ٹی آر ایس و بی جے پی دشمن نما دوست

پروفیسر کے ناگیشور
بی جے پی اور ٹی آر ایس کے درمیان حکمت عملی کے تحت خاموشی ٹوٹ گئی ہے کیونکہ صدارتی انتخابات اختتام پذیر ہوچکے ہیں۔ دونوں پارٹیاں اب دوبارہ سیاسی تیر و نشتر چلانے لگے ہیں۔ بی جے پی کے بااثر شخص رام مادھو نے تلنگانہ میں پارٹی والوں کو ٹی آر ایس کے خلاف جدوجہد کرنے کی تاکید کردی ہے۔ بی جے پی لیڈر نے ریمارک کیا کہ سیاست تو بس اقتدار کے حصول کا ذریعہ ہے اور یہ فیاضی کرنے کا معاملہ نہیں ہے۔
نعرۂ جنگ واضح ہے۔ بات تیز و تند ہے۔ یہ صحیح ہے ، اگر کوئی اقتدار حاصل کرنا چاہے تو فیاضی یا مروت کی گنجائش نہیں ہوسکتی۔ بی جے پی کا ٹی آر ایس کے تئیں فیاض یا بے مروت ہونا صرف اس بات پر منحصر ہے کہ اسے نئی دہلی نہ کہ حیدرآباد میں اقتدار برقرار رکھنے کیلئے اپنے منصوبے میں کیا موزوں معلوم ہوتا ہے۔ حیدرآباد میں راہ بہت طویل ہے۔ اس راہ میں کئی رکاوٹیں ہیں۔ پھر بھی تلنگانہ میں بی جے پی کی ڈرامہ بازی بے وجہ نہیں ہے۔
بی جے پی عام طور پر شمالی ہندوستانی پارٹی مانی جاتی ہے جس میں ہندی لسانی بالادستی اس کی قیادت اور تقاریر میں نمایاں خاصیت رہتی ہے۔ ماسوائے کرناٹک ، پارٹی کوئی بھی قابل لحاظ پیشرفت کرنے میں ناکام ہوئی جس کا سبب مضبوط کھلی یا ضمنی طور پر دراوڑی شناخت ہے۔ درحقیقت، ایک مخصوص مدت میں جسے ٹی آر ایس کے اُبھرنے کے بعد کی مدت کہہ سکتے ہیں، بی جے پی نے اپنی طاقت کھودی اور حیدرآباد میں اسے بہت نقصان برداشت کرنا پڑا ہے جو کبھی ا س کا گڑھ ہوا کرتا تھا۔ متواتر حکومتوں کی شہر کو دہلا دینے والے فرقہ وارانہ کشیدہ ماحول کو روکنے میں کامیابی نے سیاسی ۔ مذہبی عنصر کو مسابقتی انداز میں متحرک ہونے سے باز رکھا ہے جو زعفرانی بریگیڈ کے فروغ کیلئے سازگار ماحول ثابت ہوسکتا تھا۔

تلنگانہ میں سماج کے ثقافتی اقدار اور سیاسی طور پر باشعور خاصیت بھی تلنگانہ میں کنول کا اترپردیش جیسا تجربہ روبہ عمل لانے میں رکاوٹیں ہیں۔ بی جے پی کو ایسا کوئی یوگی مل جانے کی امید ہے جو تلنگانہ میں پارٹی کو آگے بڑھائے۔ تلنگانہ میں ایسے سیاست داں ضرور ہوسکتے ہیں جو یگنہ انجام دینے میں بڑی دلچسپی رکھتے ہیں لیکن یوگیوں کو یہ ماحول شاید ناسازگار معلوم ہو۔
تلنگانہ بی جے پی قیادت ہندی کے علاقے یا مراٹھی۔ گجراتی پٹی کے بی جے پی قائدین کی صنف سے غیرمشابہ ہے، جو زہریلی باتیں چھیڑنے میں ذوفنون ہیں۔ یہ بات اس حقیقت سے عیاں ہے کہ بی جے پی ریاستی قیادت مسلم تحفظات کے سلگتے موضوع پر کوئی مسموم مہم نہیں چھیڑسکی۔ حتیٰ کہ پارٹی کی قومی قیادت بھی بتایا جاتا ہے کہ اس ناکامی پر ناراض ہے۔ علاوہ ازیں ، اور کوئی نہیں بلکہ کل ہند صدر امیت شاہ نے مبینہ طور پر ناخوشی کا اظہار کیا ہے جس طرح ریاستی پارٹی قائدین مختلف مقاصد پر کام کررہے ہیں۔ بی جے پی کے قریبی ذرائع کا انکشاف ہے کہ اسٹیٹ پارٹی کے کوئی بھی دو سرکردہ قائدین باہم ارتباط میں کام نہیں کرسکتے ہیں۔ اختلافات دیرینہ ہیں اور جھگڑے آسانی سے مٹائے نہیں جاسکتے ہیں۔
