ٹرمپ دنیا کیلئے بُری خبر

ظفر آغا

آخر یہ دنیا کدھر جارہی ہے، کس سمت ہے اس کا رُخ؟ یہ سوال ان دنوں ساری دنیا کے مبصرین پوچھ رہے ہیں، اور کیوں نہ پوچھیں! دنیا کو سمت دینے والا ملک امریکہ ہی جب بے سمت ہوجائے گا تو یہ سوال لازمی طور پر اُٹھ کھڑا ہوگا کہ آخر دنیا کو ہوکیا رہا ہے۔ جب سے ڈونالڈ ٹرمپ وائیٹ ہاؤز پہنچے ہیں دنیا بے سمت سی ہوگئی ہے کیونکہ 1990 کی دہائی میں سویت یونین کے خاتمہ کے بعد جب دنیا سے سرد جنگ ختم ہوئی تو دنیا نے ایک نئی سمت طئے کی۔ اس سمت کی دو تین باتیں بنیادی باتیں تھیں، اولاً دنیا بھر میں مارکٹ معیشت یعنی کھلے بازار کا غلبہ تھا یعنی دنیا بھر میں کہیں کا سرمایہ کہیں بھی صرف ہوسکتا تھا۔ اس کا سب سے زیادہ فائدہ چین اور ہندوستان نے اٹھایا۔ دنیا بھر اور بالخصوص امریکہ کا سرمایہ سستے مزدور کی تلاش میں سب سے زیادہ مقدار میں چین اور ہندوستان میں لگا جس کے نتیجہ میں چین سرمایہ اور ترقی کے معاملہ میں امریکہ کو ٹکر دینے پر آگیا اور ہندوستان دنیا کی ایک اہم معیشت بن گیا۔  سویت یونین کے خاتمہ کے بعد عالمی سطح پر دوسری اہم تبدیلی یہ آئی کہ دنیا بھر میںسرحدیں کھل گئیں، یعنی آپ ہندوستانی ہیں اور کسی قسم کی بہترین صلاحیت رکھتے ہیں تو آپ نیویارک ، لندن، ٹوکیو ، جدہ جہاں چاہیں آسانی سے نوکری حاصل کریں، اس کے نتیجہ میں ایک ملک سے دوسرے ملک میں جا بسنے کا سلسلہ اتنا آسان ہوگیا کہ یہ کہا جانے لگا کہ دنیا بھر کی سرحدیں کھل گئیں۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ قومیت کا نظریہ ہلکا پڑا اور دنیا میں ایک نیا گلوبل شہری جیسا شخص اُٹھ کھڑا ہوا جو اپنے ملک کے آگے دنیا بھر کے بارے میں سوچنے لگا۔ یعنی فکری سرحد بھی قومی سے عالمی ہوگئی۔
پھرتیسری تبدیلی بازار معیشت نے سویت یونین کے بعد یہ پیدا کی کہ امریکہ بغیر شرط دنیا کا واحد سوپر پاور بن گیا یعنی بغیر کسی روک ٹوک امریکہ دنیا بھر میں جو چاہے وہ کرنے کیلئے آزاد ہوگیا۔ اس کے نتیجہ میں دہشت گردی ختم کرنے کے نام پر امریکی فوج کبھی افغانستان تو کبھی عراق جیسے ملک میں دندناتی پھرنے لگی۔ اس پالیسی کا خمیازہ سب سے زیادہ مسلم ممالک کو بھگتنا پڑا جس کا ردعمل یہ ہوا کہ مسلم ممالک میں مغرب کی نفرت کی بنیاد پر القاعدہ اور داعش جیسی دہشت گرد تنظیمیں اُٹھ کھڑی ہوئیں۔
الغرض، کھلے بازار معیشت اور کھلی سرحد سیاست نے پچھلے 30، 35 برسوں میں دنیا کا خاکہ ہی بدل دیا۔اولاً جیسا عرض کیاگیا کہ چین اب دنیا بھر میں امریکہ کی ٹکر پر اُٹھ کھڑا ہوا، پھر باصلاحیت لاکھوں افراد دنیا بھر سے امریکہ اور یوروپ پہنچ گئے جہاں گورے امریکیوں اور گورے یوروپیوں سے کم تنخواہ پر کام کرنے لگے جس سے گورے امریکیوں اور یوروپیوں میں بیروزگاری پھیل گئی۔ پھر امریکہ نے جس طرح افغانستان اور عراق میں بے تحاشہ دولت جھونک کر جنگ کی اس سے خود امریکی معیشت 2008 میں کھوکھلی ہوگئی۔

