سید علی حیدر رضوی
شاید امریکہ کی انتخابی تاریخ میں پہلی بار یہ دیکھنے کو مل رہا ہے کہ کوئی اُمیدوار جو امریکی صدارت کا دعویدار تھا۔ صدر بننے سے قبل ہی اپنی انتخابی مہیم کے دوران تنازعات میں گھر گیا اور رائے دہندوں کی نفرت ، مخالفت اور مذاحمت کے باوجود مدِ مخالف امیدوارہ ہنری کلنٹن سے کم عوامی ووٹ لاکر بھی محض الکٹورل کالج کی حمایت و تائید کے بل بوتے پرجیت گیا۔ یہ ایسی جیت ہے جو امریکی جمہوریت پر سوالیہ نشان لگاتی ہے اور اسمیں پائے جانے والے جھول کو اُجاگر کرتی ہے۔ حالانکہ ہلاری کلنٹن اپنی انتخابی مہیم کے دوران عوامی تائید اور مباحث میں ہمیشہ ٹرمپ سے برتر‘ بہتر اور معقول ثابت ہوتی رہی ہیں۔ ایک اور بات جو اُنکے حق میں جاتی ہے وہ یہ کہ وہ کامیاب امریکی سابقہ صدر کی اہلیہ ہیں اور فرسٹ لیڈی بن کر وائیٹ ہاؤز میں دن گزار چکی ہیں اور سیاسی سوجھ اور انتظامیہ کا تجربہ بھی رکھتی ہیں۔ اوباما دور میں وزیر خارجہ رہ چکی ہیں۔ اور کئی امریکی اسٹیٹس میں ٹرمپ کو مباحث میں مات دے چکی تھیں ۔ ٹرمپ کی مہیم متنازعہ رہی۔ امریکی اشراف اور نامی گرامی شخصیات جن میں بشمول سیاست داں ، تاجر اور ہالی وڈ فلم اسٹار شامل ہیں ان کی مخالفت کررہے تھے۔ خاص کر خواتین ان کی سخت مخالف تھیں۔ کئی مہینوں کی طولانی انتخابی مہیم کے دوران ایسا لگ رہا تھا کہ ہنری کلنٹن بھاری اکثریت سے جیت جائنگی اور امریکہ کی پہلی خاتون صدر بن کر نئی امریکی تاریخ رقم کرجائیں گی اور ٹرمپ کو منہ کی کھانی پڑے گی۔ لیکن جب نتیجہ سامنے آیا اور ٹرمپ کی جیت کا اعلان ہوا تو امریکی عوام ہی نہیں بلکہ ساری دنیا کے عوام بھی مستعجب ہوگئے۔ حیرت میں ڈوب گئے۔ انھیں یقین ہی نہیں ہورہا تھا۔ وہ باربار تصدیق چاہ رہے تھے۔ ٹرمپ کو صرف 36 فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔ کیا یہ عوامی ردِ عمل امریکی جمہوریت کے اعتبار کو متزلزل نہیں کرتا۔ جبکہ امریکہ جمہوریت ‘ آزادی ‘ مساوات اور انسانی حقوق کی پاسداری کا سب سے بڑا مدعی اور نقیب ہے۔ٹرمپ کی جیت نے نہ صرف امریکی رائے دہندوں کو بلکہ دنیا کے تمام لوگوں کو جو امریکی صدارتی انتخاب پر نظریں گاڑھے ہوئے تھے اُنھیں متعجب کیا ہے وہ اب اس فکر میں ہیں کہ آئندہ کیا ہوگا۔ ٹرمپ کی جیت نے امریکی سیاست کے تمام دعوؤں کی پول کھول دی ۔ اس کے دوہرے معیارات کی مُلَمَّع کاری کھل گئی ۔ دنیا کو معلوم ہوگیا کہ امریکی جمہوریت میں بھی جھول ہیں۔الکٹورل کالج کے ووٹوں کی قدر کو عوامی ووٹوں پر ترجیح جمہوریت نہیں ہے یہ تو اشراف کی حکومت یا Aristocracy ہے۔ ویسے بھی یہ بات مسلمہ ہے کہ مغربی ممالک کی تہذیب نمائیشی ہے۔ اور تضادات و منافقت اور دوہرے معیارات سے پر ہے جس کی جھلکیاں ہمیں ان کی سماجی، سیاسی اور معاشی زندگی میں صاف نظر آتی ہیں۔ یہاں تک کہ جو قوانین مغربی ممالک نے وضع کر رکھے ہیں وہ بھی اُن کے سیاسی افکار کی نفی کرتے ہیں جو ان کے دوہرے معیارات کا مظہر ہیں۔ ماضی قریب میں خاص کر گذشتہ صدی کے واقعات کا عمیق جائزہ لیں تو اُنکے تمام اُصول و تضادات ناقابل تردید شواہد کے ساتھ یہ تصدیق کرتے ہیں سارے مغربی قوانین کھوکھلے اور سب ہی دعوے فریبی اور تمام عہد و پیماں جھوٹے رہے ہیں کیونکہ مغرب نے ہر معاملہ میں خلاف عہد و اُصول کام کیا ہے۔ جو بھی عہد کئے اُنھیں پورا نہ کیا اور جو بھی قوانین وضع کئے ان کی خلاف ورزی علل العلان کی ‘ جیتنے بھی عہد و پیمان باندھے اُنھیں توڑ دیا۔ سیاسی افکار بھی نمائشی رہے۔ چنانچہ جمہوریت‘ مساوات آزادی‘ سیکولرازم وغیرہ سب کہنے کی باتیں رہیں۔ ان پر عملدر آمد نہیں رہا۔مغرب نے قانون ‘ قاعدہ اور اُصولوں کو بالائے طاق رکھ کر ہمیشہ اپنے مفادات کو ترجیح دی۔ کذب بیانی سے کام لیا۔ اُنکے قول و فعل ہمیشہ متصادم رہے جس کی وجہہ سے آج مغرب پر کسی قوم اور ملک کو اعتبار نہ رہا۔
پہلی جنگ عظیم 1914ء تا 1918ء کے خاتمہ کے بعد لیگ آف نیشن بنائی گئی۔ اس کے دلفریب قوانین ‘ اُصول وضوابط بنا ئے گئے ۔ نئی پرامن دنیا کی تعمیر کی منصوبہ بندی کی گئی۔ نئی سیاسی فضاء بنانے کا عہد کیا گیا۔ تاکہ دنیا گہوارہ امن بن سکے۔ اس کے لئے دوسرے ممالک پر قبضہ کرنے ‘ اُن ملکوں کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے دیگر ملکوں کے سیاسی ‘ معاشی اور ثقافتی اُمور میں مداخلت نہ کرنے اور ان کے اقتدار اعلیٰ میں دخل اندازی نہ کرنے کا عہد کیا گیا۔ انسانی مساوات اور مذہبی آزادی کو فوقیت دی گئی لیکن ہوا کیا ؟ سارے منصوبے دھرے رہ گئے ۔ صرف بیس سال کے اندر دوسری جنگ عظیم 1939ء تا 1945ء چھڑ گئی جو پہلی جنگ عظیم سے زیادہ مہیب ‘ ہولناک اور تباہ کن تھی۔ وجہہ کیا ہوئی؟ مغرب نے لیگ آف نیشن توبنالی‘ دل فریب منصوبہ بندی تو کرلی لیکن اپنے ہی بنائے ہوئے منصوبہ پر عمل نہ کیا وہی رویش بد برقرار رکھی۔ طرز عمل میں تبدیلی نہیں لائی جو منافقانہ فطرت کی عکاسی کرتی ہے۔ پسماندہ اقوام کا استحصال انکی آزادی پر اپنا پہرہ بٹھائے رکھنا ‘ اُنکے اندرونی معاملات میں بیجا مداخلت یہاں تک اُنکے ملکوں کے انتخاب کی نگرانی کرنا اور اُن کے اقتدار اعلیٰ کو اپنے پاس رہن رکھ لینا۔اُنکے داخلی اور خارجی اُمور پر نگاہ رکھنا اور اُنھیں اپنی مرضی کی پالیساں املاء کروانا اقوام کی تہذیب و ثقافت پر اپنی اخلاق باختہ تہذیب کو مسلط کرنے کی بیجا کوشش کی خاطر اُن پر تہذیبی و ثقافتی یلغار کردی۔ آپس میں لڑاؤ اور تفریقہ ڈالو کے پرانے اُصول پر کاربند رہتے ہوئے دنیا میں امن قائم نہ ہونے دیا ۔ یہ مغرب کا وطیرہ رہا ہے جسکی وجہہ سے دُنیا میں جنگیں جاری رہیں تاکہ اُنکی ہتھیاروں کی صنعتوں کو فروغ حاصل ہوتا رہے۔