محمد نعیم وجاہت
تلنگانہ میں تیزی سے بدل رہا ہے سیاسی منظر لمبے عرصہ تک متحدہ آندھراپردیش پر راج کرنے والی کانگریس اور تلگودیشم علیحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد انتہائی کمزور دور سے گزر رہی ہیں۔ جدوجہد میں آگے رہنے والی ٹی آر ایس گزشتہ 2 سال میں سیاسی طور پر ناقابل تسخیر بن کر اُبھری ہے۔ گرام پنچایت سے راجیہ سبھا تک ٹی آر ایس کا سفر سیاسی حلقوں میں دھوم مچایا ہوا ہے۔ ٹی آر ایس کی کارکردگی قومی سطح پر توجہ کا مرکز بن گئی ہے۔ تلگودیشم سے بغاوت کرتے ہوئے 16 سال قبل ٹی آر ایس تشکیل دینے والے مسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے کبھی پیچھے مُڑ کر نہیں دیکھا۔ علیحدہ تلنگانہ ریاست کی تحریک شروع ہوئی تو وہ اسمبلی میں تنہا تھے۔ مگر ان کے عزائم بلند تھے۔ ٹی آر ایس کی تشکیل سے قبل کانگریس نے بھی علیحدہ تلنگانہ ریاست کی تحریک چلائی تھی۔ آنجہانی چنا ریڈی نے علیحدہ گروپ تشکیل دیتے ہوئے تلنگانہ ریاست کے نام پر 10 سے زائد ارکان پارلیمنٹ کو کامیاب بنایا تھا۔ تاہم چناریڈی اور دوسرے کانگریس قائدین نے گورنر کے علاوہ دوسرے عہدوں پر اکتفا کرتے ہوئے اپنی جماعت کو کانگریس میں ضم کردیا۔ جس کے بعد کانگریس پارٹی اقتدار میں آئی۔ مگر عوام نے علیحدہ تلنگانہ تحریک کے معاملہ میں کبھی کانگریس پر بھروسہ نہیں کیا۔ اس کی ایک اور وجہ یہ بھی ہے کہ کانگریس ایک قومی جماعت ہے۔ مقامی سطح کے فیصلے دہلی میں ہوتے ہیں، قومی قیادت کی ایک مجبوری یہ بھی تھی کہ اس کو آندھراپردیش کے تینوں علاقوں کے قائدین کے جذبات و احساسات کا خیال رکھنا تھا اور تلنگانہ قائدین سے زیادہ آندھرائی قائدین سیاسی اور معاشی طور پر مستحکم تھے۔ تلگودیشم کی بھی یہی صورتحال رہی۔ 2008 ء تک تلگودیشم متحدہ آندھراپردیش کی حامی تھی۔ 2004 ء کے عام انتخابات میں تلگودیشم نے اپنے انتخابی منشور کے ذریعہ متحدہ آندھراپردیش کا عوام سے وعدہ کیا تھا۔ تلگودیشم کی قیادت آندھرائی تھی۔ توقع کے مطابق اس نے اپنا ایجنڈہ تیار کیا تھا۔ کے سی آر نے حالات کا باریک بینی سے جائزہ لینے کے بعد علاقہ تلنگانہ کے 10 اضلاع تک محدود ٹی آر ایس سیاسی پارٹی تشکیل دی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کے علیحدہ تلنگانہ ریاست کا جذبہ رکھنے والے تمام ہمحیال جماعتوں، رضاکارانہ تنظیموں اور سیاسی قائدین کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے میں وہ کامیاب ہوگئے یہ اور بات ہے کہ دوسری جماعتوں کی نمائندگی کرنے والے تلنگانہ کے قائدین سیاسی طور پر کے سی آر کو نشانہ بناتے رہے۔
