ٹیپوسلطان کو ہر محاذ پر کامیاب بنانے میں میسوری راکٹوں نے کس طرح مدد کی۔

حالیہ عرصہ میں کرناٹک کے ضلع شیوا موگ میں کھدوائی کے دوران سوکھی باؤلی کے ایک کونے سے ہزار سے زائد میسوری راکٹ برآمد ہوئے تھے۔
کرناٹک۔انیس ویں صدی کی ابتداء میں جب برطانونیہ اور فرانس کے درمیان میں نیپولینک جنگ چل رہی تھی‘ اس وقت انھوں نے ایک فوجی ہتھیار متعارف کروایا جس کا اس وقت تک کسی بھی جنگ میں استعمال نہیں کیاگیاتھا۔

مذکورہ کانگروی راکٹ جس کے متعلق کہاجاتاتھا کہ اس کی ایجاد انگریز آرمی جوانوں نے کی تھی جس کا نام سر ولیم کانگروی رکھا گیاتھا۔کانگروی نے اس پر اٹھارویں صدی کی ابتداء میں بہت سارے تجربات کئے تھے تاکہ فرانس کی فوج کے خلاف اس کا استعمال کیاجاسکے۔

راکٹس کی طاقت اور اثر ایسا تھا کہ انہوں نے فوری طور پر برطانیہ کی توجہہ مانگی اوراسی کے ساتھ ساتھ ڈنمارک‘ مصر‘ فرانس ‘ روس اور دیگر تمام ممالک کے انجینئرس نے کو فالو کیا۔ تاہم انیس ویں صدی کے وسط میں مورخین کو برطانوی کی فوج کی تاریخ کی تلاش کے دوران کانگروی راکٹ کی تفصیلات کا انکشاف ہوا ‘ حقیقت میں اس کے تار برصغیر ہند میں ٹیپوسلطان کی مملکت تک جڑے ہوئے پائے گئے۔یوروپ میں راکٹس یا جلتی ہوئے تیر پندورویں صدی کے دوران کبھی استعما ل نہیں کئے گئے تھے۔

تاہم راکٹس کی تیاری ٹیپو سلطان کے دور میں شروع ہوئی تھی‘ اور یہ میسوری راکٹس کے نام سے مشہور تھے جو نہایت عصری بھی تھے۔اپنی مضمون ’راکٹس ان میسور اینڈبرطانیہ ‘ میں سائنس داں آر نرسمہا نے لکھا ہے کہ ’’ بنیاد طور پر لوہے کے پائپ اور ڈبوں کے استعمال کی وجہہ سے اس دور یں میسور کی راکٹس اس سے زیادہ عصری تھیں جو برطانوں نے دیکھا او رجانا تھا‘‘۔

ہندوستان کی ملٹری تاریخ میں میسوری راکٹس کی اہمیت اس لئے بھی ہے کیونکہ اس کی ایجاد کا اثر دنیا کے مختلف ممالک پر بھی اس وقت پڑا جب عالمی جنگ شروع ہوئی تھی۔حالیہ عرصہ میں کرناٹک کے ضلع شیوا موگ میں کھدوائی کے دوران سوکھی باؤلی کے ایک کونے سے ہزار سے زائد میسوری راکٹ برآمد ہوئے تھے۔

سابق میں بھی ٹیپوسلطان کے دور میں بنائی گئی اس طرح کی راکٹس برآمد ہوئے تھیں جن میں کچھ لندن کے میوزیم میں رکھی ہوئی ہیں۔مذکورہ راکٹس کی دستیابی سے پھر ایک مرتبہ ٹیپوسلطان کی فوجی حکمت عملی کی طرف ہماری توجہہ مبذول کرتی ہے‘جس کی وجہہ سے انگریز ایک طویل مدت تک مملکت میسور پر قبضہ کرنے سے قاصر رہے تھے۔

چوتھی انگلومیسور جنگ کا حصہ رہے کرنل رچارڈ بیلی نے اپنی ڈائیری میں میسور راکٹس کی اہمیت او راثر کے متعلق خلاصہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ’’
انہوں نے کئی راکٹس تیار کئے اور اس کے ذریعہ ہم پر حملہ کیا جس کی وجہہ سے نعشوں کے ڈھیر لگ گئے تھے۔

دیکھنے وہ راکٹس اچھے مگر بہتر خطرناک بھی تھے‘‘۔اٹھارویں صدی میں انگلو میسور وارڈس میں ہندوستان کی جنگی راکٹس کا خطرناک اثر‘‘ کے عنوان پر لکھے اپنے مضمون میں ایم افتخار جام اور جسمین جام نے کہا ہے کہ ’’ لوہا‘ اسٹیل اور گن پاؤڈرکی بہتر اقسام میں ڈھال کا ہندوستانی راکٹ کی تیاری کی گئی تھی اور ساتھ میں مایہ ناز میکانکل کام بھی کیاگیاتھا‘‘۔

مذکورہ راکٹس میں خاص قسم کا گن پاؤڈر استعمال کیاجاتاتھا جس کی وجہہ سے گند کے ساتھ چاروں طرف دھواں او ردل دہلادینے والے آواز پیدا ہوتی تھی۔ لوہے کے پائپ پر مشتمل یہ راکٹس ایک اندازے کے 8سینی میٹر لمبی ہوتی جس کا دوسرا حصہ بند رہتا۔ لوہے کاٹیوب ایک لکڑی سے باندھ دیاجاتاتھااور دوسرا حصہ چیمبر کے طور پر کا م کرتاتھا۔

اس میں حرکت پیدا کرنے کے لئے پانچ سو گرام پاؤڈر کا استعمال کیاجاتاتھا جس کی وجہہ سے مذکورہ راکٹس 900میٹر کی دوری تک اس کا اثر مرتب ہوتاتھا۔ چین یوروپ او رانڈیا میں بھی اس قسم کے راکٹ پائے جاتے تھے مگر وہ اس قدر اثر انداز ہونے والے اور اتنے دوری تک وار کرنے والے نہیں تھے۔

اپنی کتاب ’ٹائیگر آف میسور‘ دی لائف اینڈ ڈیتھ آف ٹیپوسلطان‘ میں مورخ ڈی ایم فارسٹ نے لکھا ہے کہ’’ عینی شاہدین اس کے اثرات کے متعلق مختلف رائے رکھتے ہیں ‘مگر ان کا نقطہ نظر یہی ہے کہ کسی انفرادی راکٹ کو آپ دیکھتے ہیں تو اس سے بچنے کا راستہ نکال سکتے ہیں مگر اس سے نکلنے والے مادہ بڑے پیمانے پر نقصان کا سبب بن سکتا ہے‘‘۔

ملٹری مہم میں راکٹس کے استعمال کی ضرورت کے متعلق تفصیلات حاصل کرنے کے لئے ٹیپوسلطان کی زیرقیادت فتح الملک نے ایک ملٹری کارڈ تحریری کیاتھا۔ اس کارڈ کے مطابق راکٹ چلانے والوں کی ایک کمپنی’جووک‘ ہر دستے کے ساتھ منسلک کردی جائے گی۔

تاریخ بتاتی ہے کہ حیدرعلی کے دور سے ہی میسور فوج میں راکٹس کا چلن عام تھا۔شروعات میں حیدرعلی کے دوران میں جہاں1200لوگ تھے وہیں ٹیپو سلطان کی فوج میں پانچ ہزار لوگوں کا تقرر عمل میں لایاگیاتھا۔ مورخین کا کہنا ہے کہ سلطنت میسور کی درالحکومت سری رنگا پٹنم کا راکٹس کی جنگ میں اہم رول رہا ہے۔