’’وہ چشم ہی کیا جو نم نہ ہو‘‘ افسانوں کے مجموعہ پر تاثراتی مضمون

خیرالنساء علیم
مختصر افسانے کی شروعات اٹھارویں صدی کے آخر اور انیسویں صدی کے آغاز سے ہوئی ۔ عصر حاضر ، مختصر افسانوں کا دور کہلایا جاسکتا ہے ۔ ملک بھر میں بے شمار افسانہ نگار مختصر افسانہ نگاری میں اپنے فن کے جوہر دکھلا رہے ہیں جن میں ایک اہم مقام خیرالنساء علیم صاحبہ کا بھی ہے ۔ جنہوں نے بہت جلد افسانہ نگاری میں اپنی ایک جداگانہ پہچان بنالی ہے۔ پچھلے چند برسوں سے ان کے افسانے حیدرآباد کے نامور روزناموں کی زینت بنتے رہے ہیں ۔ ریاست تلنگانہ و بیرون ریاست کے ماہناموں میں بھی مصنفہ کے مضامین ، افسانے چھپتے رہتے ہیں ۔
سال 2012 ء میں ’’وہ چشم ہی کیا جو نم نہ ہو‘‘ مصنفہ کا پہلا افسانوں کا مجموعہ منظر عام پر آکر مقبولیت حاصل کرچکا ہے ۔ اس مجموعہ میں 25 افسانے شامل ہیں۔ مختصر افسانے کے متعلق یہ بات کہی جاتی ہے کہ ان افسانوں میں زندگی کی کسی ایک جھلک کو پیش کیا جاتا ہے لیکن خیرالنساء علیم نے مختصر سے مختصر افسانوں میں بھی زندگی کے کئی واقعات اور حادثات کو بہ حسن و خوبی پیش کر کے قارئین سے داد و تحسین حاصل کرچکی ہیں ۔ مصنفہ کے افسانے ، مختصر افسانوں کی عمدہ مثال کہے جاسکتے ہیں ۔ خیر النساء علیم نے جب نثر نگاری کی طرف توجہ دی تو انہوں نے نثری کوششوں میں افسانے کو اپنے اظہار خیال کا ذریعہ بنایا ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنا پہلا افسانوی مجموعہ ’’ وہ چشم ہی کیا جو نم نہ ہو ‘‘ کی اشاعت عمل میں لاکر قارئین کے مطالعہ کے شوق کی تکمیل کی بھرپور کوشش کی ہے ۔ وہ بنیادی طور پر افسانوی مزاج کی حامل نثر نگار ہیں۔ انہوں نے اپنے دل میں جس درد کو پروان چڑھایا ہے، جو اخلاقی اور مذہبی اعتبار سے انسانیت دوستی کے اظہار کا ذریعہ بن جاتا ہے ۔ ہمدردی ، بھائی چارگی ، خلوص ، انسان دوستی… انسان کامل‘‘ کا درجہ حاصل کرلیتا ہے ۔ افسانہ نگار کی حیثیت سے خیرالنساء علیم کو زبان پر پوری دسترس حاصل ہے ۔
’’وہ چشم ہی کیا جو نم نہ ہو‘‘ کے افسانوں میں ’’دیپ جلاکر کیا اندھیرا‘‘ دستک ندامت درد دل پر‘‘ ’’میری آرزوئے زیست نم ہو‘‘ ہم سفر تھا جو … ہم نوا نہ ہوا‘‘ اس مجموعہ کے یہ افسانے شاہکار افسانے کہے جاسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ دیگر افسانے بھی زبان و بیان کے لحاظ سے اچھوتے اور دلچسپ ہیں۔ ان افسانوں میں لفظوں کی چاشنی ، جملوں کی بندش، سادے اور سہل انداز بیان سے قاری کی دلچسپی برقرار رہتی ہے ۔ ان افسانوں میں جدیدیت بھی ہے اور مشرقی روایات کا رنگ بھی نظر آتا ہے ۔ بہترین کردار نگاری ، برجستہ مکالمے، دلفریب منظر نگاری بڑے ہی عمدہ انداز میں پیش کیا گیا ہے ۔ چند افسانوں کے اقتباسات پیش خدمت ہیں۔
(1) ’’وہ لمحہ ! وہ پل … اسے صدیوں کا سکون بخشتا ہے ‘’ اس افسانے میں ’’ شائزہ نے درد دل کو سہہ لیا لیکن کسی کو محسوس ہونے نہ دیا۔ کچھ پانے کیلئے کچھ کھونا تو ضروری تھا ہی ۔ صبر و ضبط اس کا یقین بن چکا تھا۔ یہ درد شائزہ نے خود اپنا دائمی سکون دے کر اپنایا تھا ۔ سو جیسے وہ دھواں دیتی ہوئی کچی سلگتی لکڑی کی طرح زندگی سے جوج رہی تھی ۔ پر اکثر وہ ایک لمحہ ! ایک پل !! اسے صدیوں کا سکون بخش دیتا … جب اسے خیال آتا کہ اس کی بیٹیاں … اپنی زندگیوں میں مسرت آمیز لمحوں سے ہمکنار ہیں!!