سیاسی حلقوں میں یہی بات عام ہے کہ اکثر ریاستی بی جے پی قائدین کو ٹی آر ایس قیادت نے ہمنوا بنالیا ہے۔ صرف چند قائدین کی کبھی کبھار تیز و تند تنقیدیں اور طویل دورانیوں تک خاموشی اس طرح کے الزامات پر یقین دلاتے ہیں۔
اترپردیش کے برخلاف تلنگانہ میں پارٹی ریاستی سطح پر نئے قائدین کو اُبھارنے میں ناکام ہوئی ہے۔ آسام کے برخلاف پارٹی دیگر پارٹیوں سے کسی کرشماتی لیڈر کو راغب نہیں کررہی ہے کہ قیادت سنبھالے۔تلنگانہ بی جے پی ہمیشہ ہی آل انڈیا پارٹی کی کلیدی ضروریات کا شکار ہوئی ہے۔ پارٹی پر متحدہ ریاست میں ٹی ڈی پی کے ساتھ اپنی وابستگی کے سبب بھاری اثر پڑا اور وہ بھاری ووٹ برقرار رکھنے میں ناکام ہوگئی جو اسے کارگل جنگ کے تناظر میں اور واجپائی عنصر کے باعث حاصل ہوسکتا تھا۔

بی جے پی تلنگانہ میں کامیاب تجربہ کیلئے اکثر و بیشتر اپنے کرناٹک تجربے سے حوصلہ پاتی ہے۔ لیکن پارٹی کنڑا سرزمین میں تک کافی وقعت کھوچکی ہے اور کھوئی ساکھ کو دوبارہ حاصل کرنے کیلئے اسے نامساعد حالات میں جدوجہد کرنا پڑرہا ہے۔ صرف اسی واحد جنوبی ہند کی ریاست میں جہاں اسے اقتدار کا مزہ چکھنے کا موقع ملا، بی جے پی کے پاس کبھی سازگار عددی طاقت تھی۔ جنتا دل (ایس) کی شکل میں علاقائی پارٹی بڑی حد تک اعتبار کھوچکی ہے۔ لنگایت ووٹ بینک کی شکل میں ذات پات کے عنصر نے بھی پارٹی کو اقتدار تک پہنچنے میں مدد کی ہے۔اس طرح کی کوئی صورتحال تلنگانہ میں نہیں ہے۔ برسراقتدار ٹی آر ایس ہنوز طاقتور ہے جو آسام کے تجربے کے برعکس ہے جہاں حکمراں کانگریس کو سخت مخالف حکومت عنصر کا سامنا ہوا کیونکہ وہ متواتر میعادوں سے اقتدار پر تھی۔ آسام میں بیرونی افراد کے بلاروک ٹوک داخلے کے خلاف شناختی مہم میں بی جے پی نے شدومد سے حصہ لیا ہے جس نے اسے مناسب وقت پر فائدہ اٹھانے کا موقع فراہم کیا۔ وہ مناسب وقت آسام گن پریشد (اے جی پی) کے بکھراؤ کے سبب آیا جو آسام شناختی تحریک کی قیادت کررہا تھا۔
اسی طرح، بی جے پی علحدہ ریاست کی شکل میں تلنگانہ شناخت کیلئے تحریک میں سرگرم رہی۔ تلنگانہ کے عوام کے علحدہ ریاست کیلئے دیرینہ خواب کی تکمیل کیلئے پارٹی کی تائید اہم رہی۔ پھر بھی پارٹی اس ہمدردی کا کچھ فائدہ نہیں اٹھا سکی۔ جس پارٹی نے علحدہ ریاست دلانے میں اپنا حصہ ادا کیا وہ اس کے بعد ناکام ہوگئی۔ کس طرح وہ پارٹی جس نے علحدہ ریاست کا وعدہ پورا کرنے میں کانگریس کی تائید کی اس سے فائدہ اٹھا سکتی ہے؟ ٹی آر ایس نے علحدہ ریاست کا خواب پورا کرنے پر تمام تر ہمدردیاں لوٹ لئے۔
