ٹی آر ایس کی لٹیا ڈوبانے والی حرکتیں

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تحریک تلنگانہ کی علمبردار پارٹی کی لٹیا ڈوبانے والی حرکتوں کے درمیان کے چندر شیکھر راؤ سے یو پی کے سابق چیف منسٹر اور سماج وادی پارٹی سربراہ اکھلیش یادو نے حیدرآباد میں ملاقات کر کے وفاقی محاذ کی سرگرمیوں کو نئی سمت عطا کردی ۔ چیف منسٹر کے سی آر نے آخر اچانک اپنا موقف کیوں تبدیل کیا ۔ یہ راز بعد میں منکشف ہوگا ۔ کل تک وہ تیسرے محاذ ، وفاقی محاذ کی باتیں کررہے تھے مگر اکھلیش سے ملاقات کے بعد وہ کہنے لگے کہ براہ کرم میری ان کوششوں کو کسی تھرڈ فرنٹ یا فورتھ فرنٹ کے قیام کے تناظر میں نہ دیکھیں ۔ سوال یہ اٹھ رہا ہے کہ جب وہ کوئی فرنٹ بنانا نہیں چاہتے تو یہ دوڑ دھوپ کس لیے تھی ۔ کے سی آر کی سیاسی خوبیوں سے واقف کار یہ تجزیہ کررہے ہیں کہ ٹی آر ایس ، سماج وادی پارٹی قیادت میں کیا کھچڑی پکی ہے ۔ اکھلیش یادو نے کانگریس کی جانب اپنا جھکاؤ دکھا کر کے سی آر کو درمیان میں چھوڑ دیا ہے ۔ اس کے بعد ہی انہوں نے مرکز میں وزیراعظم بنانے یا سیاسی عزم کو بروئے کار لانے کی باتوں کو بالائے طاق رکھ کر صرف یہ کہنے کو ترجیح دی کہ قوم کی تیز تر ترقی کی غرض سے وہ طویل سفر پر جانا چاہتے ہیں ۔ یعنی ان کا یہ طویل سیاسی سفر کس منزل پر جاکر ختم ہوگا اس کو واضح نہیں کیا ۔ جب مرکز میں منزل ہے تو پھر انہوں نے اپنے منصوبہ میں دراڑ پیدا کیوں کی ۔ تھرڈ فرنٹ یا وفاقی محاذ کی اصطلاح کو چھوڑ کیوں دیا ۔ مرکزی حکومت میں معیاری سیاسی تبدیلی لانے کی بات میں کیا مقصد پوشیدہ ہے ۔ کیا انہیں اس امر کا ہرگز خیال نہیں ہے کہ ان کے اس عمل سے ٹی آر ایس کے سیاسی امکانات کو دھکہ پہونچ سکتا ہے ۔ عجیب بات یہ ہے کہ جس وفاقی محاذ کی بات ہورہی تھی اس کا ذکر دوسرے طریقہ سے کیا گیا ۔ اس طرح وہ اپنے سیاسی عمل کو منفی سمت میں لے جارہے ہیں ۔ وہ اپنے پاؤں پر آپ ہی کلہاڑی چلانے کی غلطی کررہے ہیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کے سی آر مرکز میں اپنے سیاسی عزائم بروے کار لانا نہیں چاہتے ہیں تو پھر انہوں نے تیسرے محاذ یا وفاقی اتحاد کی کوشش کیوں کی ۔ اصل حقیقت کیا ہے یہ کھل کر سامنے نہیں آئی ہے ۔ کیا مرکز کی طاقتور قیادت نے ان کے عزائم پر پانی پھیر دیا ہے ۔ ان کے بیان میں یہ بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ تیسرا محاذ نہیں بنایا جارہاہے تو وہ ریاستی سیاست میں ہی مصروف رہیں گے ۔ کیا کے سی آر کو یہ اندازہ ہوا کہ جس پہ تھا تکیہ وہی پتے ہوا دینے لگے ۔ ان کی مفلوک الحال سیاست کی کشادہ دلی اچانک سکٹر کیوں گئی ۔ ٹی آر ایس صدر نے پرگتی بھون میں اپنی سیاسی مصروفیات کا رخ دہلی کی طرف موڑ دیا تھا ۔ لیکن اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جن جن پارٹیوں سے انہوں نے ملاقات کی ان پارٹیوں نے انہیں مایوس کردیا ہوگا ۔ جب دہلی میں کوئی سیاسی چھلانگ لگانا ہی نہیں ہے تو وہ دہلی کے اس بنگلہ کو خالی کیوں نہیں کیا جو کہ انہوں نے مرکزی وزیر کی حیثیت سے حاصل کیا تھا ۔ دہلی کے تغّلق روڈ پر واقع ایک بنگلہ میں وہ بحیثیت ایم پی کئی سیاسی خواب سجائے تھے ۔ کے سی آر بڑے توہم پرست اور واستو پر چلنے والوں میں دکھائی دیتے ہیں کیوں کہ جب سے وہ دہلی کے اس بنگلہ کو حاصل کرچکے ہیں ان کی سیاسی ترقی کی رفتار میں اضافہ ہوا ہے ۔