پورا افسانہ ، افسانہ نگار خیرالنساء علیم کے درد دل اور ندرت خیال کی عکاسی کر رہا ہے کہ کس طرح ایک ماں اپنے صبر و ضبط کا امتحان دیتے ہوئے اپنی اولاد کی خوشحال زندگی کے لئے ہر پل ، پل صراط سے گزرتی ہے … بے شک ماں کی قربانیوں کا کوئی مول نہیں۔
(2) ’’فاسلے سمٹ گئے منزلوں کو پاکے‘‘ ’’ہاں بابا ! میں آگے اس پہاڑی پر اپنی ہی دھن میں جارہی تھی اور ایک بہت بڑے حادثے کا شکار ہونے سے بچ گئی ۔ آگے بہت بڑی کھائی تھی ۔ پتھر پر بیٹھے اس شخص نے پکار کر مجھے آگے بڑھنے سے روک دیا۔ لیکن ہمدردی کے ناطے ہی وہ ا ٹھ کر مجھ تک آنا گوارا نہ کیا ۔ اس کی یہ بداخلاقی مجھے بہت تکلیف پہنچائی ہے‘‘۔
’’بی بی ! اس میں اس کا کوئی قصور نہیں ۔ وہ دونوں پیروں سے معذور ہے۔ وہ نہیں چاہتا کہ کوئی اس کی بیساکھیوں کو دیکھے اور اس پر رحم بھری نظر ڈالے ‘‘۔

’’کیوں بابا ! اس کے ساتھ ایسا کیا حادثہ ہوا ؟ کیا آپ جانتے ہیں ؟ ‘’
’’ہاں بی بی ! جانتا ہوں ۔ آج سے تقریباً 5 سال پہلے وہ اپنے دوستوں کے ساتھ اوٹی گھومنے آیا تھا ۔ وہ سامنے والی ہوٹل میں ٹھہرا تھا ۔ ایک دن اچانک رات کے وقت ہوٹل میں آگ لگ گئی ۔ سب لوگ افراتفری میں ادھر ادھر بھاگنے لگے ۔ وہ بھی تقریبا ً ہوٹل سے باہر آچکا تھا ۔ اچانک ایک میاں بیوی پر نظر پڑی جو بے تحاشہ اپنی بیٹی کو پکار رہے تھے ۔ گڑبڑ میں کوئی ان کی پکار سننے والا نہ تھا ۔ سب کو اپنی جانوں کی پڑی تھی لیکن اس شخص نے بغیر ایک لمحہ ضائع کئے آگ میں کود گیا ۔ بچی تیسری منزل کے کمرے میں تھی ۔ وہاں تک ابھی آگ کے شعلے نہیں پہنچے تھے ۔ وہ بچی کو گود میں اٹھاکر باہر کی طرف لپکا لیکن اتنی دیر میں چوطرف آگ کی لپٹوں میں گھر گیا ۔ نیچے فائر بریگیڈ کے لوگ حال تانے کھڑے تھے اور مائک سے پکار کر کہہ رہے تھے کہ بچی کے ساتھ جالی پر کود جاؤ۔ لیکن اس نے صرف بچی کو بڑی احتیاط کے ساتھ نیچے جالی پر پھینکا اور خود کود نے ہی والا تھا کہ اوپر سے جلتی ہوئی لکڑی اس کے اوپر گری اور وہ لڑکھڑا کر وہیں ڈھیر ہوگیا۔ بڑی مشکلوں سے آگ پر قابو پایا گیا ۔ اس شخص کو دواخانہ میں شریک کردیا گیا ۔ کئی دنوں تک اس کا علاج ہوتا رہا ، وہ صحت مند تو ہوگیا ۔ مگر اپنے دونوں پیروں سے معذور ہوگیا۔ لوگوں سے معلوم ہوا کہ وہ بے ماں باپ کا بچہ یتیم خانے میں پرورش پایا ہے ۔ ذہین ہونے کی وجہ سے سرکاری خرچ پر تعلیم دلائی گئی اور وہ سیول انجنیئر بن گیا ۔ بدقسمتی تو دیکھو … اب وہ چلنے پھرنے سے معذور ہے ۔ گزر اوقات کے لئے اپنی شاعری دوسروں کو فروخت کرتا ہے ۔ لوگ اس کے ناول و اشعار اپنے نام سے چھپواتے ہیں اور اپنا نام کماتے ہیں ‘‘۔
