ٹھیس

ڈاکٹر مجید خان

روزمرہ کے زندگی کے واقعات آپ کی غور وفکر پر کتنا اثر کرتے ہیں ، اس کا عام لوگ اندازہ نہیں کرسکتے ۔ ان تاثرات کے شخصیت پر کتنے منفی اثرات ہوتے ہیں ، اس کا میں قائل ہوگیا ہوں ۔ بچپن کے صدمات اور جوانی کی نفسیاتی مشکلات کا جو رشتہ ہے اس کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔لڑکپن اور جوانی کے انجانے صدمات کو تو سب سمجھ سکتے ہیں ۔ جہاں پر ایک خاموش ،کمزور اور بے بس و مجبور لڑکا یا لڑکی صدمے کا شکار ہوتے ہیں مگر میں نے ایک ایسا کیس دیکھا ہے جہاں پر 60 سال سے متجاوز عمر کا شخص پریشان ہوجاتا ہے مگر موجودہ ذہنی پستی کو اس واقعے سے جوڑتا نہیں ہے ۔

یہ مریض تقریباً 65 سال کے ہوں گے ۔ سنٹرل گورنمنٹ کے اعلی عہدے سے مستعفی ہوئے ہیں ۔ اکیلے آئے ۔ اکیلے آنے والے مریضوں کی داستان الگ ہی ہوتی ہے ۔ یہ لوگ نہیں چاہتے کہ کوئی اور ان کی تکلیف سے واقف ہو ۔ دوسری بات یہ کہ یہ لوگ کافی غور وخوض کے بعد ماہر نفسیات سے ملنے کا قدم اٹھاتے ہیں ۔ ان کی مدد کرنا ان لوگوں سے جو اپنی بیماری کو بیماری نہیں سمجھتے نسبتاً آسان ہے ۔ اکثر عہدے دار جو مستعفی ہوچکے ہیں اپنا ملازمت کا ملاقاتی کارڈ بھیجتے ہیں ۔ یہ ایک قسم کے رعب کا استعمال ہے ۔ یہ شخص عام مریضوں کی طرح اپنی باری آنے پر ہی آتا ہے ۔ بظاہر جسمانی طور پر صحتمند ، نہ بلڈ پریشر کی شکایت نہ شکر کا عارضہ ، صرف اتنا کہتا ہیکہ وہ منفی خیالات کی وجہ سے پریشان ہورہا ہے ۔ بے خوابی کی کوئی شکایت نہیں ۔ ازدواجی تعلقات خوشگوار ۔ ایک لڑکا فرانس میں پڑھ رہا ہے تو دوسرا امریکہ میں بہتر ملازمت میں ہے ۔ حالات زندگی میں کوئی وجہ ان کے منفی خیالات کی سمجھ میں نہیں آرہی تھی ۔ آخر یہ شخص کیا چاہ رہا تھا ، میں سمجھ نہ سکا ۔ ایک نسخہ لیکر بھاگنے والوں کی طرح نظر نہیں آرہا تھا ۔ نفسیاتی معلومات کا فقدان علانیہ نظر آرہا تھا ۔ ایک صورت یہ تھی کہ معلوماتی کتابچے حوالے کریں اور دوسرے دن آنے کے لئے کہیں ۔ مگر یہ موزوں حل نہیں نظر آرہا تھا ۔ پھر جب میں نے پوچھا کہ منفی خیالات آپ پیش کئے جارہے ہیں آخر کس قسم کے منفی خیالات آپ کو تنگ کرتے ہیں ۔ تو بیچارہ سوچ میں پڑگیا ۔ یہاں مجھے احساس ہوا کہ نفسیاتی کیفیات کا بیان کرنا اتنا آسان نہیں ہے ۔ کیا آپ کو ہیبت ہے ، بے چینی ، ڈر اور خوف ہوا کرتا ہے ۔ تو کہنے لگا کہ کوئی خاص نہیں ۔ بہرحال یہ پتہ چلا کہ پہلے کی طرح طبیعت میں بحالی اور جولانی کی کمی ہے ۔ مایوسی کا مریض نظر آرہا تھا ۔ اس کی وجہ سے وہ واقف نہیں تھا ۔ خاندان میں اس قسم کے مرض کی کوئی تفصیلات نہیں تھیں۔ لہذا مایوسی کیلئے دوا لکھنے کے سوا اور کوئی چارہ نظر نہیں آرہا تھا ۔ اس کے لئے وہ بھی راضی ہی نظر آرہا تھا اور غالباً اسی کے نسخے کے لئے آیا تھا ۔ پریشان حال ضرور نظر آرہا تھا ۔