مگر عوامی جذبات کو محسوس کرتے ہوئے ان قائدین کو اپنی جماعتوں اور صفوں میں علیحدہ تلنگانہ ریاست کی بات کرنے کے لئے مجبور ہونا ورنہ ان کا سیاسی کیرئیر داؤ پر لگ گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ تلنگانہ ریاست کی تحریک ہر کونے سے اُٹھنے لگی۔ کانگریس اور تلگودیشم و بی جے پی قائدین پر ہائی کمان کا کنٹرول تھا مگر کے سی آر آزاد تھے۔ تلنگانہ کے تمام اضلاع میں بڑے بڑے جلسے کرتے ہوئے وہ عوامی ہیرو بن گئے۔ آندھرائی قائدین کی ان پر تنقید اور تحریک میں پیدا کی جانے والی رکاوٹیں، ٹی آر ایس کے استحکام میں معاون و مددگار ثابت ہوئیں۔ جب بھی تلنگانہ میں ضمنی انتخابات ہوتے تھے، کانگریس اور تلگودیشم کے علاوہ دوسری جماعتوں کا کیڈر و قائدین تلنگانہ تحریک کی شدت کو اپنے اپنے ہائی کمان تک پہونچانے کے لئے ٹی آر ایس امیدواروں کی کامیابی میں اہم رول ادا کیا ہے۔ بھرپور سیاسی بصیرت رکھنے والے کے سی آر نے تحریک کے دوران ہر موقع کا بھرپور فائدہ اُٹھایا۔ 2004 ء کے عام انتخابات میں کانگریس سے سیاسی اتحاد کیا تو 2009 ء کے عام انتخابات میں تلگودیشم سے اتحاد کیا اور ایسی حکمت عملی تیار کی کہ ملک کی بیشتر سیاسی جماعتوں کو علیحدہ تلنگانہ ریاست کی تائید کے لئے تیار کرلیا۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں کانگریس نے آندھرائی قائدین کی مخالفت کے باوجود علیحدہ تلنگانہ ریاست کے بِل کو منظور کردیا۔ علیحدہ تلنگانہ ریاست کے پہلے عام انتخابات 2014 ء میں تلنگانہ کے عوام نے کے سی آر کی قیادت پر بھروسہ کرتے ہوئے ٹی آر ایس کو بھاری اکثریت سے کامیاب بنایا۔ 14 سالہ تحریک کے دوران سربراہ ٹی آر ایس کے سی آر کو کئی نشیب و فراز سے گزرنا پڑا۔ ایک موقع پر انھوں نے غیر معینہ مدت کی بھوک ہڑتال کی۔ ساری ریاست تلنگانہ تشدد کی لپیٹ میں آگیا۔ 2009 ء میں کانگریس کی زیرقیادت یو پی اے حکومت نے علیحدہ تلنگانہ ریاست تشکیل دینے کا اعلان کیا مگر آندھرائی احتجاج کے بعد صرف دو ہفتوں کے دوران اپنے فیصلے سے دستبرداری اختیار کرلی۔ اس طرح کبھی نرم اور کبھی گرم کی پالیسی اپنانے والے کے سی آر نے ہمیشہ پارٹی پر اپنی گرفت مضبوط رکھی۔ صرف راج شیکھر ریڈی نے ٹی آر ایس کے 10 ارکان اسمبلی کو پارٹی سے منحرف کرتے ہوئے پارٹی قیادت کے خلاف بغاوت کرائی تھی مگر اس بحران پر بھی کے سی آر نے تھوڑی بہت پریشانی کے بعد قابو پالیا تھا۔ سربراہ ٹی آر ایس نے علیحدہ تلنگانہ ریاست تشکیل دینے کی صورت میں ٹی آر ایس کو کانگریس میں ضم کردینے کا پیشکش کیا تھا۔ علیحدہ تلنگانہ ریاست تشکیل دینے کے بعد دہلی میں صدر کانگریس سونیا گاندھی اور نائب صدر راہول گاندھی کے علاوہ دوسرے قائدین سے ملاقات کی تھی۔