واپس ہونے سے پہلے میں اس کے کاٹیج گئی ۔ وہ گھر پر ہی تھا ۔ مجھے دیکھ کر مسکرایا … ’’بہت اچھا کیا جو آگئیں … کب جارہی ہو ؟ ‘‘
’’کل ‘‘ میں نے مختصراً کہا ۔ اس نے کاغذ پر اپنا پتہ لکھا اور مجھے تھما دیا ۔ ’’ ایڈریس ہے میرا … میرے خطوں کے جواب ضرور دینا‘‘ ۔
’’آپ لکھیں گے مجھے خط … اپنے اشعار بھی لکھئے گا … آپ کے اشعار بہت اچھے ہوتے ہیں۔ بالکل آپ کی طرح ‘‘ ۔ بے ساختہ میرے منہ سے نکل گیا ۔ اس کے چہرے پر ایک زخمی مسکراہٹ تھی ۔ میرا دل تڑپ اٹھا ۔ کاش میں اس کی زخمی مسکراہٹ کو مسرت بھرے قہقہہ میں بدل سکتی ۔ کاش میں اس کی معذوری کو دور کرسکتی ۔ کاش اس کے احساس کمتری کو ہمیشہ کیلئے ختم کرسکتی۔ اس لمحہ مجھے احساس ہوا کہ انسان کتنا بے بس ، عاجز اور کمتر ہے ۔ کوئی بات بھی تو اس کے اختیار میں نہیں ۔ میں نے اپنے خیالات سے پیچھا چھڑانے کی خاطر پرس سے قلم کاغذ نکالا اور اپنے ہاسٹل کا پتہ لکھ کر اسے دے دیا ‘‘۔ (اقتباس ختم)

خوبصورت لفظوں کا استعمال خیرالنساء علیم خوب جانتی ہیں۔ اسی سبب ان کے افسانے قاری کی دلچسپی کا باعث بنتے ہیں۔ ان کے افسانوں کی خوبی ان کا شائستہ اسلوب ، دلنشین الفاظ ، خوبصورت منظر نگاری اور جاندار مکالمے ہیں ۔ ان کا افسانوں کا مجموعہ ’’وہ چشم ہی کیا جو نم نہ ہو ‘‘ ایک دلچسپ اور کامیاب افسانوی مجموعہ ہے ۔ پروفیسر مجید بیدار یوں رقمطراز ہیں ۔
’’خیرالنساء علیم نے اپنے افسانوں میں کہانی پن کو شامل کرنے کے ساتھ ساتھ انشایئے کی خصوصیت کو بھی جذب کر کے اپنی نثر کو نئے تجربوں سے ہم آہنگ کردیا ہے جس سے قاری کو کسی قسم کی بے ربطی کا احساس نہیں ہوتا اور نہ ہی افسانے میں کسی قسم کے تسلسل کی کمی محسوس کی جاسکتی ہے ۔ یہی وہ بنیادی نکتہ ہے جو خیرالنساء علیم کے افسانوں کو دوسرے افسانہ نگاروں کے انداز سے منفرد رویہ کا علم بردار بنادیتا ہے ۔ وہ شدت کے ساتھ اظہار کی بوقلمونی کو نمایاں کرنے میں پوری طرح کامیاب ہیں ۔ ان کی تحریروں میں عصری حیثیت کی گونج سنائی دیتی ہے ۔ وہ ایک حقیقت پسند افسانہ نگار ہیں اور اپنی حقیقت پسندی کے ذریعہ معاشرے کو ادب و شائستگی کا لائحہ عمل دینا چاہتی ہیں جس کے تحت ان کے افسانوں میں مقصدیت کا در آنا ایک فطری بات ہے ۔ غرض خیرالنساء علیم نے افسانہ نگاری کے توسط سے اپنے فن اور تخلیقی ادب کی نشاندہی کی ہے ۔ ان کی تخلیقی صلاحیت بے حد مستحکم ہے ۔ کہیں بھی افسانہ نگاری کے دوران وہ نہ تو فن سے دوری احتیار کرتی ہیں اور نہ ہی فن سے بے نیازی کو ضروری سمجھتی ہیں۔ یہی خوبی انہیں افسانہ نگاری کے میدان میں انفرادیت عطا کرتی ہے ۔ تخلیق کے جن گوشوں کو خیرالنساء علیم نے اپنے فن کے اظہار کا ذریعہ بنایا ہے ، اس سے خود اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں اردو سے دلچسپی ہی نہیں بلکہ اردو افسانے کی روایت سے بھی خصوصی لگاؤ ہے اور اردو کے قاری کو ان افسانوں کے مطالعہ سے جہاں جذباتی تسکین حاصل ہوتی ہے ، وہیں فکر کو ایک نیا رخ دینے کا سلیقہ بھی حاصل ہوتا ہے۔ اس لئے خیرالنساء علیم کے افسانوں کا استقبال کیا جانا چاہئے ۔
