندہ دوسری پارٹی کے نمائندہ کو طمانچہ رسید کرسکتا ہے ۔ کچھ نئی گالیاں سننے میں آسکتی ہیں ۔ شاید ٹی وی مباحثے میں شریک ہونے والوں کو کپڑوں کا ایک زائد جوڑا لانے کے لئے بھی کہا جائے تاکہ مباحثے کے پہلے راؤنڈ میں کپڑے پھٹ جائیں تو فوراً کپڑے تبدیل کرکے دوسرے راؤنڈ میں شریک ہوجائیں ۔ ٹی وی اسٹوڈیو میں فرسٹ ایڈ باکس تیار رکھا جائے گا تاکہ زخمی خواتین و حضرات کی فوراً مرہم پٹی کی جائے ۔ ہماری پارلیمنٹ کے جیسے مناظر ہم دیکھتے ہیں ان سے بھی پتہ چلتا ہے کہ جن معزز اراکین کو ہم منتخب کرکے بھیجتے ہیں وہ کیا گُل کھلاتے ہیں ۔ کالجوں میں ریگنگ کے نام پر کیا کچھ ہوتا ہے ۔ سب جانتے ہیں ۔

قدیم زمانے میں مشاعرے ہوا کرتے تھے جن میں اساتذہ سخن ایک دوسرے پر چوٹ کستے تھے ۔ میر و سودا کی معاصرانہ چشمک ، غالب و ذوق کی رقابت سے کون واقف نہیں لیکن مار پیٹ یا گالی گلوج کی نوبت نہیں آتی تھی ۔
سودا نے ایک شعر کہا تھا   ؎
سوداؔ تو اس غزل کو غزل در غزل ہی لکھ
ہونا ہے تجھ کو میرؔ سے استاد کی طرف
میر نے جواب میں کہا ؎
طرف ہونا مرا مشکل ہے میرؔ اس شعر کے فن میں
یونہی سوداؔ کبھی ہوتا ہے سو جاہل ہے کیا جانے
سودا کب خاموش بیٹھنے والے تھے ۔ انھوں نے جوابی شعر کہا
نہ پڑھیو یہ غزل سودا تو ہرگز میر کے آگے
وہ ان طرزوں سے کیا واقف وہ یہ انداز کیا جانے
ایسے اشعار کے تبادلے کے باوجود نہ کبھی میر نے سودا کو طمانچہ رسید کیا نہ سودا نے میر سے ہاتھا پائی کی ۔
غالب نے شہزادہ جوان بخت کی شادی کے لئے جو سہرا لکھا اس کے مقطع میں سخن گسترانہ بات آگئی تھی ۔
ہم سخن فہم ہیں غالب کے طرفدار نہیں
دیکھیں کہہ دے کوئی اس سہرے سے بہتر سہرا
ذوق نے جوابی سہرا لکھا اور کہا۔
دیکھ اس طرح سے کہتے ہیں سخنور سہرا
چونکہ ذوق استاد شہ تھے اس لئے غالب نے معذرت کرلی
استاد شہ سے ہو مجھے پرخاش کا خیال
یہ تاب یہ مجال یہ طاقت نہیں مجھے
غرض معاصرانہ چشمک صرف شعر کی زبان میں رہی ۔ آج کا زمانہ ترقی یافتہ ہے ۔ لوگ نام نہاد بھگوان کہلاتے ہیں لیکن ذرا سے  اختلاف پر اپنی اصلیت پر اتر آتے ہیں اور اس بات کی پروا بھی نہیں کرتے کہ ٹی وی کے ذریعہ لاکھوں لوگ ان کی ہر حرکت دیکھ رہے ہیں ۔