سیدھی سی بات یہ ہے کہ کھلی معیشت اور کھلی سرحد نے امریکہ کو کھوکھلا کردیا۔ ظاہر ہے کہ اس سے امریکہ اور مغرب کا پرانا نظام پریشان ہوا کیونکہ سوویت یونین تو ختم ہوگیا لیکن امریکہ کی قیادت میں سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد عالم مغرب نے کھلی معیشت اور کھلی سرحد کا جو نیا نظام قائم کیا اس میں خود امریکہ اور مغرب گھاٹے میں آگئے۔ ڈونالڈ ٹرمپ اس کھلی معیشت اور کھلی سرحد کو ختم کرکے ایک بار پھر سے امریکہ کی فوقیت کو لاگو کرنے کی کاوش ہے، تب ہی تو ڈونالڈ ٹرمپ اب امریکی سرمایہ داروں سے کہتے ہیں کہ امریکی پیسہ امریکی بازار میں لگاؤ، میکسیکو یا چین میں سرمایہ مت لگاؤ۔ پھر سرحدیں بند کرنے کیلئے دنیا بھر سے امریکہ آنے والے افراد پر طرح طرح کی پابندی لگاکر ڈونالڈ ٹرمپ سرحدیں بند کررہے ہیں اور عالمی سطح پر ٹرمپ چین کے خلاف آوازیں بلند کررہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیںکہ امریکہ دوسروں کے مسائل نہیں بلکہ پہلے اپنے مسائل حل کرے گا، یعنی اب امریکہ دنیا بھر میں اپنی فوجیں نہیں بھیجتا پھرے گا یعنی کھلی معیشت اور کھلی سرحدوں سے دنیا میں جو ایک نیا نظام کھڑا کیاگیا تھا ڈونالڈ ٹرمپ نے اس نظام کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔ لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ امریکہ ٹرمپ کے ذریعہ جو چاہے وہ سب حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے گا؟ دنیا تاریخ کے محور پر جب اپنا رُخ بدل دیتی ہے تو اس رُخ کو واپس پرانے رُخ پر لانے کی کوشش ہمیشہ ناکامیاب ہوتی ہے۔  بہر کیف ایک کوشش ہے کہ دنیا کو پھر واپس ہٹلروالے قومی نظریہ اور قومی معیشت کے محور پر واپس لے چلو۔ اس کوشش کا نتیجہ فطری طور پر تضاد پیدا کرے گااور یہ لازمی ہے۔ یعنی ڈونالڈ ٹرمپ کھلی معیشت اور کھلی سرحدوں کو بند کرنے کی کاوش میں چین ،ایران اور میکسیکو جیسے نہ جانے کتنے ممالک سے جنگ کا ماحول بنالیں گے۔ پھر امریکہ میں امریکی سرمایہ کی کھپت کی کاوش اور گوروں کو واپس نوکری دلوانے کے چکر میں نہ جانے کتنے لاکھوں لوگوں کو بیروزگار کردیں گے۔ پھر دہشت گردی ختم کرنے کی کوشش میں نہ جانے کتنی اور جنگیں پیدا کردیں گے۔
دنیا بدل چکی ہے، امریکہ اب دنیا میں واحد سوپر پاور نہیں رہ گیا ہے۔ دنیا میں اب چین اور ہندوستان جیسی نئی طاقتیں اُٹھ کھڑی ہوئی ہیں، معیشت اور سرحدیں بند کرکے ان طاقتوں کو ختم کرنے کی کوشش دنیا اور امریکہ دونوں کو بھاری پڑ سکتی ہے۔ دنیا پر ایک بار پھر گورے مغربی ممالک کی اکیلی ٹھیکہ داری نہیں چلے گی۔ اگر امریکہ اور مغرب نے دنیا کی اس بدلتی تصویر کو ڈونالڈ ٹرمپ کے ذریعہ مسخ کرنے کی کوشش کی تو خون خرابہ بھی ہوگا اور دنیا کی معیشت بھی تباہ ہوگی۔ لب لباب یہ ہے کہ ڈونالڈ ٹرمپ دنیا کیلئے ایک بری خبر ہیں۔