ٹیگور کی خود نوشت سوانح ’’میری یادیں‘‘ پر ایک نظر

پروفیسر مجید بیدار
سرزمین ہندوستان کے نابغہ روزگار ادیب و شاعر کی حیثیت سے رابندر ناتھ ٹیگور کی خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔ انہوںنے بنگلہ زبان ہی نہیں بلکہ انگریزی زبان میں بھی اپنی تخلیقی کاوشوں کو پیش کرکے عالمی سطح پر شہرت حاصل کی ۔ رابندر ناتھ ٹیگور نے اپنی خود نوشت سوانح عمری ، بنگلہ زبان میں پیش کی تھی ۔ ان کی دیگر کتابوں کے انگریزی تراجم بھی منظر عام پر آچکے ہیں ۔ لیکن خوش آئند بات یہ ہے کہ رابندر ناتھ ٹیگور کی بنگلہ میں لکھی ہوئی خود نوشت سوانح کو مشہور مترجم فہیم انور نے بنگالی زبان سے ترجمہ کرکے اردو میں پیش کیا ۔ اس شہرہ آفاق کتاب کو ٹیگور ریسرچ اینڈ ٹرانسلیشن اسکیم کے ذریعہ شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی نے شائع کیا ۔ اس طرح عالمی سطح پر مشہور بنگالی شاعر ، ادیب ،  ڈرامہ نگار ، ناول نویس ، کہانی کار ، اداکار ، موسیقار اور ماہر تعلیم ہی نہیں بلکہ ایک اہم خود نوشت سوانح نگار یعنی ٹیگور کے مشرقی انسان دوست افکار کو ذی علم طبقہ کے روبرو پیش کیا ہے ۔ اس آپ بیتی میں ٹیگور کی زندگی کے جن موضوعات کا احاطہ موجود ہے ان میں خاندانی پس منظر ، جگ بیتی ، تعلیم و تعلم ، سوانح ، نثر ، مقالات ، تنقید ، مذہبی فلسفہ ، نظریۂ تہذیب ، تمدن و ثقافت ، ادب ، ترجمہ ، نظریہ تعلیم ، قوم ، حب الوطنی  سیاست ، تربیت ، شخصیات ، لسانیات کے علاوہ اپنی زندگی کے مختلف ادوار جیسے بچپن و جوانی ہی نہیں بلکہ کھیل کود ، شرارتیں اور رومانیت پسندی کے علاوہ پیرانہ سالی اور تجربہ کاری کے مناظر کو اس طرح پیش کیا گیا ہے کہ مصور حیات کی تمام تر تصویر میں شعبہ حیات کی جھلکیاں جلوہ گر ہوجاتی ہیں ۔
’’میری یادیں‘‘ ٹیگور کی بنگالی خود نوشت کا اردو ترجمہ ہے  ۔ بنگالی سے اردو میں منتقل کرنے کے فرائض فہیم انور نے انجام دئے ہیں ۔ ترجمے کے دوران فہیم انور کی زبان کی سلاست اور روانی اپنی جگہ مسلمہ ہے وہ پوری چابکدستی کے ساتھ ایک زبان کے مفہوم کو دوسری زبان میں منتقل کرنے کے ہنر سے واقف ہیں ۔ ترجمے میں اس رویے کی خصوصیت اسی وقت نمایاں ہوتی ہے جبکہ مترجم دونوں زبانوں یعنی Source language اور Target language پر پوری طرح عبور رکھتا ہو ۔ زبان کی بے ساختگی ، الفاظ کی ندرت اور اظہار کی بوقلمونی فہیم کے ترجمے کے دوران حد درجہ نمایاں ہے کہ کسی مرحلہ میں ترجمے کا گمان نہیں ہوتا بلکہ اصلی لطافت ،جلوہ گر ہوتی ہے ۔
غرض فہیم انور کا ترجمہ حد درجہ منفرد اور زبان کے آہنگ اور خصوصیات کی تکمیل کی وجہ سے حد درجہ سلیس اور رواں ہی نہیں انتہائی برجستہ قرار پاتا ہے ۔ ’’ٹیگور ریسرچ اینڈ ٹرانسلیشن اسکیم‘‘ نے اس کتاب کا انتساب خود ٹیگور کے نام کیا ہے ۔ جس کے بعد فہیم انور کے عرض مترجم کی تحریر تمام خصوصیات کی نمائندگی کرتی ہے جبکہ کوثر مظہری نے ’’دو باتیں‘‘ کے زیر عنوان ٹیگور کی خود نوشت سوانح ’’میری یادیں‘‘ میں موجود متن کی ’’تشریح اور توضیح میں مترجم کی صلاحیت کا اعتراف کیا ہے ۔ جس کے بعد تمہید کا فریضہ انجام دینے کے بعد ٹیگور کی خود نوشت کا آغاز ہوتا ہے جو 45 عنوانات پر مشتمل ایک ایسا کارنامہ ہے جس میں ٹیگور نے اپنے ماحول اور ادبی دوستوں کے علاوہ تخلیقات کی اشاعت کے علاوہ ولایتی سنگیت سے دلچسپی اور اپنی نظموں اور گیتوں کے جائزے کے ساتھ ساتھ مختلف اہم شخصیتوں سے وابستگی کا ذکر کیا ہے ۔ آخر میں ٹیگور خاندان کے شجرہ کو بھی شامل کیا گیا ہے ۔ اپنی نظموں ، گیتوں اور نثر نگاری کے علاوہ انسانیت دوستی ، ہمدردی اور صلح کل کے ساتھ ساتھ حب الوطنی اور ملک کے موسموں سے محبت کے ساتھ اپنے عہد کی تمام شخصیتوں کا اعتراف کرتے ہوئے رابندر ناتھ ٹیگور نے خود نوشت کو جذبات احساسات و تجربات کا مرقع بنادیاہے ۔ اس کتاب کے ذریعے علمی و ادبی کارناموں کا بیش بہا ذخیرہ لوگوں کے سامنے پیش کیا ہے چنانچہ ایسی نادر و نایاب کتاب کا اردو میں ترجمہ نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں ۔ بنگالی زبان سے اردو میں ترجمہ کرنے پر فہیم انور کا شکریہ ادا کیا جانا چاہئے ۔ ترجمہ شدہ مسودہ کو اشاعت کے مرحلے سے گزار کر خوبصورت تدوین کے وسیلے سے منظر عام پر لانے کا کارنامہ چونکہ جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی کے شعبہ اردو نے انجام دیا ہے ،جس کے لئے شعبہ اردو سے وابستہ اساتذہ کی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے ۔ ٹیگور ریسرچ اینڈ ٹرانسلیشن اسکیم کے تحت اس کتاب کی اشاعت عمل میں لائی گئی ہے اس لئے انہیں بھی مبارکباد پیش کی جاتی ہے ۔ توقع کی جاتی ہے کہ اردوداں طبقہ کی جانب سے اس کتاب پر تحقیقی و تنقیدی جائزے پیش کئے جائیں گے ۔ یہ کتاب شعبہ اردو جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی اور مکتبہ جامعہ لمیٹڈ جامعہ نگر نئی دہلی سے بلامعاوضہ طلب کی جاسکتی ہے ۔