ویٹکن اور فلسطینیوں میں قربت اسرائیل تڑپ اٹھا

محمد ریاض احمد
عیسائی دنیا میں یہودیوں کے تعلق سے کافی نفرت پائی جاتی ہے لیکن یہودیوں نے عیسائی دنیا یعنی مغربی ممالک میں سودی کاروبار دولت کی ریل پیل کا ایسا جال پھیلایا ہے کہ مغربی حکومتیں مجبوراً اسرائیل کی تائید و حمایت کے لئے مجبور ہو جاتی ہیں ایسے ملکوں میں امریکہ اور برطانیہ سرفہرست ہیں جہاں اقتصادی شعبہ سے لے کر میڈیا، سیر و سیاحت اور دیگر شعبوں میں یہودی چھائے ہوئے ہیں جس کے باعث امریکی اور برطانوی حکومتیں یہ جانتے ہوئے بھی کہ اسرائیل حقیقت میں اس کرہ ارض پر ایک ناجائز مملکت ہے ہمیشہ اس کی مدافعت میں آواز اٹھاتی ہیں لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ بے شمار مغربی ممالک ایسے بھی ہیں جو نہتے فلسطینیوں پر مظالم کے لئے اسرائیل کی مذمت کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ ان ممالک نے متعدد مرتبہ اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ فلسطین اسرائیل دو مملکتی نظریہ کو مان لے لیکن اسرائیل اپنی انانیت کے ذریعہ ساری دنیا پر اثر انداز ہونے کے خواب دیکھ رہا ہے۔

اسے اپنے ہتھیاروں، سائنس و ٹکنالوجی کی ایجادات پر اتنا ناز ہے کہ وہ یہ بھی فراموش کرچکا ہے کہ صرف ایک آندھی اور طوفان یا پھر زلزلہ کے ذریعہ قدرت اس کی ساری طاقت اور غرور و تکبر کو خاک میں ملا سکتی ہے۔ ویسے بھی اسرائیلی ہمیشہ ذلیل ہوئے ہیں ان کی ذلالت، مکاری، عیاری اور غداری کی ایک طویل تاریخ ہے۔ یہودی اس کی پیٹھ میں خنجر گھونپتے ہیں جو ان کی مدد کرتا ہے۔ انہیں آسرا دیتا ہے اور پناہ فراہم کرتا ہے۔ اس کی بدترین مثال خود فلسطینی ہیں جنہوں نے یہودیوں کے لئے اپنے ملک کے دروازے کھولے اور دیکھتے ہی دیکھتے اس مکار قوم نے فلسطینیوں کو بے گھر کردیا بلکہ ارض مقدس پر ہی قبضہ کرکے ایک ناجائز ملک اسرائیل قائم کردیا۔ چوری پہ سینہ زوری کے مترادف اسرائیلی حکومت یروشلم میں بیت المقدس وہاں کے اسلامی و عیسائی آثار تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے اس بارے میں جہاں عالم اسلام میں بے چینی اور برہمی کی لہر پائی جاتی ہے وہیں عیسائی دنیا بھی اسرائیل پر برہم ہے۔ اس برہمی کے باعث عیسائی اکثریتی ممالک اب فلسطین کو ایک علیحدہ مملکت کی حیثیت سے تسلیم کرنے لگے ہیں۔ حال ہی میں ویٹکن نے جو کیتھولک عیسائیوں کا مذہبی و روحانی مرکز ہے ببانگ دہل اعلان کردیا ہے کہ جلد ہی ایک معاہدہ کے تحت فلسطین کو ایک علیحدہ ریاست یا مملکت تسلیم کرلیا جائے گا۔ ویٹکن کے اس اعلان پر جہاں فلسطینیوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی وہیں اسرائیل کی نتن یاہو حکومت کے سینے پر سانپ لوٹ گئے ہیں۔ اسرائیلی حکومت اور دہشت گرد یہودیوں میں رنج و غم کی لہر دوڑ گئی ہے۔ انہیں مسلمانوں اور عیسائیوں کے اتحاد پر تشویش لاحق ہوگئی ہے۔ فلسطین کو ایک علیحدہ ریاست تسلیم کرنے سے متعلق ویٹکن کے اعلان کے ساتھ ہی اسرائیلی حکومت اور اس کی پشت پناہی کرنے والوں نے مایوسی ظاہر کی ہے۔

