ٹی آر ایس کیڈر کی ناراضگی میں اضافہ

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
ٹی آر ایس نے تلنگانہ حاصل کرنے کی تحریک چلانے کے ساتھ اپنی پارٹی کی سیاسی سرگرمیوں کو بے پناہ سرمایہ کے انوسٹمنٹ والی مصروفیات میں مشغول کردیا اور عوام کو فائدہ پہونچانے کے وعدے فراموش کردئیے گئے ۔ اصل میں تلنگانہ کے قیام کے بعد سرمایہ کے دروازے اس طبقے پر کھول دینے کی ضرورت تھی جن کے معاشی وسائل محدود ہیں ۔ گذشتہ 4 سال کی کارکردگی سے واقف عوام بہت جلد نئے انتخابات کی تیاری شروع کرنے والی ٹی آر ایس کو سیاسی استحکام بخشیں گے یا نہیں یہ تو آنے والا سال ہی بتائے گا ۔ اس وقت ٹی آر ایس کے اندر حوصلہ شکنی کی خبریں سامنے آرہی ہیں ۔ ٹی آر ایس میں شامل ہونے کے لیے اپنی سرپرست پارٹیوں کو خیرباد کہنے والے قائدین گھر کے نہ گھاٹ کے بن کر رہ جائیں گے ۔ ان کی ترجیحات کا علاقہ بدل جائے گا اور وہ کسی بھی پارٹی کے لیڈر نہیں ہوں گے اور اپنی سیاسی شناخت بھی کھو دیں گے ۔ یہی لوگ آج ٹی آر ایس کے اندر گڑبڑ پیدا کرتے نظر آرہے ہیں ۔ اگرچیکہ چیف منسٹر اور ان کے قریبی رفقاء نے اسمبلی انتخابات میں ٹی آر ایس کو 100 سے زائد نشستیں ملنے کی توقع ظاہر کی ہے لیکن اضلاع میں پارٹی کا موقف کمزور ہے ۔ چیف منسٹر کے سی آر کو اضلاع میں پارٹی کیڈرس کی ناراضگیوں سے فکر لاحق ہوگئی ہے ۔ اضلاع کے پارٹی کارکن اپنے علاقوں میں بالا دستی کے لیے لڑ رہے ہیں ۔ عین انتخابات کے موقع پر پارٹی کیڈر میں اس طرح کی ناراضگی فال نیک نہیں ہے ۔ ماضی میں یہ اختلافات اندر ہی اندر ختم کردئیے جاتے تھے لیکن اس مرتبہ کھل کر سامنے آرہے ہیں ۔ ایک دوسرے کی پول کھولنے والے قائدین پارٹی کے لیے نقصان دہ ثابت ہوں گے ۔ ایک طرف حکمراں پارٹی ٹی آر ایس کو داخلی انتشار کا سامنا ہے تو دوسری طرف اپوزیشن کانگریس نے اپنے کیڈرس کو مضبوط کرنے کی مہم تیز کردی ہے ۔ کانگریس ہائی کمان نے اس سے قبل پارٹی کیڈرس کو پارٹی کی سیاسی سرگرمیوں سے باز رکھا تھا ۔ اب پارٹی نے ریاست تلنگانہ میں پدیاترا نکالنے کی تمام لیڈروں کو ہدایت دی ہے ۔ پدیاترا نکالنے کی اس سے قبل کسی کو اجازت نہیں تھی کیوں کہ پارٹی کا احساس تھا کہ اس سے کیڈر کے اندر پھوٹ پڑ جائے گی ۔ اے آئی سی سی انچارج سکریٹری این ایس باسو راجو نے اشارہ دیا کہ کوئی بھی کانگریس لیڈر پدیاترا نکال سکتا ہے اور پدیاترا نکالنے میں دلچسپی رکھنے والے لیڈروں کے نام ہائی کمان کو روانہ کردئیے جائیں گے ۔

کئی سینئیر کانگریس لیڈروں نے اپنے بل پر پدیاترا نکالنے کا فیصلہ کیا ہے اس کے برعکس حکمراں ٹی آر ایس کو پارٹی کیڈرس کی ناراضگی اور انتشار پسندانہ سرگرمیوں کا شکار ہونا پڑرہا ہے ۔ اس لیے اب اس نے پارٹی کے اہم قائدین کے خلاف کارروائی کرنے سے گریز کیا ہے ۔ خاص کر ڈی سرینواس کے خلاف کارروائی کا فیصلہ روک دیا گیا ۔ راجیہ سبھا رکن ڈی سرینواس پر الزام ہے کہ وہ ٹی آر ایس کے خلاف کام کررہے ہیں ۔ سیاسی حلقوں میں یہ بحث زور پکڑ رہی ہے کہ بیشتر لیڈروں کے خلاف اگر چیف منسٹر نے کوئی کارروائی کی تو پھر پارٹی کو بھاری نقصان اٹھانا پڑے گا ۔ اس لیے چیف منسٹر نے اپنے غصہ کو ٹھنڈا کرلیا ہے ۔ تاہم پارٹی کے اندر چاروں طرف سے آگ برابر لگی ہوئی کہ مصداق ٹی آر ایس قائدین کو پارٹی قیادت کے تابع بنانا اب کے سی آر کے لیے مشکل ہوگا کیوں کہ جن قائدین کو گذشتہ چار سال میں حکومت سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوا ہے وہ اس مرتبہ اپنا زور بڑھائیں گے ۔ پارٹی کے اندر انتشار کی آگ نازک رخ اختیار کرے گی ۔ آگ کئی طرح کی ہوتی ہے ۔