اس لیے مرکزی وزیر کی حیثیت سے ہٹ جانے کے باوجود بنگلہ پر قبضہ برقرار ہے ۔ اگرچیکہ مرکز نے انہیں بنگلہ خالی کرنے کے لیے اب تک کئی نوٹسیں دی ہیں لیکن وہ اس بنگلہ کو اب اپنے مجوزہ وفاقی محاذ کے لیے آفس کے طور پر استعمال کرسکتے ہیں ۔ دہلی میں ان کا آفس ہونا لازمی ہے ۔ اس غرض سے وہ تغّلق روڈ پر واقع اس بنگلہ کو چھوڑنا نہیں چاہتے ۔ تمام مرکزی قائدین تک رسائی حاصل کرنے کا یہ مرکزی مقام ہوگا ۔ اگر کے سی آر کا خفیہ ایجنڈہ بروے کار لایا جائے گا تو پھر دہلی کا یہ بنگلہ وفاقی محاذ کی تشکیل کے لیے ہونے والی سرگرمیوں کا مرکز بن جائے گا ۔ سیاسی حلقوں میں یہ بات گشت ہوچکی ہے کہ کے سی آر نے وزیراعظم بننے کا خواب دیکھا ہے ۔ اس لیے یہ بنگلہ ان کے لیے نیک شگون ثابت ہوگا ۔ جب سے وہ بنگلہ کے مکین بنے ہیں ۔ ان کی سیاسی کامیابیوں کا سلسلہ چل پرا ہے ۔ مرکزی وزیر سے استعفیٰ دے کر انہوں نے تلنگانہ تحریک کو خوب زور سے چلایا اور تلنگانہ حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اقتدار پر قابض ہوگئے ۔ حالیہ پلینری سیشن میں انہوں نے اپنے دہلی عزائم کا ذکر کیا تھا ۔ ان کی ایک گھنٹہ کی تقریر کا سب سے غور طلب حصہ یہ تھا کہ وہ مرکز میں تبدیلی لانے کے لیے کسی بھی حدتک کوشش کرسکتے ہیں ۔ ایک ماہ قبل انہوں نے قومی سطح پر انقلاب برپا کرنے کے لیے تیسر محاذ کی ضرورت ظاہر کی تھی ۔ جن جن پارٹیوں سے ان کو امید تھی انہوں نے خاص ردعمل ظاہر نہیں کیا ۔ اب تک انہوں نے کئی میٹنگس کرلی ہیں پھر بھی وہ غیر بی جے پی ، غیر کانگریس محاذ کے لیے پیوندکاری کا کام پورا نہیں کرسکے ۔ تلنگانہ کے خطوط پر ہندوستان کی قسمت بدل کر رکھدینے کا اعلان کرنے والے کے سی آر کو وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں شامل دیکھنے والے ان کے حامیوں نے کے سی آر کے پورٹریٹ کو دودھ سے نہلا کر جشن مناتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے ۔ اپنے تیسرے محاذ سے دہلی میں بھونچال لانے کا منصوبہ رکھنے والے کے سی آر کے اچانک یوٹرن لینے کی وجہ معلوم نہیں ہوسکی ۔ شائد انہیں کسی نے بھی خاطر میں نہیں لایا ہوگا ۔ چینائی میں ڈی ایم کے لیڈر اسٹالین سے ملاقات کے بعد جو صورتحال سامنے آئی وہ کے سی آر کے آئیڈیا کے بنیادی مقصد کے یکسر مغائر دیکھی گئی ۔ مرکز میں سیاسی طاقت بنانے کے لیے کانگریس کا ساتھ ضروری ہے اور کے سی آر غیر کانگریس محاذ کی بات کررہے ہیں ۔ ان کے مخالف کانگریس موقف نے ہی انہیں تلنگانہ کا ہیرو بنایا ہے تو وہ کانگریس سے ہاتھ ملا کر زیرو ہوجائیں گے ۔ بہر حال کے سی آر کے موقف میں کافی الجھن دکھائی دیتا ہے ۔ ان کا سیاسی تجربہ خالص لوکل ایجنڈہ کے ارد گرد ہی پایا جاتا ہے ۔ اگرچیکہ وہ قومی عزائم اور قومی خوشحالی کی باتیں کرتے ہیں لیکن یہ کانگریس کو کمزور کرنے کے لیے ہے تو اس میں کامیابی نہیں ملے گی ۔ شاید چیف منسٹر کو یہ محسوس ہوچکا ہے کہ ہندوستان کی سیاست میں کانگریس کی کیا اہمیت ہے ۔ مرکزی عمل کے حصول کے لیے اس میدان میں کئی نادیدہ قوتیں ہیں ان کی سیاست پر شب خون مارنے کا خوب پورا ہونا ممکن نہیں ہے ۔ کانگریس کو کمزور اور بی جے پی کو طاقتور بنانے کے خفیہ ایجنڈہ کی خاطر کانگریس کی حلیف پارٹیوں کا سہارا لینے کی کوشش خود اپنے ہاتھوں سیاسی اوصاف سے محروم ہوجانے والی بات ہوگی ۔
kbaig92@gmail.com