بہرحال میری نفسیاتی تشنگی باقی تھی مگر مریض اور میں ایک صفحے پر نہیں تھے ۔ میری جستجو کی اہمیت کو وہ سمجھ نہیں پارہا تھا اور میں بحالت مجبوری نسخہ دے ہی دیا ۔ وہ اٹھ کر جانے لگا جب وہ چلنے لگا تو میں نے یہ دیکھا کہ اس کے پیر میں لنگ ہے ۔ میں نے روک کر اس کی وجہ پوچھی تو وہ ایک لمبی سانس لے کر پھر بیٹھ گیا ۔ ایسا معلوم ہورہا تھا کہ چور پکڑا گیا ۔ کہنے لگا کہ ڈاکٹر صاحب یہ میری زندگی کا وہ پہلو ہے جس کے تعلق سے میں بات نہیں کرنا چاہتا ہوں ۔ مجال کہ کوئی میرے اس عیب کی طرف اشارہ کردے ۔ خاندان والے بھی اس موضوع کی حساسیت سے بخوبی واقف ہیں ۔ چونکہ آپ نے راست مجھ سے اس کے تعلق سے سوال کیا ہے اور جس طرح سے آپ میری زندگی کے نشیب و فراز کے تعلق سے تفصیلات پوچھ رہے ہیں یہ میرا فرض ہوجاتا ہیکہ میں آپ سے کوئی چیز پوشیدہ نہ رکھوں ۔

ڈاکٹر صاحب ! بچپن میں مجھے پولیو ہوگیا تھا ۔ اسکول کے ساتھی مجھے ہر برے نام سے پکارا کرتے تھے ۔ کوئی لنگڑا پکارتا تھا تو کوئی لولا ۔ بہرحال میں تنگ آگیا تھا مگر مجبور تھا ۔ میرے اندر جذبہ انتقام بڑھتا گیا ۔ میں تحت الشعور میں ہر اس شخص سے بدلہ لینا چاہ رہا تھا جس میں کوئی عیب نہ ہو ۔ یہ جذبہ تعلیمی محنت میں کام آیا ۔ اور میں ہر امتحان میں درجہ اول میں کامیاب ہوا اور بہترین منہ مانگی ملازمت اختیار کی ۔ میں جب مڑ کر دیکھتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہیکہ میں نے اپنی ملازمت کے دوران بڑا جارحانہ رویہ ماتحتین کے ساتھ اختیار کیا تھا جو اب مجھے غیر واجبی نظر آرہا ہے ۔ کیا اب میرا ضمیر روشن ہورہا ہے ۔ ممکن ہے منفی خیالات کا سلسلہ یہیں سے شروع ہوا ہو ۔ اپنی اولاد سے بھی غالباً مجھ کو عناد رہا ہے ، جس کی وجہ سے وہ لوگ مجھ سے قریب نہیں ہیں ۔ یعنی ہم لوگوں میں کسی قسم کی کشیدگی تو نہیں ہے مگر قدرتی محبت جو پیدا ہونی تھی وہ نہیں ہے ۔ وہ لوگ مجھے اپنے ملک آنے کی دعوت دیتے ہیں اور میں ٹال مٹول کرتا رہتا ہوں ۔ اس کی ایک اور وجہ بھی ہوسکتی ہے ۔ غالباً میری بیوی کو اس شادی کے لئے مجبور کیا گیا تھا ۔ وہ ایک معذور سے شادی کرنے کے لئے اس لئے راضی ہوئی کہ میں ایک اعلی عہدیدار تھا ۔ مجھے ایسا محسوس ہوتا ہیکہ وہ مجھے حقارت کی نظر سے دیکھتی ہے ۔ یہ میرا شک ہے ۔ ویسے تو ہم خوش ہیں مگر یہ شک میرے ذہن میں دبا ہوا ہے ۔ عزت نفس کو بچاتے ہوئے میں زندگی گذار رہا ہوں ۔ الگ تھلگ ہوگیا ہوں ۔ وہ بھی اس ڈر سے کہ کہیں کوئی میرا مذاق نہ اڑادے ۔ یہی میرے منفی خیالات ہیں ۔

اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ عمر بھر یہ حالات بدلے نہیں اور اب کیوں آپ منفی خیالات سے پریشان ہورہے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب !حال ہی میں ایک واقعہ ہوا جس نے میرے پرانے زخموں کو ایک بار پھر تازہ کردیا ۔ بیوی نے اپنے بچوں سے یہ شکایت کی کہ ہماری سوشیل زندگی نہ ہونے کے برابر ہے ۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہیکہ میرے پاس ڈرائیونگ لائسنس نہیں ہے ۔ دوران ملازمت چاہتا تو گھر بیٹھے لائسنس آجاتا ۔ اب بھی چاہوں تو کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔ میری بیوی نے مجھ کو راضی کرلیا کہ میں ڈرائیونگ کرنا سیکھ لوں ۔ وہ بھی سیکھ سکتی تھی مگر غالباً میری صحبت میں وہ ڈرپوک ہوگئی تھی اور چاہ رہی تھی کہ میں ہی سیکھوں ۔ خیر میں بمشکل راضی ہوگیا ۔ یہ طے پایا کہ میں ڈرائیونگ سیکھوں اور پھر ٹسٹ دوں اور لائسنس اپنے بل بوتے پر حاصل کروں ۔ اشتہارات دیکھ کر میں نے ڈرائیونگ اسکول سے رابطہ قائم کیا اور دوسرے دن علی الصبح گاڑی کے ساتھ ایک ادھیڑ عمر شخص سکھانے کیلئے آگیا ۔ جب اس نے مجھے لنگڑاتے ہوئے دیکھا تو پوچھا کہ سیکھنے والا کہاں ہے ۔ جب میں نے کہا کہ میں ہوں توکہا کہ معذوروں کو لائسنس نہیں ملتا اور بغیر مروت کے چلا گیا ۔ میری بیوی یہ سب دیکھ رہی تھی اور بلبلا کر رونے لگی ۔ میں نے کہا کہ وہ ٹھیک کہہ رہاہے ۔
یہ واقعہ بھی آیا گیا ہوگیا ۔ میں اس کو یاد بھی رکھنا نہیں چاہتا ہوں مگر چونکہ آپ اصرار کررہے ہیں اس لئے میں نے اس کا ذکر کیا ۔ گو کہ اس کا میرے ذہن پر گہرا اثر ہوا مگر اس کو میں بھولنے کی کوشش کررہا ہوں ۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ میرے نئے منفی خیالات کا سلسلہ اس واقعہ کے بعد ہی سے شروع ہوا ہے اور اب یہ سلسلہ میری اپنی کوششوں سے تھمتا نظر نہیں آتا ۔ اس لئے آپ کی مدد چاہتا ہوں ۔
میں نے کہا کہ آپ ڈرائیونگ لائسنس حاصل کرسکتے ہیں ۔ اگر آپ چاہیں تو ، میں اپنی جان پہچان والا ڈرائیونگ استاد آپ کے پاس بھجواسکتا ہوں ۔ اس تجویز پر غور کرنے کا وعدہ کیا اور علاج کے علاوہ غیرمعمولی دلچسپی اور ہمدردی کرنے کا شکریہ ادا کیا اور چلا گیا ۔