یہ جنگیںصرف ایشیائی اور افریقی ممالک میں جاری رہیں ۔ مغرب کی سرحدیں محفوظ اور ملک کی معیشت ترقی پذیر اور حکومتیں مستحکم رہیں۔ پوروپ و امریکہ میں امن برقرار رہا۔ یہ اس لئے ہوا کہ دوسری جنگ عظیم کے خاتمہ کے بعد ان دونوں برآعظموں کے ملکوں نے یہ ارادہ کرلیا تھا کہ اب ان خطوں میں جنگ نہ ہوگی میدانِ کار زار دوسرے براعظم ایشیا اور افریقہ ہونگے۔اس لئے کہ جنگیں اُنکے حق میں ہیں۔ کیونکہ پوروپ و امریکہ کے تمام بڑے ممالک خطرناک ہتھیار تیار کرتے ہیں لیکن اگر ان ہی ملکوں میں استعمال ہوتو صرف نقصان اُن ہی کا ہوگا لیکن اگر جنگ نہ ہو تو پھر بڑی بڑی ہتھیار ساز کمپنیوں کو تالے پڑ جائیں گے۔ لہذا ان ہتھیار ساز کمپنیوں کے لئے جنگ جاری رکھنا ضروری ہے۔ چنانچہ ان ملکوں نے اپنے ملکوں کو محفوظ رکھتے ہوئے صرف ایشیا اور افریقہ کے ملکوں کو جنگ کے میدان بنایا اور یہاں کی اقوام کے خون سے زمین کو لالہ زار کردیا۔ ہتھیار فروخت کرکے اپنے ملک کے خزانے تو بھر لئے مگر ان ملکوں کو کنگال کردیا۔ جنگیں ‘ امریکہ اور یورپ کے معاشی مفاد میں ہیں۔ یہ کس قدر تعجب کی بات ہے کہ امریکہ اور یوروپ کی اقوام تو متحد رہیں اور ایشیائی و افریقی اقوام ہمیشہ حالت جنگ میں یا پھر دہشت گردی کی لپٹ میں رہیں۔ اس صورت حال سے مملکت اسرائیل کو تحفظ بھی ملتا رہتا ہے۔اس لئے کہ اسلامی اتحاد اسرائیل کے حق میں مضرت رساں ہوسکتا ہے۔
مغرب کی سازشوں کی وجہہ سے تمام مشرقی سلطنتیں خاص کر مسلم مملکتیں ہمیشہ طوائف ملکی کا شکار رہیں۔ اُنکی دولت سے وہ خود مستفید نہ ہوسکیں بلکہ مغرب اسکے ثمرات حاصل کرتا رہے۔
ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب امریکہ میں ٹرمپ کا انتخاب اس بات کا اعلان ہے کہ امریکہ اب مسلمانوں ‘ پسماندہ طبقات کے استحصال کی خفیہ پالیسی پر عمل نہیں کریگا بلکہ ڈنکے کی چوٹ پر اپنی چودھراہٹ پر عمل کریگا اور یہودیوں کے مفاد میں کام کریگا چاہے اس سلسلے میں اُسے انصاف اور انسانی حقوق کی کتنی ہی خلاف ورزیاں کیوں نہ کرنا پڑے۔ بین الاقوامی قوانین کی دھجیاں ہی کیوں نہ اُڑانی پڑیں۔ ذرائع ابلاغ میں یہ خبریں پورے زور و شور سے گردش کررہی ہیں کہ ٹرمپ کو جیتا نے میں روس کا ہاتھ ہے جبکہ روس اس کو بارہا مسترد کرچکا ہے۔ لیکن یہ خبریں بھی ہیں کہ یہودی لابی نے ٹرمپ کی کامیاب کیلئے خاموشی سے کام کیا۔ میڈیا پر یہودیوں کا غلبہ ہے۔ لہذا اس حقیقت کے تذکرے زیر لب ہی ہیں۔ انکا شہرہ نہیں ہورہا ہے۔ اور سارا الزام روس پر صونپ دیا جارہا ہے۔ ورنہ دیگر معاملات اس کی شہادت دے رہے ہیں۔ غازہ پٹی ‘ یہودیوں کے مکانات کی تعمیر اور دنیا کی مخالفت کے باوجود اسرائیل کی ہٹ دھرمی اور ٹرمپ کا یہ بیان کہ قبل اس کے کہ دنیا اس کی مخالفت میں اُٹھ کھڑے ہو یہودیوں کو اپنا مشن پورا کرلینا چاہیئے۔ علاوہ اس کے اسرائیل وزیر آعظم بنجا من نتین یاہو کا یہ بیان کہ اب زمانہ بدل چکا ہے۔ یعنی حالات اُنکی من مانی کی موافقت مین ہیں۔ تصدیق کرتے ہیں کہ اسرائیل ٹرمپ کی حمایت سے کچھ نہ کچھ گُل نئے کھلائے ہیں اور مسلمانوں کی راہ میں خاص کر ایران کی راہ میں کانٹنے بچھائے ہیں۔ سیکسکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر کا فیصلہ اور یوروپی ممالک کو یوروپی یونین سے نکل جانے کا مشورہ خطرناک رجحانات پر مستقبل میں تباہ کن فیصلوں کو ظاہر کرتے ہیں ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ٹرمپ دنیا کے جغرافیہ بدلنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہی وجہہ ہے کہ ساری دنیا کے قائدین ٹرمپ کی مخالفت زور و شور سے کررہے ہیں ۔ مجبوراً ٹرمپ کو اپنے تحفظ کیلئے مخالفین کو سزائے ، قید اور پچیس ہزار ڈالر تک جرمانے عائد کرنے دھمکیاں دینی پڑ رہی ہیں۔
ٹرمپ بنیادی طور پر سیاست داں نہیں ہیں۔ وہ ایک بڑے تاجر ہیں۔ لہذا اُنھیں ناپ تول کے بولنا اور محتاط روی نہیں معلوم ۔ وہ تو بس بول کر سونچنا اور کرکے دیکھنے کے عادی ہیں۔ چنانچہ قدم قدم پر سیاست داں اُنھیں روک اور ٹوک رہے ہیں کہ وہ بے دھڑک بیانات نہ دیں۔ وہ کہنے سے پہلے مشاورت کرلیں۔ لیکن ٹرمپ کے رویہ میں تبدیلی آنے کا امکان نہیں ہے۔ کیونکہ تربیت اور روک ٹوک سے رویہ میں کسی قدر بدلاؤ لایا جاسکتا ہے۔ فطرت نہیں بدلی جاسکتی۔ ٹرمپ کی خصلت ویسی ہی ہے جیسی وہ نظر آتی ہے۔ انکے مزاج میں شر ، تعصب اور تشدد ہے۔ اسی لئے وہ کہتے ہیں کہ تشدد کا جواب بس تشدد ہے۔ اُنکا یہ کہنا خود ٹرمپ کو دہشت گرد ثابت کرتا ہے اور اُنھیں ہٹلر و موسولینی کی طرح جنگ باز بتاتا ہے۔ وہ فسطائی نظریات کے حامی ‘ جنسی امتیازات کے قائل نسل پرست جنونی ٹھہرتے ہیں۔ چنانچہ امریکی عوام اُنھیں امریکی روایات و اقدار کا مخالف گردان رہے ہیں۔
اپنی انتخابی مہیم کے دوران ٹرمپ نے خواتین کے خلاف جو بیانات دیئے اور اپنے جنسی میلانات کا اظہار کیا اُس سے خواتین میں سخت اشتعال اور برہمی دوڑ گئی ۔ خواتین کے متعلق ٹرمپ کے نازیبا اور نا شائیستہ تبصرے اور فقرے عوامی احتجاج کا سبب بنے۔ واشنگٹن ڈی۔ سی میں سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا۔ نعرے بازی کی ۔ کئی قانون ساز ارکان اور حقوق انسانی اور خواتین کے حقوق کی انجمنوں مارچ کیا۔ بتایا جاتا ہے کہ امریکہ جیسے ملک میں تقریباً ایک ملین لوگوں نے مظاہرے کئے۔ یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے کیونکہ اس کی امریکی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں ملتی ۔ٹرمپ نے اپنی صدارتی تقریر میں جن خیالات کا اظہار کیا ہے وہ از حد خطرناک اور تشویش ناک ہیں۔ پوری دنیا میں گوناں گوں خدشات کا اظہار ہورہا ہے۔ یوروپ میں جو طویل عرصہ سے امریکہ کا حلیف ہے نئی صف بندی ہورہی ہے۔ چنانچہ برطانیہ کی وزیر آعظم تھر یسامے نے کہا کہ اگر ٹرمپ نے کوئی ایسی بات کہی یا کوئی ایسا عمل کیا جو اُنکی نظر میں ناقابل تسلیم ہو وہ ٹرمپ کو روکنے ‘ ٹوکنے اور خبردار کرنے سے نہیں ہچکچائیں گی۔ چین کے صدر نے ون چیناپالیسی سے چھیڑ چھاڑ کرنے کے خلاف انتباہ دیا ہے۔ مسلم ممالک میں بھی ٹرمپ کی اسرائیل نوار پالیسی اور فلسطین میں اسرائیل سفارت خانہ کھولنے کی تائید مشرقی یروشلم میں یہودیوں کو نئی بستیاں بسانے کی حمایت سے تشویش بڑھ گئی ہے۔ ٹرمپ کی اس اسرائیل نواز پالیسی سے نتن یاہو کے عزائم بڑھ گئے ہیں۔ اسرائیل کی سخت گیر اور مسلم دشمن جماعتیں اور اُنکے رہنما بہت خوش ہیں۔ وہ صاف لفظوں میں کہہ رہے کہ اب زمانہ بدل چکا ہے۔ گویا اُن کے حق میں اچھے دن آگئے ہیں۔ یہودیوں کو اُمید ہوگئی ہے کہ ٹرمپ یروشلم کو اسرائیل کا دارالحکومت بنانے کی راہ ہموار کردینگے۔ ان پالیسیوں سے اس خیال کی تصدیق ہورہی ہے کہ ٹرمپ کو کامیاب کرانے میں روس کا نہیں بلکہ یہودی لابی کا ہاتھ ہے۔ ورنہ وہ روس کے حلیف ایران کی نیو کلر ڈیل کو پھاڑ کر پھینکنے کی بات ماہدوں کی پابندی کرنے کے اخلاقی اُصول کے مغائر ہے جو امریکی سیاسی ساکھ کو کمزور کر رہی ہے۔ اب پرنٹ میڈیا قلم و دوات اور میڈیا کیمرے لیکر اُنکے پیچھے لگ گیا ہے۔ ان حالات میں اندیشہ پیدا ہوگیا ہے کہ ٹرمپ اپنی معیاد کرپائیں گے کہ نہیں۔
ٹرمپ باربار امریکہ کی سر حدات کی حفاظت کی بات کررہے ہیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ امریکہ کی سرحدوں کو کس سے خطرہ ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کی وجہہ سے دوسرے ملکوں کے سرحدات ہمیشہ خطرے میں رہی ہیں اُنکا اقتدار اعلیٰ رہن رہا۔ بہر حال امریکہ میں ٹرمپ کا صدر بن جانا ایک فال بد ہے۔ دنیا کیلئے نحوست کا باعث ہے۔ ایک خوش آئیند بات یہ ہے کہ ٹرمپ نے روس کے ساتھ ملکر کام کرنے اور سرد جنگ کو ختم کی بات کہی ہے لیکن یوروپی ممالک ٹرمپ کو اس تعلق سے انتباہ دے رہے ہیں۔ یہ ایک پیچیدہ سیاسی صورت حال ہے۔ یہاں صرف سیاسی نظریات کا ٹکراؤ نہیں ہے بلکہ سرمایہ داری اور کمینوزم کی دیرینہ رقابت کا عنصر بھی ہے۔ برطانیہ کی وزیر آعظم نے اپنے دورہ امریکہ کے دوران ٹرمپ کو خبردار کیا ہے کہ وہ روس سے ہوشیار اور چوکس رہیں۔ حالانکہ تیسری دنیا کے ممالک اسے فال نیک سمجھ رہے ہیں۔ کیونکہ اس سے کرۂ ارض سے جنگوں کا خاتمہ ہوجائے گا لیکن یوروپی حکمراں یہ نہیں چاہتے کیونکہ امن اُن کے مفاد میں نہیں ہے۔ اگر امن قائم ہوجائے تو پھر اُن کی ہتھیاروں کی کھربوں ڈالر کی تجارت کا کیا ہوگا۔ ہتھیاروں کی آمدنی ان ملکوں کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