مگر سب سے خطرناک اس سیاسی دل کی آگ ہوتی ہے جو سخت محنت کرنے کے بعد بھی اسے خاطر خواہ فائدہ اور جائز حق حاصل نہیں ہوتا ۔ پارٹی کیڈر کو جب اس کا جائز حق نہ ملے تو وہ مضطرب ہوجاتا ہے اور اس کے دل میں آگ بھڑکنے لگتی ہے ۔ کے سی آر کو یہی ڈر ہے کہ کہیں دل کی آگ پارٹی کے آئندہ امکانات کو آگ نہ لگادے ۔ چند مہینوں میں الیکشن کی گرما گرمی اور ٹکٹوں کی تقسیم کا مرحلہ شروع ہوگا تو دیکھنا یہ ہوگا کہ کے سی آر پارٹی کے کس کس لیڈر کے ساتھ انصاف کرتے ہیں ۔ ان کے لیے مشورہ یہی ہے کہ وہ پارٹی کیڈرس کی ناراضگی سے پیدا ہونے والی آگ سے نہ کھلیں اگر خرمن میں دبی ہوئی چنگاری کو بھی ذرا سی ہوا مل جائے تو پارٹی کو نقصان ہوگا کیوں کہ ٹی آر ایس کا متواتر تعاقب کرنے والی کانگریس اس آگ میں اپنے ہاتھ سیکھ لے گی ۔ ٹی آر ایس کیڈر جب راکھ کی ڈھیر میں اپنا گھر تلاش کرے گا تو اسے کانگریس کا سایہ نظر آئے گا ۔ کے سی آر پارٹی کے اندر ہونے والی غلطیوں کو معمولی سمجھ کر نظر انداز کرتے ہیں تو انہیں اقتدار کی خوشی کے لمحات دوبارہ نصیب نہیں ہوں گے ۔ شراب کا نشہ اتنا خطرناک نہیں جتنا اقتدار کا ہوتا ہے ۔ یہ اقتدار بھی جامن کا موسم ہے چند ہفتوں میں لد جاتا ہے ۔ اس لیے احتیاط لازمی ہے ۔ صدر پردیش کانگریس اتم کمار ریڈی ، ایک مضبوط چٹان کی طرح ٹی آر ایس کے سامنے پارٹی کیڈر کو کھڑا کرنے میں کامیاب ہوتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ کانگریس کی پدیاترائیں جب تلنگانہ کے ہر ضلع ، تعلقہ گاؤں میں نکالی جائیں گی تو ظاہر ہے رائے دہندوں کی ذہن سازی کرنے اور ٹی آر ایس حکومت کی اب تک کی خرابیوں اور کوتاہیوں سے عوام کو واقف کروانے میں کامیابی ملے گی ۔ کانگریس پدیاترا میں صدر کانگریس راہول گاندھی بھی حصہ لیں گے تو پارٹی کیڈرس کے حوصلے بڑھیں گے ۔ تلنگانہ میں کانگریس نے اپوزیشن کے طور پر عوام کے درمیان خود کو مصروف رکھ کر اپنے امکانات کو بڑھا لیا ہے ۔ ٹی آر ایس نے کانگریس کو کمزور کرنے کے لیے اس پارٹی کو تلنگانہ مخالف ثابت کرنے کی کوشش کرتی رہی ہے ۔ خاص کر آندھرا پردیش کو خصوصی موقف دینے کے مسئلہ پر کانگریس نے جب آندھرا قائدین کی حمایت کی تو ٹی آر ایس نے اس ایک موضوع کو بہانہ بناکر کانگریس کو مخالف تلنگانہ پارٹی قرار دیا ۔ اس طرح وہ کانگریس کو دو تلگو ریاستوں میں از خود مقبول بنانے میں مدد کی ہے ۔ جب کہ کانگریس قائدین کا یہ ادعا ہے کہ سونیا گاندھی نے آندھرا پردیش کے قائدین کے دباؤ کو نظر انداز کر کے ہی تلنگانہ کے قیام کا فیصلہ کیا تھا جب کہ اندھرا کو خصوصی زمرہ کا موقف دینے کا وعدہ بھی کیا تھا اسے کھلے عام عوام کو جو بات معلوم ہے اس کے برعکس کانگریس کو مخالف تلنگانہ ہونے کا نشانہ بنانا خود ٹی آر ایس کو مشتبہ بنانے کے مترادف ہے ۔ اگر اس طرح کے الزامات کی سیریز چلتی رہی اور کردار کشی کی حد تک منفی پروپگنڈہ میں ڈھلتی گئی تو مسئلہ نازک ہوگا ۔ اگر عین انتخابات کے موقع پر ٹی آر ایس کو اپنے ہی منفی پروپگنڈہ کا خسارہ اٹھانے پڑے تو یہ از خود اپنی مقبولیت کے پاؤں پر کلہاڑی چلانے جیسی غلطی ہوگی ۔۔
kbaig92@gmail.com