ٹرمپ ۔ عباس ملاقات سے فلسطین ۔ اسرائیل امن بات چیت کے احیاء کا امکان

واشنگٹن میں 3 مئی کو ملاقات ، ٹرمپ کا لاابالی مزاج تشویش کا باعث
راملہ ۔ یکم ۔ مئی : ( سیاست ڈاٹ کام ) : امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ بالاخر چہارشنبہ کے روز صدر فلسطین محمود عباس سے ملاقات کریں گے جو یقینا ایک تاریخی نوعیت کی دو بدو ملاقات ہوگی ۔ جس کے بعد یہ امیدیں جاگ اٹھی ہیں کہ صدر امریکہ کی غیر یقینی سرگرمیاں کم سے کم اسرائیل اور فلسطین کے درمیان عرصہ دراز سے لیت و لعل میں پڑی امن بات چیت کا احیاء کرسکے گی ۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہے کہ محمود عباس فلسطین میں کوئی خاص مقبول لیڈر تصور نہیں کیے جاتے تاہم اپنے دورہ امریکہ کے دوران عباس ٹرمپ کو کم سے کم اس بات کے لیے راضی کرسکتے ہیں کہ وہ اسرائیل پر امن بات چیت کے احیاء کے لیے دباؤ ڈالے اور ساتھ ہی ساتھ ان مراعات کے ساتھ جن کی محمود عباس کو امریکہ سے توقع ہے ۔ اس وقت اسرائیل و فلسطین مسئلہ دنیا کا قدیم ترین مسئلہ بن گیا ہے ۔ دوسری طرف فلسطینی عہدیداروں کو اسرائیل ۔ فلسطین بات چیت کے سرد خانے میں چلے جانے کی بڑی فکر لاحق ہوگئی ہے کیونکہ شام کی خانہ جنگی اور دولت اسلامیہ کی سرگرمیوں نے اسرائیل ۔ فلسطین مسئلہ کو دھندلا کردیا ہے ۔ اس وقت عالمی سطح پر شام اور دولت اسلامیہ پر سب کی نظریں لگی ہوئی ہیں ۔ محمود عباس اور ٹرمپ کی ملاقات کے دوران یہ توقع ہے کہ اسرائیل ۔ فلسطین بات چیت ایکبار پھر شروع ہوجائے اور دونوں ممالک کے قائدین بات چیت کی میز پر آئیں ۔ اس دوران یروشلم میں سکونت پذیر ایک یوروپی عہدیدار نے اپنی شناخت مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ فلسطینیوں کو اس بات کی پوری توقع ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ اپنے لاابالی مزاج کی وجہ سے شاید فلسطینیوں کے حق میں کوئی فیصلہ کرسکیں ۔ بہر حال فیصلہ اگر ان کے ( فلسطینیوں ) حق میں نہیں ہوا تو انہیں سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ اس کی کئی مثالیں موجود ہیں ۔ سب سے پہلی مثال جو ذہن میں آتی ہے ۔ وہ ہے ٹرمپ کی اسرائیلی وزیراعظم بنجامن نتن یاہو سے ملاقات ۔ فروری میں جب دونوں قائدین کی ملاقات ہوئی تھی تو انہوں نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دو ممالک کی تھیوری کو یکسر مسترد کردیا تھا اور یہ تک کہا تھا کہ صرف ایک ہی ملک کے قیام کی تائید کریں گے بشرطیکہ ملک کے قیام کے ساتھ مستقل قیام امن بھی ہو ۔ اس بیان کے بعد اسرائیل میں خوشی کی لہر دوڑ گئی تھی اور ٹرمپ کے بیان سے انہوں نے جو ’ حوصلہ افزائی ‘ حاصل کی ،اس نے انہیں مغربی کنارہ کے کئی مقامات پر قبضہ کرلینے پر بھی اکسادیا ۔ دوسری مثال یہ ہے کہ ٹرمپ نے امریکی سفارت خانہ کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کیا تھا جس نے فلسطینیوں کو تشویش میں مبتلا کردیا تھا ۔ بہر حال ٹرمپ نے اب اس معاملہ پر کوئی پیشرفت نہیں کی ہے اور فی الحال یہ معاملہ التواء میں پڑا ہوا ہے ۔ تیسری مثال یہ ہے کہ مغربی کنارہ میں موجودہ عمارتوں پر اسرائیل کو اپنا قبضہ برقرار رکھنے کی بات بھی ٹرمپ نے کہی تھی ۔ ٹرمپ کے ایک مشیر جیسن گرین بلاٹ نے اس سلسلہ میں اسرائیلی اور فلسطینی عہدیداروں سے ملاقات بھی کی تھی ۔ محمود عباس اور ٹرمپ کی 11 مارچ کو فون پر بات چیت ہوئی تھی ۔ محمود عباس کو ٹرمپ کے لاابالی مزاج سے زیادہ تشویش خود اپنی قیادت کی ہے کیوں کہ فلسطینی شہریوں کی اکثریت 82 سالہ قائد کو الوداع کہنا چاہتی ہے ۔ 2009 ء میں ہی ان کی میعاد مکمل ہوگئی تھی لیکن اس کے بعد انتخابات منعقد نہیں کروائے گئے اور محمود عباس بھی اپنے عہدہ پر برقرار رہے ۔ دوسری طرف حالیہ دنوں میں عباس کی فتح پارٹی جس کا تعلق مغربی کنارہ سے ہے اور حماس کے درمیان ہوئی علحدگی نے بھی حالات کا رخ بدل دیا ہے ۔ غزہ پٹی پر حماس کا قبضہ ہے لیکن اسرائیلی عہدیداروں کی یہ شکایت ہے کہ عباس کی فتح پارٹی نے اسرائیل کے ذریعہ غزہ پٹی کو سربراہ کی جانے والی برقی کے بل ادا کرنے سے انکار کردیا ہے ۔