آسام کے برعکس جہاں علاقائی پارٹی منتشر ہوگئی، برسراقتدار ٹی آر ایس بھرپور روانی میں ہے۔ تلنگانہ میں کانگریس آسام میں اپنی ساتھی یونٹ کے برعکس یہاں برسراقتدار پارٹی نہیں کہ اس پر عوام کا عتاب نازل ہو۔ یہ پارٹی ریاست میں ہنوز بڑی اپوزیشن اور قابل لحاظ طاقت ہے۔ تلنگانہ میں وسیع سیاسی منظر کو ہنوز سہ رخی یا زیادہ تعداد والا بننا ہے۔
لیکن یہ بھی مساوی طور پر درست ہے کہ ملک میں جاری موافق مودی احساسات سے یقینا پارٹی کو اس ریاست میں مدد ملے گی۔ حتیٰ کہ ٹی آر ایس اس مودی عنصر کو چیلنج کرنے تیار نہیں، شاید یہی سوچ کر کہ وہ اسمبلی انتخابات میں اس کے امکانات کو نقصان نہیں پہنچائے گا ، حالانکہ پارلیمانی ووٹ میں اس کا کچھ اثر ظاہر ہوسکتا ہے۔
علاوہ ازیں، بی جے پی معاملہ پر ٹی آر ایس نظریہ واضح ہے۔ اسے زعفرانی پارٹی کے بڑھتے اثر پر کچھ خاص فکرمندی نہیں ہے۔ بی جے پی کی قابل لحاظ پیشرفت سے اپوزیشن کا ووٹ ہی گھٹے گا، جس سے برسراقتدار پارٹی کو فائدہ ہوگا۔ یہ حقیقت کو دیکھتے ہوئے کہ اسے 2014ء میں سادہ اکثریت سے کچھ زائد نشستیں حاصل ہوسکیں، پارٹی کا اپوزیشن کی تقویت کے خطرات کا اندیشہ کرنا درست ہے۔ لہٰذا، ٹی آر ایس نے بی جے پی کو دوست بہ شکل دشمن باور کرلیا ہے۔ یہ بات ٹی آر ایس سربراہ اور چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ کے امیت شاہ اور راہول گاندھی کے تبصروں پر ردعمل سے ظاہر ہوجاتی ہے۔ ٹی آر ایس ایسا نظری خیال پیدا کرتے ہوئے فائدہ اٹھانے کوشاں ہے کہ بی جے پی اس کی حقیقی متبادل ہے۔ یہ سیاسی طور پر چالاک ٹی آر ایس قیادت کی ہوشیاری سے ترتیب دی گئی حکمت عملی ہے کہ کانگریس کو دوڑ سے دور رکھا جائے۔
اسی طرح، بی جے پی کا ٹی آر ایس کے تئیں کوئی نرم گوشہ نہ رہے گا کیونکہ وہ بھی چاہتی ہے کہ کانگریس حاشیے پر چلی جائے۔ اس طرح، بی جے پی اور ٹی آر ایس کے درمیان مشترک کاز ہے کہ کانگریس کو سیاسی بحث سے باہر کردیں۔ بی جے پی اچھی طرح جانتی ہے کہ ٹی آر ایس کسی مناسب موقع پر این ڈی اے صفوں میں شامل ہوجانے کیلئے کس قدر مضطرب ہے۔ صدرجمہوریہ اور نائب صدر کے عہدوں کیلئے انتخابات میں ٹی آر ایس کی جانب سے پیش کردہ غیرمشروط تائید بی جے پی قومی قیادت کیلئے کافی سے زیادہ تسلی بخش ہے۔ لہٰذا، ٹی آر ایس ، بی جے پی کی ’غیرفیاض‘ حلیف پارٹی رہے گی۔
یوں تو کئی سنیاسی بی جے پی کے توسیعی پریوار میں شامل ہیں، لیکن پارٹی بلاشبہ سیاسی سنیاس والا کوئی کام نہیں کررہی ہے۔ وہ کوئی کسر نہیں چھوڑے گی کہ ممکنہ طور پر سارے ملک پر حکمرانی کرے۔ اس ڈگر پہ پارٹیاں دوست یا دشمن ہوسکتی ہیں جس کا انحصار دستیاب حالات پر رہتا ہے۔ جب اس طرح کی حکمت عملی کا معاملہ پیش آئے تو ٹی آر ایس بھی مستثنیٰ نہیں ہے۔ سیاست آخر تو سردمہری کا معاملہ ہوتا ہے۔ بی جے پی اپنے مقاصد کو اسی طرح عزیز رکھتے ہوئے تلنگانہ میں برسراقتدار آنے کیلئے کام کرتی رہے گی لیکن ہوسکتا ہے اس کوشش میں اسے زیادہ تعداد میں ایم پیز مل جائیں تاکہ اسے کم از کم 2019ء میں دہلی کے اقتدار کی دوڑ میں مدد مل سکے۔