’’وہ چشم ہی کیا جو نم نہ ہو ‘‘ افسانوں کے مجموعہ پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر فریدہ زین نے اپنے خیالات کا یوں اظہار کیا ہے۔ لکھتی ہیں …
’’خیرالنساء علیم نے زندگی کی وہ کھری سچائیوں کو پیش کیا ہے جو آج کے معاشرے کا المیہ ہے ۔ ان کے افسانوں کا محور عورت ہے جو ا پنے جذبات و احساسات ، اپنی خواہشات ، اپنی تمنائیں سبھی کچھ اپنے فرائض پر اپنی ذمہ داریوں پر قربان کردیتی ہے ۔ ا س کے ساتھ ساتھ ان کے افسانوں میں پیار و محبت کی گلفشانیاں بھی ہیں ۔ ہجر کی نا آسودگیاں بھی … وصل کی تابناکیاں بھی… ایثار و وفا کی درد انگیزیاں بھی اور حالات کی ستم ظریفیاں بھی… انہوں نے عورت کے جذبات کا گہرائی سے مشاہدہ کیا ہے اور اس کے اظہار کے لئے الگ الگ پیکر تراشے ہیں۔ کہیں وہ فرمانبردار بیٹی ہے … کہیں بے پناہ چاہنے والی بہن … کہیں جانثار بیوی ، اور کہیں ممتا کی مورت ۔

خیرالنساء علیم نے جہاں عورت کی لطیف جذبات کی عکاسی کی ہے وہیں مرد کے جارحانہ انداز اور اس کی انا کا بھی جائزہ لیا ہے ۔ وہ عورت میں ہمت اور انقلاب کی حامی نظر آتی ہیں۔ خودکشی اور طلاق جیسی باتوں کو وہ عورت کی بزدلی سے تعبیر کرتی ہیں ۔ ’’دیپ جلاکر کیا اندھیرا ‘‘ ان ہی احساسات کو پیش کرتا ہے ۔ ایک جگہ مصنفہ خود یوں ر قمطراز ہیں۔ ’’خدا نے تو عورت کو مرد کی پسلی سے تخلیق کیا تھا ، تلوے سے نہیں ۔ پھر یہ میری شخصیت کو پیروں تلے کیوں روندنا چاہتا ہے ‘‘۔ ایسے ہی مکالمہ نگاری سے قاری اثر پذ یر ہوتا ہے ۔ ایک اور افسانے کا اقتباس ’’یہ کس نے درد و کرب کو حاصل زیست بنادیا‘‘ ۔ اس افسا نے میں خیرالنساء نے سماج کے سلگتے موضوع پر قلم اٹھایا ہے ۔ ماں باپ کی دوسری شادی کبھی کبھی اولاد کے حق میں سم قاتل ہو جاتی ہے ۔ شائد اس لئے کہ رشتوں میں شراکت کوئی پسند نہیں کرتا ۔ ’’میجر جب سارہ کے گلے میں بانہیں ڈال کر اس کی دوری کو برداشت نہ کرنے کا احساس دلاتا ہے تو سارہ کو اپنی ننھی بچی کا خیال آتا ہے ۔ تب میجر کی زبان سے نکلا جملہ ’’وہ اپنی نانی اماں کے پاس رہے گی ‘‘ ۔ افسانہ درد کی ایک لکیر چھوڑ جاتا ہے ۔ جہاں سات سالہ معصوم بچی اپنی ماں کو کھو دیتی ہے ۔ خیرالنساء علیم نے اس افسانے میں عورت کے سچے جذبات کو بڑی خوبی سے پیش کیا ہے ۔ یہ ایک شاہکار افسانہ ہے ۔ ’’اور پھر سحر ہوئی ‘‘ اس افسانے میں دیار غیر میں جا کر برسوں اپنے گھر سے دور رہنے والوں کی داستان الم پیش کی گئی ہے ۔ ’’نورین اور علی حیدر کی داستان جانے کتنے گھروں کی داستان ہے ۔ جہاں تلاش معاش میں شوہر کمربستہ ہوکر دیار غیر کی راہ لیتا ہے اور بیوی ہجر کے صدمے سہتی بچوں کی پرورش اور تربیت میں اپنی امنگوں کی راتوں کو قربان کرتی ہے ۔ اس کا احساس اس وقت ہوتا ہے ، اب بقول کہانی کار … ’’اچانک ہی علی کی نگاہیں نورین کے بالوں پر ٹھہر گئیں ۔ جہاں چاندی کے چند تار چمک کر بہت سے گزرے وقت کی یاد دلا رہے تھے ‘‘۔ ’’ہمارے معاشرے میں ایسے کئی علی اور نورین ہوں گے جو بچوں کے مستقبل کے لئے ا پنی خواہشوں اور عمر رواں کے تقاضوں کو بھول کر ر زندگی کی تگ ودو میں لگ جاتے ہیں‘‘۔ تبصرہ و اقتباس ختم ہوا۔
بہرحال خیر النساء علیم عصر حاضر کے افسانہ نگاروں میں اپنی پہچان بنانے میں کامیابی حاصل کرچکی ہیں ۔ انہوں نے اپنے افسانوں کے ذریعہ بہت سے قارئین کو اپنا مداح بنالیا ہے ۔ مجھے ’’وہ چشم ہی کیا جو نم نہ ہو‘‘ کے سبھی افسانے پسند آئے۔ یہی وجہ ہے کہ میں ان کے افسانوں کو اکثر اپنے زیر مطالعہ رکھتی ہوں۔ تب کہیں جاکر میں ان کی افسانہ نگاری پر قلم اٹھانے کی جراء ت کر رہی ہوں۔ ان کے افسانے پڑھنے کے بعد ہمیں ان کی شخصیت کا پتہ چلتا ہے کہ وہ ایک حساس اور دردمند دل کی فنکار ہیں ۔ دنیا کی ہر خوشی اور ہر غم کو وہ اپنے افسانوں میں اس طرح شامل کرتی ہیں کہ جس کے مطالعہ کے بعد قاری یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ ’’یہ تو میرے دل میں بھی ہے ‘‘۔
خیرالنساء علیم کا انداز بیان سیدھا سادہ اور زبان بے حد متاثر کن ہے ۔ ان کے کردار آپ کے اور ہمارے درمیان ہی گھومتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ ’’محبت‘’ ان کی کہانیوں کا موضوع ہے ۔ انہوں نے رشتوں کے تقدس ، اعتماد اور یقین کو کہیں مجروح ہونے نہیں دیا ۔ ان کا افسانوی مجموعہ ’’وہ چشم ہی کیا جو نم نہ ہو‘‘ کا اس لئے بھی استقبال کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اظہار کی قوت کو رائیگاں ہونے نہیں دیا ۔ ان کا طرز اسلوب درحقیقت مستقبل میں ان کی رہنمائی کرے گا۔ توقع ہے کہ وہ آنے والے زمانوں میں اپنے منفرد اسلوب کی وجہ سے اپنی ایک الگ پہچان بنانے میں کامیابی حاصل کرسکتی ہیں ۔ میری نیک خواہشات و توقعات ان سے ہی نہیں بلکہ ان کے فن سے بھی وابستہ ہیں ۔ وہ اپنے تخلیقی سفر کا سلسلہ یوں ہی جاری رکھتے ہوئے اردو کی خدمت کا بوجھ اپنے کاندھوں پر لئے ہوئے آنے والی نسلوں کی آبیاری کا کام انجام دیتی رہیں گی۔