ٹال دینے سے کوئی مسئلہ حل ہوتا ہے

رشیدالدین
مرکز میں کانگریس زیر قیادت یو پی اے حکومت اور وزیراعظم کی حیثیت سے ڈاکٹر منموہن سنگھ کی دوسری میعاد اب محض چند دن کی مہمان ہیں۔ ساتھ ہی 15 ویں لوک سبھا کی میعاد بھی جاریہ سیشن کے ساتھ ہی ختم ہوجائے گی۔ گزشتہ دس برسوں کے دوران یو پی اے حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیں یا پھر پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے احوال پر نظر ڈالیں تو بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ دونوں عوام کی توقعات پر کھرا اترنے میں ناکام رہے۔ جہاں تک پارلیمنٹ کا سوال ہے آزادی کے بعد سے آج تک کسی بھی لوک سبھا کی کارکردگی اس قدر مایوس کن نہیں رہی، جتنی 15 ویں لوک سبھا کی تھی۔ ایک طرف حکومت عوامی مسائل کی یکسوئی کے معاملہ میں غیر موثر ثابت ہوئی تو دوسری طرف ڈاکٹر منموہن سنگھ وزیراعظم کی حیثیت سے اپنے وجود کو منوانے کی جدوجہد کرتے رہے ۔ ان دونوں کے درمیان پارلیمنٹ کی کارروائی اس قدر متاثر ہوئی کہ 5 سالہ میعاد مکمل کرنے والی کسی بھی لوک سبھا میں 15 ویں لوک سبھا کا نمبر آخری ہوگیا۔ یو پی اے کی دونوں میعادیں حلیف جماعتوں کی تائید سے مکمل ہوئیں لیکن دوسری میعاد میں حکومت اور پارلیمنٹ پر سیاسی امور بڑی حد تک چھائے رہے۔ کمزور حکومت اور محاذ میں شامل جماعتوں کے الگ الگ ایجنڈے اور ترجیحات نے بھی حکومت کی کارکردگی کو متاثر کرنے میں اہم رول ادا کیا ۔ اب جبکہ عبوری بجٹ کی منظوری کیلئے دونوں ایوانوں کے اجلاس جاری ہیں، سیاسی ایجنڈے کے باعث مسلسل تین دن تک دونوں ایوانوں میں کوئی کام کاج نہ ہوسکا۔ حکومت نے 11 ایام کار میں عام بجٹ اور ریلوے بجٹ کی منظوری کے ساتھ 33 بلز کو ایجنڈے میں شامل کیا ہے لیکن صورتحال کچھ اس قدر سیاسی طور پر آلودہ ہوچکی ہے کہ کسی ایک بل کی منظوری کا امکان نظر نہیں آتا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کانگریس پارٹی نے عام انتخابات سے قبل پارلیمنٹ کے اس آخری اجلاس کے ایجنڈے کی سیاسی آمیزش میں کوئی کسر باقی نہیں رکھا۔ ایجنڈہ میں بعض ایسے بلز شامل کئے گئے جن کے ذریعہ عام انتخابات میں ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے جن میں تلنگانہ بل،

خواتین تحفظات بل، مخالف کرپشن بل، معذورین اور سڑک پر چھوٹے کاروبار کرنے والوں کے معیار زندگی میں بہتری سے متعلق بلز شامل ہیں۔ پارلیمنٹ کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ دستوری ضرورت کی تکمیل سے متعلق کارروائی کے سواء کچھ نہیں ہوگا۔ دستوری قواعد کے تحت لوک سبھا کی میعاد ختم ہونے سے قبل حکومت کو عبوری بجٹ کو منظوری دینا ہوگا۔ 15 ویں لوک سبھا کی مایوس کن کارکردگی کا اندازہ خود سرکاری اعداد و شمار سے ہوتا ہے۔ 