ٹی آر ایس حکومت مسلم فلاح وبہبود کے عہد کی پابند

کریم نگر۔/22فبروری، ( سیاست ڈسٹرکٹ نیوز) سابقہ حکومتوں نے مسلمانوں کو صرف ووٹ بینک سمجھ رکھا تھا ، چناؤ کے دوران دلوں کو لبھانے والے وعدے کرنا، دعوت افطار دے کر خوش کردینا، ووٹ حاصل کرنے کیلئے سیکولر ہونے کا دعویٰ کرنا، فرقہ پرستی اور فرقہ پرست جماعت کا ڈر خوف پیدا کرکے اقتدار حاصل کرلینا اور پھر پانچ سال تک مسلمانوں کے مسائل سے پوری طرح سے غفلت برتنا، یہی ان کا چلن تھا۔ ریاستی وزیر فینانس و سیول سپلائیز ایٹالہ راجندر نے ان خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے سخت تنقید کرتے ہوئے انتہائی افسوس کیساتھ کہا کہ مسلمانوں کی آج اس بدترین صورتحال کے ذمہ دارسابقہ حکومتیں ہی ہیں۔ وہ یہاں کریم نگر فنکشن ہال میں ہفتہ کی شب پنچایت راج اداروں میں نامزد کردہ کوآپشن ممبرس فورم ضلع کمیٹی کے زیر اہتمام اجلاس میں مخاطب کررہے تھے۔ اجلاس کی صدارت محمد جمیل الدین نے کی۔اس اجلاس میں جناب ایٹالہ راجندر نے مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی اور خطاب کیا۔انہوں نے کہا کہ ہماری حکومت ٹی آر ایس تلنگانہ ریاست کے وزیر اعلیٰ کے سی آر نے چناو منشور میں جتنے تیقنات اور وعدوں پر عمل کرنے کے بارے میں یقین دہانی کی ان پر عمل کیا جائے گا۔ انہوں نے کہاکہ ہمارے خلاف جھوٹا پروپگنڈہ اور افواہیں پھیلانے والوں کو عملی طور پر تمام دعوؤں کو پورا کردکھادیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اردو میڈیم کے اسکولس کے ٹیچرس کی مخلوعہ جائیدادوں پر تقررات ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ کئی ایسے آبائی پیشے ہیں جس سے کئی ایک طبقات وابستہ ہیں لیکن مسلم قوم آج ہر معمولی پیشہ سے جڑی ہوئی نظر آتی ہے جیسے سیکل پنکچر، میکانک، ترکاری اور پھل فروخت کرنا، ٹھیلہ بنڈی، چائے خانے، کھارے کی بنڈیاں، موٹروں کی دھلوائی و صفائی جیسے پیشے اپنائے ہوئے ہیں اس کی وجہ تعلیم سے دوری ہے۔ اس لئے تلنگانہ کے 10اضلاع میں گرلز اور بوائز ریسیڈنشیل ( اقامتی ) دو اسکول قائم کئے جانے کا منصوبہ عمل تیار کیا گیا ہے اور اقامتی اسکول میں کم از کم چار سو تا پانچ سو طلباء کی گنجائش رکھی جارہی ہے۔ یہی نہیں مسلمان جو کسی بھی معمولی پیشہ سے منسلک ہیں ان کی تعلیمی قابلیت کے مطابق انہیں وظیفہ دیتے ہوئے عصری تربیت دی جائے گی اور بعد ازاں خود روزگار اسکیم کے تحت حکومت ہی بینک سے قرض فراہم کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ مسلمانوں کی ترقی و بہبود کیلئے 1033کروڑ روپئے مختص کئے گئے ہیں جس میں سے 600 کروڑ تک خرچ ہوا ہے اس اسکل ڈیولپمنٹ پروگرام کے تحت فوری طور پر مابقی رقم خرچ کئے جانے کے سختی سے احکامات دیئے گئے ہیں۔ سابق حکومت کے وعدوں پر یقین کرکے مسلمان دھوکہ کھاتے ہوئے نقصان اٹھائے ہیں لیکن ہماری حکومت عوام کو بغیر کسی ضمانت قرض دینے کے اقدامات کررہی ہے۔حکومت کے جی تا پی جی مفت تعلیم کا منصوبہ عمل رکھتی ہے ملک بھر میں کہیں اس کی نظیر نہیں ملتی۔انہوں نے کہا کہ ملازمین کو 43پی آر سی فراہم کی ہے تاکہ پرسکون طور پر کام کرسکیں اس کے باوجود بدعنوانیوں میں مبتلا ہونے پر انتہائی سختی سے پیش آئیں گے۔ ریزرویشن پر فی الحال اعلیٰ عہدیداران اور ماہرین قانون سے مشورہ کیا جارہا ہے۔ متعلقہ عہدیدار اس کا جائزہ لے رہے ہیں۔ عنقریب اس پر عمل آوری ہوگی۔ قبل ازیں رکن اسمبلی گنگولا کملاکر نے کہا کہ کریم نگر ضلع کے عوام نظام دور حکومت سے یہاں ذات پات، قوم مذہب، ہندو مسلم کی وابستگی کے بغیر انتہائی محبت اور خلوص کے ساتھ مل جل کر رہتے آرہے ہیں اور آئندہ بھی اسی طرح مل جل کر رہیں گے۔سبھی مذاہب کے عید و تہواروں پر کریم نگر کو سجایا اور سنوارا روشنیوں سے جگمگاتے ہوئے انتہائی جوش و خروش سے منانے کیلئے تلنگانہ ریاست کے قیام کے ساتھ ہی پہلا تہوار رمضان آیا، ہم نے اس کا انتہائی جوش و خروش کے ساتھ استقبال کیا۔ بعد ازاں کرسچنوں کے تہوار یسوع مسیح کی پیدائش، گنیش تہوار بھی پرسکون اور پرامن طریقہ پر منائے گئے اور رمضان میں حلیم اور شیر خرمہ کے مزے لئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ٹی آر ایس حکومت مسلمانوں کی ہر طرح سے حفاظت کا ذمہ لیتی ہے اور ان کی ترقی کا عہد کرتی ہے۔ زیڈ پی کوآپشن رکن کنوینر محمد جمیل الدین نے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کوآپشن ممبر صرف نمائشی اور تعداد میں اضافہ ہے اختیارات کچھ نہیں دیئے گئے ہیں اور نہ ان کا کوئی پروٹوکال میں حصہ ہے، نہ ووٹ دینے کا اور نہ ہی ترقیاتی کاموں کا انہیں کچھ فنڈ مختص کیا جاتا ہے، انہوں نے مطالبہ کیا کہ ہمیں قانونی حیثیت دی جائے۔ اس موقع پر یونانی ڈاکٹرس اسوسی ایشن کی جانب سے ڈاکٹر فہیم الدین انصاری، فصیح الدین نواب پرنسپال اسٹیٹ اردو ٹیچرس اسوسی ایشن سوٹا کی جانب سے افضل بیابانی، اوقاف بورڈ کمیٹی صدر ایس اے محسن، مسلم سینئر سٹیزن کی جانب سے انصاری اور اقلیتی ملازمین اسوسی ایشن کی جانب سے حفیظ صدیقی اور دیگر افراد نے مسلمانوں کو درپیش مسائل پر مبنی تحریری یادداشت وزیر موصوف کے حوالے کی جس میں چار فیصد مسلم ریزرویشن، پاسپورٹ دفتر، سرکاری ملازمت میں مسلمانوں کے تقررات کا مطالبہ کیا گیا۔ اس وفد میں میوا کے ذمہ داران محمد تفضل حسین، نعیم الدین احمد، محمد اقبال علی، علاء الدین، محمد عمر علی، محمد مسعود علی، اسمعیل خان، سید سرور شاہ بیابانی، میر آصف علی و دیگر شامل تھے۔