محبوب نگر /28 مارچ ( سیاست ڈسٹرکٹ نیوز ) مسلسل 14 برس تک پارٹی کیلئے نمایاں خدمات انجام دینیکے دوران میں نے کبھی خواب میں نہیں سونچا تھا کہ میں پارٹی سے استعفی دینے کیلئے مجبور ہو جاؤں گا۔ ان خیالات کااظہار سید ابراہیم نے ایک پرہجوم پریس کانفرنس کو مخاطب کرتے ہوئے کیا ۔ اپنے کیمپ آفس واقع مستقر محبوب نگر پر طلب کردہ پریس کانفرنس میں انہوں نے جذبات سے مغلوب ہوتے ہوئے ٹی آر ایس پولیٹ بیورو ممبر کے عہدے اور پارٹی کی رکنیت سے مستعفی ہونے کااعلان کیا ۔ انہوںنے کہا کہ پارٹی کی جانب سے انہیں جو بھی عہدے دئے گئے ہمیشہ میں نے اس کو بخوبی نبھایا ہے ۔ خصوصا حلقہ اسمبلی محبوب نگر میں پارٹی کو بنیادی سطح سے مستحکم کرنے کیلئے میں نے دن رات محنت کی ۔ گذِتہ 14 برس سے یعنی پارٹی کے قیام سے لیکر اب تک میں نے ایک وفادار پارٹی کارکن کی حیثیت سے کام کیا لیکن اب حلقہ اسمبلی محبوب نگر کی ذمہ داری اور ایم ایل اے ٹکٹ کیلئے کسی اور کے نام کے اعلان سے مجھے سخت صدمہ پہونچا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پارٹی کو عوام کے قریب لے جانے کیلئے میں نے گھر گھر مہم چلائی لیکن میں نے نہیں سونچا کہ میرے ساتھ اس طرح کا سلوک کیا جائے گا۔ انچارج حلقہ اسمبلی کے عہدے سے مجھے ہٹاکر کسی اور کو دیا گیا اور تعجب ہے کہ مجھے اس کی اطلاع تک نہیں دی گئی ۔ انہوں نے کہا کہ 2 سال قبل جو ضمنی انتخابات ہوئے تھے ان میں میری شکست کے ذمہ دار قائد کو حلقہ اسمبلی کا انچارج بنایا اور مجھے اس کے اطلاع ملنے کے زائد از دو ہفتہ تک مجھے سے ربط پیدا نہیں کیا اور نہ پارٹی کی طرف سے کوئی نئی خدمت مجھے دی گئی ۔
جب پارٹی میں وقار ہی نہیں رہ گیا تو پارٹی میں رہ کر فائدہ کیا ہے ۔ اسی بناء پر آج پولیٹ بیورو ممبر کے عہدے اور پارٹی کی ابتدائی رکنیت سے استعفی دے رہا ہوں ۔ میرے ساتھ میرے حامی بھی مستعفی ہو رہے ہیں ۔ پریس کانفرنس میں محسن خان نے کہا کہ کے سی ار کی قیادت میں اب اقلیتوں کے ساتھ انصاف ممکن نہیں رہا ۔ وہ صرف بلند بانگ دعوؤںژ تک محدود ہوگئے ہیں ۔ انہیں صرف اقلیتوں کے ووٹ چاہئے ۔ اقلیتوں کو عہدے دینا ان کو پسند نہیں ہے ۔ 2009 کے لوک سبھا انتخابات میں کے سی آر حلقہ پارلیمان محبوب نگر سے مقابلہ کر رہے تھے تو صرف اپنی جیت کو یقینی بنانے کیلئے انہوں نے محبوب نگر اسمبلی سے سید ابراہیم کو امیدوار بنایا ۔ کے سی آر تو جیت گئے مگر ابراہیم ہار گئے ۔ اس کے بعد ضمنی انتخابات میں جے اے سی قائدین اور ٹی آرایس کے کچھ لوگ بی جے پی کی حمایت کرکے ابراہیم کو شکست دلائی ۔ عوام سارا تماشہ دیکھ رہے ہیں۔ اب یہی چال چلتے ہوئے بودھن اسمبلی کیلئے شکیل کا نام گشت کرایا جارہا ہے کیونکہ کے سی آر کی دختر وہاس سے لوک سبھا کیلئے مقابلہ کرنے والی ہیں۔ ایک سوال پر کہ آپ کونسی پارٹی میں شامل ہوں گے ؟ سید ابراہیم نے کہا کہ کئی سیاسی جماعتیں انہیں شمولیت کی دعوت دے رہی ہیں ۔ لیکن وہ اپنے حامیوں سے مشاورت کے بعد ہی فیصلہ کریں گے ۔ سید ابراہیم نے مکتوب استعفی کی نقل اخباری نمائنوں میں تقسیم کی ۔ اس موقع پر ٹی آرایس سے وابستہ قائدین و کارکنان کی خاصی تعداد نے بھی سید ابراہیم کے ساتھ پارٹی کی ابتدائی رکنیت سے استعفی دے دیا جن میں قابل ذکر محسن خان ٹی آر ایس ضلع اقلیتی سیل صدر ڈی چنا کیشو راؤ ریاستی جنرل سکریٹری ٹی آرایس وی ناگراج یادو محبوب نگر ٹاون صدر کے علاوہ کرشنا ارجن مدیراج ، یادو ریڈی ، ایم ونود ، چنیا ، بالاجی نرسمہلو ، عثمان ، ڈی نرسملو ، ایم نرسمہا ، شنکر نائیک ، چندراکانت ، منتری نرسمہلو ، منتری چناکیشولو ، محمد سلطان کے علاوہ ٹی آر ایس کے مواضعات اور منڈل سطح کے کارکنان سرپنچوں ایم پی ٹی سیز وغیرہ بھی مستعفی ہوگئے ۔