اسرائیلی حکومت کے خیال میں ویٹکن کے اس اقدام سے علاقہ میں قیام امن کے عمل پر منفی اثرات مرتب ہوں گے اور فلسطینی امن مذاکرات میں رکاوٹیں پیدا کرتے جائیں گے۔ واضح رہے کہ ویٹکن فلسطین اور اسرائیل کے درمیان دو ریاستی حل کا حامی ہے اس سلسلہ میں فلسطینی اور ویٹکن کے مابین مذاکرات کا عمل گزشتہ 20 برسوں سے جاری ہے۔ ویٹکن فلسطینیوں کی اس لئے بھی کھل کر تائید کرتا ہے کیونکہ فلسطینی اتھاریٹی نے ہمیشہ عیسائیوں کے ساتھ فراخدلانہ سلوک روا رکھی ہے۔ فلسطین میں عیسائی مذہبی آثار کے تحفظ کو یقینی بنانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ جاریہ ہفتہ ویٹکن کی جانب سے دو فلسطینی راہبوں کو ’’سینٹ‘‘ کا درجہ دیا جانے والا ہے۔ اس تقریب میں صدر فلسطینی اتھاریٹی محمود عباس اور پوپ کی ملاقات ہونے والی ہے۔ نیویارک ٹائمز میں ایک رپور ٹ شائع ہوئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ویٹکن کا فلسطین کو ایک علیحدہ ریاست تسلیم کرنا کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے

بلکہ یہ مسلمانوں، عیسائیوں میں قربت اور عیسائیوں۔ یہودیوں کے درمیان دوری کا باعث بننے والا ہے۔ فلسطینیوں سے ویٹکن کی ہمدردی کی ایک اور اہم وجہ یہ بھی ہے کہ وہ فلسطین میں واقع کیتھولک عیسائیوں کے گرجا گھروں کی جائیدادوں اور ان کے حق ملکیت کے بارے میں کافی فکرمند ہے۔ پوپ فرانسیسی بیسویں صدی کے دو فلسطینی عیسائی راہبوں کو سنیٹ کا درجہ دیتے ہوئے دراصل عرب عیسائیوں کو یہ پیام دے رہے ہیں کہ اس خطہ میں عیسائیوں کو ڈرنے گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کا روحانی مرکز ویٹکن عیسائیوں کی تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے عرب حکومتوں سے نہ صرف ربط میں ہے بلکہ اس سلسلہ میں اسے عرب حکمرانوں سے غیر معمولی حوصلہ افزاء ردعمل بھی حاصل ہوا ہے۔ آپ کو بتادیں کہ یوروپی پارلیمنٹ میں بھی اس کے بعض ارکان نے علیحدہ مملکت فلسطین کو تسلیم کئے جانے پر زور دیتے ہوئے قرارداد منظور کی ہے۔

اس ضمن میں فرانس، اسپین، برطانیہ، جمہوریہ، آئرلینڈ نے پچھلے سال ہی علیحدہ مملکت فلسطین سے متعلق قراردادیں منظور کی ہیں۔ فلسطینیوں کے لئے اطمینان بخش بات یہ رہی کہ اقوام متحدہ کے کئی اداروں نے بھی اسے اپنی رکنیت دینے کا اعلان کیا۔ حکومت سویڈن نے تو باضابطہ سرکاری طور پر فلسطین کو علیحدہ ریاست کے طور پر تسلیم بھی کرلیا ہے۔ پوپ نے گزشتہ سال مشرق وسطیٰ کے دورہ کے موقع پر کہا تھا کہ ویٹکن ایک آزاد، خود مختار اور جمہوری فلسطین کا قیام دیکھنا چاہتا ہے۔ واشنگٹن پوسٹ میں شائع رپورٹ کے مطابق سہولی سی اور اسٹیٹ اف فلسطین پر مشتمل ایک کمیشن روم میں فلسطین کو علیحدہ ریاست تسلیم کئے جانے سے متعلق معاہدہ کو قطعیت دے رہا ہے۔ اس سلسلہ میں ویٹکن کی ویب سائٹ پر ایک بیان بھی پوسٹ کیا گیا۔ واضح رہے کہ سال 2012ء میں جب اقوام متحدہ نے فلسطین کو ایک غیر رکنی مبصر کا موقف عطا کیا تھا تب سے ہی ویٹکن علیحدہ ریاست فسلطین کو تسلیم کرنے پر مائل ہونے کا اشارہ دے دیا تھا۔ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے ایک ترجمان زاویہ ابوعید نے کہا کہ ویٹکن پہلے ہی سے علیحدہ ریاست فلسطین کو تسلیم کرچکا ہے۔ اب تو صرف اس معاہدہ پر دستخط ہونے جارہے ہیں۔ تاحال اقوام متحدہ کے زائد از 135 ملکوں نے فلسطین کو ایک آزاد ریاست کی حیثیت سے تسلیم کیا ہے۔