2009 ء سے 2014 ء کی 15 ویں لوک سبھا میں جملہ 165 بلز کو منظوری دی گئی جبکہ 2004-09 کی 14 ویں لوک سبھا میں 248 اور 13 ویں لوک سبھا میں 297 بلز کو منظوری دی گئی۔ 1971-77 کے دوران سب سے زیادہ 482 بلز کو منطوری دی گئی تھی۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں جملہ 126 بلز زیر التواء ہے جن میں راجیہ سبھا میں 54 اور لوک سبھا میں 72 بلز شامل ہیں۔ اندرون ایک ماہ لوک سبھا کی میعاد کے اختتام کے ساتھ ہی 72 زیر التواء بلز از خود ختم ہوجائیں گے جبکہ راجیہ سبھا میں زیر التواء 54 بلز برقرار رہ سکتے ہیں۔ تاہم ان کی منظوری کے بارے میں وثوق سے اس لئے بھی نہیں کہا جاسکتا کیونکہ انڈین میڈیکل کونسل ترمیمی بل 1987 ء سے راجیہ سبھا میں منظوری کا منتظر ہے۔ 14 ویں لوک سبھا کے اختتام پر 39 اور 13 ویں لوک سبھا کی میعاد کی تکمیل پر 43 بلز کی حیثیت ختم ہوگئی تھی۔

کم بلز کی منظوری اور زائد تعداد میں بلز کے Lapse ہونے دونوں صورتوں میں 15 ویں لوک سبھا کی کارکردگی مایوس کن قرار پاتی ہے۔ ہر پار لیمنٹ کی میعاد سے قبل کا آخری سیشن سیاسی مقصد براری سے پر ہوتا ہے اور پارلیمنٹ کے جاریہ سیشن میں یہی کچھ دیکھنے کو مل رہا ہے ۔ 15 ویں لوک سبھا اس اعتبار سے بھی پارلیمانی تاریخ میں یادگار رہے گی کہ ارکان نے اپنے علاقائی مسائل کو پیش کرتے ہوئے نہ صرف کارروائی میں رکاوٹ پیدا کی بلکہ اہم بلز کی منظوری کو روک دیا۔ انتخابات میں سیاسی فائدہ کے حصول کیلئے ہر پارٹی ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے اور کسی بھی اسکیم کا سہرا حکومت کے سر باندھنے اپوزیشن تیار نہیں۔ سیاسی مقصد براری کے اس رجحان نے ہمیشہ ہی عوامی مسائل کو پس پشت ڈال دیا ۔ بعض بلز کی منظوری کے سلسلہ میں حکومت کی سنجیدگی خود شک کے دائرہ میں ہے۔ خواتین تحفظات بل 2010 ء میں راجیہ سبھا میں منظور کیا گیا لیکن لوک سبھا میں ابھی تک اس کا مقدر تاریک بنا ہوا ہے ۔ انسداد فرقہ وارانہ تشدد بل کے نام پر مسلمانوں کی ہمدردی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن راجیہ سبھا میں بی جے پی کے احتجاج کا بہانہ بناکر اسے متعارف نہیں کیا گیا ۔ کچھ یہی حال تلنگانہ بل کا ہے جسے ابھی تک کسی بھی ایوان میں پیش نہیں کیا گیا۔ تلنگانہ بل کے ذریعہ کانگریس پارٹی ووٹ کی سیاست کرنا چاہتی ہے۔ بل کو پیش کر کے آئندہ انتخابات میں تلنگانہ میں زائد نشستوں پر کامیابی کی حکمت عملی ہے۔ بھلے ہی بل منظور نہ ہو۔ ساتھ ہی ساتھ اپوزیشن کو بل پیش کرنے میں رکاوٹ کیلئے ذمہ دار قرار دیتے ہوئے دونوں علاقوں کے ووٹ حاصل کرنے کا بھی منصوبہ ہے ۔ تلنگانہ بل کے سلسلہ میں ابھی تک کانگریس کی نیت صاف نہیں ہے۔ صرف ووٹ بینک کی سیاست کے تحت اس مسئلہ کو استعمال کرلیا گیا اور سارے کھیل میں چیف منسٹر کرن کمار ریڈی نے اہم کردار نبھایا۔ تلنگانہ کے معصوم عوام کانگریس کی سازش کا شکار ہوگئے۔ کانگریس ہائی کمان نے کرن کمار ریڈی کو متحدہ آندھرا کے کٹر حامی کے طور پر ابھارتے ہوئے سیما آندھرا علاقوں میں چندرا بابو نائیڈو اور جگن موہن ریڈی سے مقابلہ کا اہل بنانے کی کوشش کی ہے۔ اگر مرکزی حکومت اور کانگریس پارٹی تشکیل تلنگانہ میں واقعی سنجیدہ ہوتی تو پارلیمنٹ کی میعاد کی تکمیل سے عین قبل بل کی پیشکشی کا خیال نہ آتا جبکہ یہ مسئلہ حکومت کی گزشتہ میعاد میں بھی شدت کے ساتھ موجود تھا۔

یو پی اے کی پہلی میعاد میں عوامی بھلائی سے متعلق بعض فیصلے کئے گئے لیکن دوسری میعاد کافی کمزور رہی۔ حالانکہ ایسا نہیں تھا کہ حلیف جماعتوں کی تائید میں کچھ کمی آئی ہو۔ اس کے باوجود حکومت میں فیصلے کرنے کی جرأت اور حوصلے کی کمی اور الجھن کی کیفیت صاف طور پر نظر آئی۔ اگرچہ پہلی میعاد میں حق تعلیم، حق معلومات اور فوڈ سیکوریٹی جیسے اہم قوانین بنائے گئے لیکن دوسری میعاد میں عام آدمی سے دوری، کرپشن اور اسکامس نے حکومت کو الجھاکر رکھ دیا۔ کرپشن اور مہنگائی کے مسئلہ پر دہلی اور راجستھان میں کانگریس کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔ اس بھاری شکست کے بعد لوک پال بل کو منظوری دی گئی ۔ بعض شہرت پسند اسکیمات کا آغاز کیا گیا اور انتخابات سے عین قبل گھریلو پکوان گیس سلنڈرس کی تعداد میں اضافہ کرتے ہوئے متوسط طبقہ کو لبھانے کی کوشش کی گئی۔ لوک پال بل ہو یا گیس سلنڈرس کی تعداد میں اضافہ اس کا سہرا راہول گاندھی کے سر جاتا ہے ۔ عام آدمی اور ان کے مسائل سے دوری کے سبب جو نقصان ہوا اس نے کانگریس کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔ لہذا اب شہرت پسند اسکیمات کے بارے میں بڑے پیمانہ پر تشہیری مہم شروع کی گئی ہے۔ یو پی اے کی دونوں میعادوں میں اقلیتوں کی ترقی اور بھلائی کے سلسلہ میں ٹھوس اقدامات کے بجائے خوش کن اعلانات کا سلسلہ جاری رہا۔ سچر کمیٹی اور رنگناتھ مشرا کمیٹی کی سفارشات پر عمل آوری کا دلاسہ دیا جاتا رہا۔ وزیراعظم کے 15 نکاتی پروگرام پر عمل آوری کے سلسلہ میں کوئی پیشرفت نہیں ہوئی۔ حکومت کی میعاد کے اختتام سے عین قبل قومی وقف ترقیاتی کارپوریشن کے قیام کا اعلان کیا گیا جس کے ذریعہ وقف جائیدادوں کو ترقی دے کر اس کی آمدنی اقلیتوں کی بھلائی پر خرچ کی جائے گی ۔ یہ خواب کب پورا ہوگا کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ مسلم نوجوانوں کی گرفتاری اور فرضی مقدمات میں ماخوذ کرنے کا سلسلہ ابھی جاری ہے جبکہ وزیر داخلہ سشیل کمار شنڈے اس سلسلہ میں ریاستوں کو مکتوب روانہ کرتے رہے۔