باوثوق ذرائع سے پتہ چلا ہے کہ اُس وقت کے سی آر نے کانگریس قیادت کے سامنے جو شرائط رکھی تھیں اس کو کانگریس ہائی کمان اور تلنگانہ کے کانگریس قائدین نے قبول نہیں کیا۔ تلنگانہ کانگریس قائدین کے پیر زمین پر نہیں ٹک رہے تھے اور پارٹی ہائی کمان کو 100 سے زائد اسمبلی اور 16 لوک سبھا حلقوں پر کامیابی حاصل کرنے کا خواب دکھا رہے تھے۔ ہائی کمان نے تلنگانہ قائدین پر بھروسہ کرتے ہوئے تنہا مقابلہ کرنے کو ترجیح دی۔ انتخابات میں ڈپٹی چیف منسٹر کے بشمول بیشتر وزراء کو شکست ہوگئی۔ 2 جون 2014 ء کو چیف منسٹر کی حیثیت سے حلف لینے کے بعد سے اب تک کے سی آر نے پورے تلنگانہ پر اپنی گرفت مضبوط کرلی۔ سیاسی طور پر اتنے مضبوط و مستحکم ہوگئے کہ گرام پنچایت سے راجیہ سبھا تک تمام انتخابات میں ٹی آر ایس کے امیدواروں کی کامیابی کی راہ ہموار ہوگئی۔ جہاں پر ٹی آر ایس کے بجائے کانگریس اور تلگودیشم دوسری جماعتوں کو کامیابی حاصل ہوئی تھی وہ سب ٹی آر ایس میں شامل ہوگئے۔ دو لوک سبھا اور دو اسمبلی حلقوں کے ضمنی انتخابات، گریٹر حیدرآباد میونسپل کارپوریشن، گریٹر ورنگل، گریٹر کھمم کے علاوہ دوسری بلدیات پر ٹی آر ایس کا قبضہ ہوگیا۔ سوائے دو مقامی اداروں کے کونسل انتخابات میں کانگریس اور گریجویٹ کوٹہ میں بی جے پی کے تمام انتخابات میں ٹی آر ایس نے شاندار کامیابی درج کرائی ہے۔ حد تو یہاں تک ہوگئی کہ مقامی اداروں کے کونسل انتخابات میں کانگریس کے 3 اور تلگودیشم کے 2 امیدواروں نے ٹی آر ایس کے حق میں دستبرداری اختیار کرلی۔ علیحدہ تلنگانہ ریاست کی تشکیل کے بعد کونسل میں کانگریس کی اکثریت تھی۔ کانگریس کے 9 ارکان قانون ساز کونسل نے ٹی آر ایس میں شمولیت اختیار کرلی۔ اس کے بعد تلگودیشم کے ارکان نے اپنی جماعت کو کونسل میں ٹی آر ایس میں ضم کردیا۔ تلگودیشم کے 16 کے منجملہ 13 ارکان اسمبلی ٹی آر ایس میں شامل ہوگئے۔
حال ہی میں کانگریس کے 5 ارکان اسمبلی اور 2 ارکان قانون ساز کونسل ٹی آر ایس میں شامل ہوگئے۔ بی ایس پی کے 2 ارکان اسمبلی ٹی آر ایس میں شامل ہوگئے۔ وائی ایس آر کانگریس کے ایک رکن پارلیمنٹ اور 3 ارکان اسمبلی ٹی آر ایس میں شامل ہوگئے۔ کانگریس کے 2 ارکان اسمبلی کا انتقال ہوا تھا۔ یہاں منعقد ہونے والے ضمنی انتخابات میں ٹی آر ایس نے کانگریس سے دو حلقے چھین لئے۔ اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے ٹی آر ایس کی سیاسی طاقت تلنگانہ میں پھیل چکی ہے۔ ٹی آر ایس کا راجیہ سبھا میں صرف ایک ہی رکن ہے۔ تلنگانہ سے مخلوعہ ہونے والے دو راجیہ سبھا کی نشستوں پر ٹی آر ایس کا آسانی سے قبضہ ہوجائے گا کیوں کہ ایک نشست کے لئے 40 ارکان اسمبلی کی تائید ضروری ہے جبکہ ٹی آر ایس کے پاس جملہ ارکان اسمبلی کی تعداد 42 ہے۔ سربراہ ٹی آر ایس مسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے راجیہ سبھا کی 2 نشستوں کے لئے ڈی سرینواس اور کیپٹن لکشمی کانت کو امیدوار بنایا ہے۔ ان کا بلا مقابلہ کامیاب ہونا یقینی ہے۔ اگر انتخابات ہوتے ہیں تو وہ پہلے ترجیحی ووٹ میں کامیاب ہوجائیں گے۔ راجیہ سبھا کی دوڑ میں کئی قائدین دعویدار تھے۔ تاہم کے سی آر نے پارٹی کے بانی رکن کیپٹن لکشمی کانت راؤ کو ترجیح دی ہے اور کانگریس سے ٹی آر ایس میں شامل ہونے والے سینئر قائد مسٹر ڈی سرینواس کو دوسرے امیدوار کے طور پر نامزد کیا۔ اس نامزدگی میں چیف منسٹر کی دختر و رکن پارلیمنٹ نظام آباد مسز کویتا کا بھی اہم رول رہا ہے۔ اسمبلی پالیر کے ضمنی انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کرنے والے ریاستی وزیر ٹی ناگیشور راؤ نے کونسل سے مستعفی ہوگئے۔ چیف منسٹر کے سی آر نے اس مخلوعہ نشست پر سابق ریاستی وزیر محمد فریدالدین کو امیدوار بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ کے سی آر کے اس فیصلہ سے تلنگانہ قانون ساز کونسل میں ایک مسلم رکن کا اضافہ ہوگیا ہے۔ گزشتہ 2 سال سے مسلمانوں میں جو بے چینی تھی،
فریدالدین کو امیدوار بناتے ہوئے چیف منسٹر نے کسی حد تک دور کرنے کی کوشش کی ہے۔ کے سی آر نے اپنی سیاسی بصیرت کا ثبوت دیتے ہوئے ٹی آر ایس کو تلنگانہ میں اندرون 2 سال یقینا ناقابل تسخیر بنادیا ہے۔ اب ہم صرف کے سی آر کی سیاسی طاقت کا جائزہ لیں گے حکومت کی کامیابی اور ناکامی پر بعد میں غور کریں گے۔ ٹی آر ایس کو تلنگانہ میں سیاسی طاقت بنانے کے لئے کے سی آر نے جو حکمت عملی تیار کی ہے اُس میں وہ بڑی حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔ مگر ہمیں پس منظر میں بھی جھانکنے کی ضرورت ہے۔ فی الحال تلنگانہ میں اپوزیشن کی کمر توڑنے میں کامیاب ہونے والے کے سی آر کیا پارٹی قائدین میں پائے جانے والے کرب، بے چینی، مایوسی، ناراضگی، غیر یقینی صورتحال پر بھی توجہ دے رہے ہیں، یہ بڑا سوال ہے۔ کیوں کہ 14 سال تک پارٹی کو کندھوں پر اُٹھانے والے ایسے کئی قائدین ہیں جن سے انصاف نہیں ہوا ہے۔ وزارت میں تلگودیشم اور کانگریس کے قائدین ہیں 25 سے زائد دوسری جماعتوں کے ارکان اسمبلی کی ٹی آر ایس میں شمولیت کے بعد ان حلقوں کی نمائندگی کرنے والے قائدین میں سیاسی مستقبل کو لے کر بے چینی دیکھی جارہی ہے۔ پارٹی قائدین کے بجائے ارکان اسمبلی کو چند کارپوریشنس کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ پارٹی میں ابتداء سے کام کرنے والے قائدین کو نظرانداز کرکے حکومت تشکیل دینے کے بعد ٹی آر ایس میں شامل ہونے والے قائدین کو اہمیت دینے سے پارٹی کے بانی و حقیقی کارکنوں میں ناراضگی پائی جاتی ہے۔ اگر چیف منسٹر کی جانب سے حقیقی قائدین سے غفلت ہوتی رہی تو صبر کا پیمانہ لبریز ہونے کے بھی خدشات ہیں۔ جس کو نظرانداز کرنا مستقبل میں نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔
infonayeem@gmail.com