ہندوتوا کے ایجنڈہ کی جانب پیشقدمی
نفرت کے سوداگروں کو کھلی چھوٹ
رشیدالدین
دستور ہند میں دی گئی مذہبی آزادی کیا یہی ہے کہ مذہبی اقلیتوں کی عبادتگاہوں پر حملے کئے جائیں۔ اقلیتوں کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنا کیا مذہبی رواداری ہے؟ تمام مذاہب کے ماننے والوں کے ساتھ یکساں سلوک اور ’’سب کا ساتھ ، سب کا وکاس‘‘ کے عہد کو کیوں فراموش کردیا گیا ؟ وزیراعظم نریندر مودی نے پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ مذہبی منافرت پھیلانے والے چاہے کسی پارٹی سے ہوں، ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ نریندر مودی کے بیان کے بعد صورتحال میں سدھار کے بجائے مزید بگاڑ پیدا ہوچکا ہے۔ امریکی صدر بارک اوباما نے جو نصیحت کی تھی ، اس کا سنگھ پریوار پر الٹا اثر پڑا۔ پارلیمنٹ اور اس کے باہر عیسائیوں کے مذہبی اجتماع میں وزیراعظم نے قوم کو مذہبی آزادی اور رواداری کا پاٹھ پڑھایا تھا لیکن جب عمل کا وقت آیا تو نریندر مودی کاغذی شیر ثابت ہوئے۔ دستور ہند سے وفاداری اور اس کی پاسداری کا حلف لینے والے نریندر مودی اپنے دستوری فرائض کو بھلاکر بیرون ملک دوروں میں عافیت محسوس کرنے لگے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ حقیقت آشکار ہونے لگی ہے کہ نریندر مودی دراصل سنگھ پریوار کی کٹھ پتلی ہیں اور حکومت کا ریموٹ کنٹرول ناگپور میں ہے۔ مذہبی آزادی اور رواداری کے دعوؤں کی آڑ میں جارحانہ فرقہ پرست طاقتیں ملک کو تیزی سے ہندوتوا ایجنڈہ کی طرف ڈھکیل رہی ہیں۔ براک اوباما کی نصیحت کے بعد مودی نے جو موقف اختیار کیا ، توقع کی جارہی تھی کہ صورتحال تبدیل ہوگی لیکن برخلاف اس کے جارحانہ فرقہ پرست طاقتوں کی سرگرمیوں میں مزید اضافہ ہوگیا۔ سنگھ پریوار کے کارندے جیسے بے لگام ہوگئے اور سخت کارروائی کا قوم سے وعدہ کرنے والے وزیراعظم بے بس دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ بے بسی ہے یا پھر میچ فکسنگ اس کا اندازہ آنے والے دنوں میں ہوجائے گا۔ نریندر مودی نے اقتدار کے حصول کیلئے ترقی کے جو خواب دکھائے تھے، وہ اب بکھرنے لگے ہیں۔
وکاس کا نعرہ اب وناش میں تبدیل ہوچکا ہے۔ بی جے پی نے جب محسوس کرلیا کہ 9 ماہ کی حکومت سے عوام خوش نہیں ہیں تو ترقی کے بجائے پھر ایک بار ہندوتوا کے ایجنڈہ پر واپسی کا فیصلہ کیا گیا تاکہ مذہبی جذبات کو مشتعل کرتے ہوئے بہار ، اترپردیش اور مغربی بنگال میں کامیابی حاصل کی جاسکے ۔ دہلی میں عوام کی جانب سے مسترد کئے جانے کے بعد بی جے پی نے دوبارہ فرقہ وارانہ کارڈ کھیلنے کی تیاری کرلی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سنگھ پریوار میں شامل ہر چھوٹے بڑے قائد ، سادھو حتیٰ کہ سادھویوں کی زبان بے لگام ہوچکی ہے۔ جن کے نام آج تک کبھی سنائی نہیں دیئے ایسے نوزائدہ سادھو اور سادھویاں چھوٹا منہ بڑی بات کے ذریعہ زہر اگلتے ہوئے سماج میں نفرت کا بیج بو رہی ہیں۔ سادھو اور سادھویوں کا سیاست سے کیا تعلق ہے۔ ان کی جگہ تو کوئی آشرم یا جنگل ہوتا ہے لیکن یہ ماڈرن سادھو اب پارلیمنٹ میں دکھائی دینے لگے ہیں جو خود صحیح ڈھنگ سے قومی ترانہ نہیں پڑھ سکتے وہ دوسروں کی حب الوطنی پر سوال اٹھارہے ہیں۔ وندے ماترم پڑھنے کیلئے دوسروں پر دباؤ ڈالنے والے پہلے خود پڑھ کر تو سنائیں۔
ان نفرت کے سوداگروں نے گاندھی جی کو انگریزوں کا ایجنٹ اور ناتھورام گوڈسے کو محب وطن قرار دیا۔ اگر ان طاقتوں کا بس چلے تو جدوجہد آزادی کی نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے گوڈسے کو قومی ہیرو کے طور پر پیش کریں گے۔سنگھ پریوار کے یہ کارندے ملک بھر میں نفرت کے پرچار میں مصروف ہیں تو دوسری طرف بی جے پی برسر اقتدار ریاستوں میں ہندوتوا ایجنڈہ پر عمل آوری کا آغاز کرچکی ہے۔ تعلیمی نصاب کی تبدیلی، اسکولوں میں بھگوت گیتا کی تعلیم کو لازمی قرار دینا اور ذبیحہ گاؤ پر امتناع جیسے اقدامات سے مذہبی اقلیتوں کے صبر کا امتحان لیا جارہا ہے۔ ان سرگرمیوں کا مقصد حوصلوں کو پست کرنا ہے۔ سنگھ پریوار کی سرگرمیاں ایک طرف جاری ہیں تو دوسری طرف سرکاری سطح پر مذہبی آزادی کے تحفظ کا عہد کیا جارہا ہے۔ کسی بھی تنازعہ کی صورت میں ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کے بجائے حکومت صرف لاتعلقی کے اظہار پر اکتفا کر رہی ہے۔ جب وزیراعظم، پارٹی کے کسی ایم پی کے خلاف کارروائی کے مجاز نہ ہوں تو ان سے دستور اور قانون کی بالادستی کی توقع کرنا فضول ہے۔ آخر وزیراعظم ان سرگرمیوں پر خاموش کیوں ہیں؟
وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ کو اچانک مسلمانوں کی حب الوطنی کا خیال آگیا۔انہوں نے مسلمانوں کو محب وطن قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہندوستانی مسلمانوں کو راغب کرنے میں دولت اسلامیہ (ISIS) ناکام ہوچکی ہے۔ مسلمانوں کو حب الوطن تسلیم کرنا اور وہ بھی وزیر داخلہ کی زبان سے یقیناً اہمیت کا حامل ہے۔ ملک کے وزیر داخلہ کا یہ بیان دراصل ان عناصر کے پروپگنڈہ کی نفی کرتا ہے جو وقفہ وقفہ سے مسلمانوں کی حب الوطنی پر سوال اٹھاتے ہیں۔
راج ناتھ سنگھ ایک تجربہ کار اور جہاندیدہ شخص ہیں جو نہ صرف بی جے پی کے صدر رہے بلکہ ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے چیف منسٹر بھی رہ چکے ہیں۔ ان کی جانب سے یہ اعتراف خوش آئند ہے لیکن ملک کے حالات اور نفرت انگیز سرگرمیاں اس بیان کی نفی کر رہی ہیں۔ جب حکومت ہند کو مسلمانوں کی حب الوطنی کا اعتراف ہے تو پھر ان تمام مسلم تنظیموں پر کئی برسوں سے جاری پابندی برخاست ہونی چاہئے، جن پر ملک دشمنی کے جھوٹے مقدمات لگائے گئے ۔ ان ہزاروں بے گناہ مسلم نوجوانوں کو بھی باعزت بری کرتے ہوئے جیلوں سے رہا کیا جائے جو مقدمہ کی سماعت کے بغیر برسوں سے قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں۔ سیمی، انڈین مجاہدین اور دیگر ناموں سے ہزاروں نوجوانوں کو محروس رکھنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ جب مسلمان ISIS (داعش) کی طرف راغب نہیں تو پھر شبہ کی بنیاد پر ملک کے مختلف حصوں میں کارروائیوں اور گرفتاریوں کا سلسلہ کیوں جاری ہے؟ سابق حکومت نے جو غلطی کی تھی ، اس کو موجودہ حکومت کیوں آگے بڑھا رہی ہے ۔ اگر واقعی راج ناتھ سنگھ اپنے بیان میں سنجیدہ ہیں تو انہیں عملی طور پر ثبوت پیش کرنا ہوگا۔
بی جے پی کی قومی عاملہ میں شمولیت کے فوری بعد سبرامنیم سوامی نے مساجد سے متعلق متنازعہ بیان دیا لیکن آج تک بی جے پی قیادت اور وزیراعظم نے ان سے بازپرس نہیں کی۔ سبرامنیم سوامی کی مسلمانوں اور اسلام کے خلاف زہرافشانی پہلی مرتبہ نہیں ہے۔ یہ وہی سبرامنیم سوامی ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو حق رائے دہی سے محروم کرنے کی درخواست عدالت میں داخل کی تھی ۔ ملک میں یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کے وہ پرزور حامی ہیں۔ اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی بحالی سے پہلے سبرامنیم سوامی اسرائیل کا دورہ کرنے والوں میں شامل ہیں۔ اگر یوں کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ملک میں بہت سے ایسے چھپے ہوئے یہودی موجود ہیں، جن کے نام سبرامنیم سوامی جیسے ہیں۔ آر ایس ایس نے بھی رام مندر، ذبیحہ گاؤ اور دیگر متنازعہ مسائل پر مبنی ایجنڈہ پر برقراری کا اعلان کیا ہے۔ آر ایس ایس نے گھر واپسی مہم کی تائید کرتے ہوئے اس قدر سنگین ریمارک کیا کہ ہر ہندوستانی کا ڈی این اے ہندو ہے۔اگر ہندوستان میں پیدا ہونے والے کا ڈی این اے ہندو ہے تو پھر ہندوستان کے باہر پیدا ہونے والے ہندو بچوں کے ڈی این اے کو کیا کہا جائے گا۔ بی جے پی زیر قیادت ریاستوں میں ذبیحہ گاؤ پر امتناع سے متعلق قانون سازی کی گئی اور بعض ریاستوں نے اسکولوں میں بھگوت گیتا کی تعلیم کو لازمی قرار دیا ہے۔ کیا یہ سرگرمیاں نریندر مودی کو دکھائی نہیں دے رہی ہیں، جنہوں نے پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ حکومت کا مذہب ہندوستان ، حکومت کی مذہبی کتاب دستور ہند اور حکومت کی عبادت ’’بھارت بھکتی‘‘ ہے۔ جب حکومت کی مذہبی کتاب دستور ہند ہے تو پھر بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں بھگوت گیتا کی تعلیم کا فیصلہ کیوں کیا گیا۔ اوباما کی سرزنش کے بعد وزیراعظم نے دنیا بھر میں رسوائی سے بچنے کیلئے اس طرح کا بیان دیا ہے لیکن وہ اپنے بیان پر قائم نہیں رہے۔ وزیراعظم کو بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں کے فیصلوں پر وضاحت کرنی ہوگی۔ ہندوستان میں عیسائی اقلیتوں اور ان کی عبادت گاہوں پر حملوں کے بعد نہ صرف اوباما بلکہ دیگر مغربی ممالک نے برہمی کا اظہار کیا تھا۔ وزیراعظم کے تیقن کے باوجود آج بھی مسلمان ، عیسائی اور دیگر مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ جاری ہے۔ مغربی بنگال میں ایک ضعیف العمر نن کی اجتماعی عصمت ریزی کے واقعہ نے دنیا بھر میں ہندوستان کے سر کو شرم سے جھکا دیا ہے۔
اس شرمناک واقعہ کی کسی سادھو یا سادھوی نے مذمت تک نہیں کی۔ بحیثیت خاتون سادھویوں کو اس واقعہ کی مذمت کرنی چاہئے تھی حالانکہ یہ واقعہ انسانیت اور خواتین کے تحفظ و احترام سے جڑا ہوا مسئلہ ہے۔ اس واقعہ پر مرکزی حکومت اور سنگھ پریوار منظم انداز سے پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ دنیا بھر میں رسوائی سے بچا جاسکے۔ کسی عیسائی رہنما نے کچھ اس طرح ریمارک کیا کہ ’’ہندوستانی حکومت کو گائے کی نہیں بلکہ شہریوں کی حفاظت پر توجہ دینی چاہئے‘‘۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ بی جے پی اور اس کی حکومتوں کو تحفظ گاؤ کی فکر ہے لیکن تحفظ عصمت پر کوئی توجہ نہیں۔ وشوا ہندو پریشد کی سادھوی پراچی نے دو سے زائد بچے رکھنے والوں کو ووٹ کے حق سے محروم کرنے کی بات کہی ۔ ایک طرف سنگھ پریوار کے قا ئدین ہندوؤں کوزائد بچے پیدا کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں تو دوسری طرف سادھوی پراچی زائد بچے والوں کو ووٹ کے حق سے محروم کرنے کی مہم چلا رہی ہیں۔ ظاہر ہے کہ سادھوی پراچی کے پیش نظر صرف مسلمان ہی ہیں اور شاید انہیں یقین ہوچکا ہے کہ ہندوؤں کو زائد بچے پیدا کرنے کا مشورہ بے فیض ثابت ہوگا۔ اگر سادھوی کے اس مشورہ کو قبول کرلیا جائے تو ملک میں صرف غیر شادی شدہ مرد اور خواتین کو ہی رائے دہی کا حق حاصل ہوگا ، جن میں سادھوی پراچی بھی شامل ہوں گی۔ ملک بھر میں سنگھ پریوار کی نفرت انگیز مہم دن بہ دن شدت اختیار کررہی ہے لیکن افسوس کہ مسلم جماعتیں، تنظیمیں چاہے وہ سیاسی ہوں یا مذہبی ہر طرف سناٹا طاری ہے۔ دہلی سے حیدرآباد تک یہ سناٹا برقرار ہے۔ مسلم قیادت کے دعویدار صرف زبانی مذمت اور احتجاجی بیانات کی اجرائی کو سب کچھ سمجھ بیٹھے ہیں۔ حالانکہ ان نفرت انگیز سرگرمیوں کے مقابلہ کے لئے تمام جمہوری ، دستوری اور قانونی اختیارات کا استعمال کیا جانا چاہئے ۔ مسلم پرسنل لا بورڈ صرف اصلاح معاشرہ کی قیادت میں تبدیل ہوچکا ہے۔ آج ملک کے مسلمانوں کو مولانا طیب قاسمی ، مولانا منت اللہ رحمانی، مولانا علی میاں اور مولانا عبدالکریم پاریکھ جیسی قیادت کی ضرورت ہے، جنہوں نے ہر سازش کا بروقت مقابلہ کیا۔ خمار بارہ بنکوی نے کہا ہے ؎
وہ ہمیں جس قدر آزماتے رہے
اپنی ہی مشکلوں کو بڑھاتے رہے