ٹی آر ایس کی انتخابی مہم کا مطلب ۔ دھوکہ ، دھمکی اور دھکا

ظہیر آباد کے انتخابی جلسہ میں مرکزی وزیر جئے رام رمیش کا طنزیہ ریمارک

ظہیر آباد ۔ 19 ۔ اپریل : ( سیاست نیوز) : مرکزی وزیر دیہی ترقیات جئے رام رمیش نے کل شب یہاں حلقہ لوک سبھا ظہیر آباد و حلقہ اسمبلی ظہیر آباد کے کانگریسی امیدواروں کے لیے منعقدہ ایک انتخابی جلسہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں ہورہے عام انتخابات میں دراصل دو نظریات کے مابین انتخابی مقابلہ ہے ۔ ایک نظریہ سماج کو متحد رکھنے کا ہے تو دوسرا نظریہ سماج کو منقسم کرنے کا ہے ۔ یہ حقیقت ناقابل تردید ہے کہ کانگریس ملک میں مختلف زبانیں بولنے والوں اور مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے مابین فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے کی حامی ہے جب کہ بی جے پی اس کے بالکل برعکس نظریہ پر کاربند ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں ہورہے انتخابات انتہائی اہمیت کے حامل ہیں جو یہ طئے کریں گے کہ ملک کا اقتدار کس پارٹی کے حوالے کیا جائے ۔ عوام کو چاہئے کہ وہ اپنے سیاسی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے کانگریس کے امیدواروں کو منتخب کریں جو نہ صرف ریاست تلنگانہ بلکہ مرکز میں بھی مستحکم حکومت فراہم کرنے میں اہم رول ادا کریں گے ۔ انہوں نے ریاستی اسمبلی کے لیے بھی ہونے والے انتخابات کو اپنے خطاب کا موضوع بناتے ہوئے ٹی آر ایس کو ایک خاندانی پارٹی سے موسوم کیا اور ادعا کیا کہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل میں ٹی آر ایس کا کوئی رول نہیں ہے ۔ یہ کارنامہ صرف سونیا گاندھی نے انجام دیا ہے ۔

انہوں نے ٹی آر ایس کی تھری ڈی انتخابی مہم کو دھوکہ ، دھمکی اور دھکا سے تعبیر کرتے ہوئے وضاحت کی کہ ٹی آر ایس مابعد انتخابات مرکز میں تشکیل حکومت کے لیے این ڈی اے کے ساتھ ہاتھ ملا کر دھوکہ دے سکتی ہے جب کہ وہ علاقہ تلنگانہ میں برسر خدمت آندھرائی ملازمین کو یہ دھمکی دے رہی کہ تلنگانہ کی ملازمتیں صرف تلنگانہ والوں کے لیے ہیں ۔ انہوں نے ٹی آر ایس کے انتخابی نشان ’ ایمبسڈر کار ‘ کو از کار رفتہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کار کو عوام انتخابات میں دھکا مار کر انتخابی راستے سے ہٹادیں گے ۔ انہوں نے تلگو دیشم کے سربراہ کو بھی آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ تلگو دیشم اور بی جے پی کے نظریات میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے ۔ بی جے پی نریندر مودی کو وزیر اعظم بنانا چاہتی ہے جب کہ تلگو دیشم بھی اس کام میں بی جے پی کی مدد کررہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نئی ریاست تلنگانہ میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کی برقراری کے لیے کانگریس کو برسر اقتدار لانا وقت کا اہم تقاضہ ہے ۔ انہوں نے ایس سی و ایس ٹی طبقات کی طرز پر اقلیتوں و پسماندہ طبقات کو بھی سب پلان منظور کرنے کا وعدہ کیا ۔ رکن حلقہ لوک سبھا ظہیر آباد و کانگریسی امیدوار سریش کمار شٹکار نے کہا کہ ٹی آر ایس ایک بے لگام گھوڑا ہے جس کی کوئی منزل مقصود نہیں ہے ۔ وہ کبھی ہریانہ میں جاکر بی جے پی کی ریالی میں شریک ہوتا ہے تو کبھی تیسرے محاذ کے قافلہ میں شریک ہونے کی رٹ لگاتا ہے ۔ انہوں نے حلقہ لوک سبھا کے ٹی آر ایس امیدوار پر ٹی آر ایس میں شمولیت سے پہلے بی جے پی کا کھنڈوا پہن لینے کا الزام عائد کیا اور کہا کہ ٹی آر ایس نے ایک ایسے امیدوار کو نوٹ لے کر پارٹی ٹکٹ دیا ہے جو تلگو زبان سے ناواقف ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ٹی آر ایس کو ووٹ دینے کا مطلب بی جے پی کو ووٹ دینا ہے ۔ ایم ایل سی فاروق حسین نے ڈاکٹر جے گیتا ریڈی کو ایک سیکولر قائد قرار دیا اور قوی امید ظاہر کی کہ وہ آنے والے انتخابات میں حلقہ اسمبلی ظہیر آباد سے دوبارہ منتخب ہوں گی ۔ انہوں نے ملک میں بی جے پی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کی کوئی لہر نہ ہونے کا ادعا کیا اور کہا کہ ہندوستان کا ہر شہری نہرو خاندان کے ہر فرد سے واقف ہے لیکن کوئی بھی شہری نریندر مودی اور چندرا بابو نائیڈو کے خاندان کے افراد سے واقف نہیں ہے ۔

سابق ریاستی وزیر و کانگریسی امیدوار ڈاکٹر جے گیتا ریڈی نے ادعا کیا کہ انہوں نے اپنے پنچ سالہ میعاد کے دوران بحیثیت رکن اسمبلی ظہیر آباد اپنے حلقہ انتخاب میں ترقیاتی کاموں کی انجام دہی میں کبھی کوتاہی سے کام نہیں لیا ۔ انہوں نے اپنے حلقہ انتخاب میں انجام دئیے گئے ترقیاتی کاموں کا تفصیلات کے ساتھ تذکرہ کیا اور تیقن دیا کہ آنے والے انتخابات میں انہیں دوبارہ منتخب کیا گیا تو اس حلقہ کو بے مثال ترقی دینے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھیں گی ۔ کانگریس کے دیگر قائدین محمد معز الدین ، ایم بچی ریڈی ، سیف الدین غوری اور محمد مبین کے علاوہ تحریک مسلم شبان کے صدر مشتاق ملک نے بھی مخاطب کیا ۔ اس موقع پر کانگریس کے سرکردہ قائدین کو پلا راجو ، سنیتا پاٹل ، سرینواس ریڈی ، اروند ریڈی ، کشن پوار ، کانتا ریڈی ، ہنمنت راؤ پاٹل ، محمد خواجہ میاں ، شیلا رمیش ، محمد جہانگیر ، جی ستیش ، محمد فاروق علی ، طاہرہ بیگم ، محمد جعفر اور دوسرے شہ نشین پر موجود تھے ۔ جب کہ عوام کی ایک قابل لحاظ تعداد جلسہ میں شریک تھی ۔۔