وہ وجوہات جاننا چاہتی ہیں یہاں دس وجوہات ہیں

پی چدمبرم

ہماری وزیر دفاع نرملا سیتا رامن ایک بھولی بھالی خاتون ہیں، 3 ستمبر 2017 کو وزیر دفاع کا جائزہ حاصل کرنے سے قبل رافیل معاملہ میں کیا ہوا ؟ کیا کہا گیااس بارے میں انہیں کچھ نہیں معلوم یا وہ کچھ بھی نہیں جانتی۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنی روز مرہ کی مصروفیات یا پروگرامس کے شیڈول کے بارے میں بھی نہیں جانتی۔
حکومت ہند اور حکومت فرانس کے درمیان رافیل لڑاکا طیاروں کی جو معاملت ہوئی اس کا ہمارے وزیر اعظم نے پیرس میں 10 اپریل 2015 کو اعلان کیا اور پھر 23 ستمبر 2016 کو اُس معاہدہ پر دستخطیں ثبت کی گئیں۔ رافیل لڑاکا طیاروں کی خریدی سے متعلق جو معاملت ہوئی اس پر حالیہ عرصہ کے دوران زبردست تنازعہ پیدا ہوگیا۔ اپوزیشن جماعتوں نے اس سارے معاملہ کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کردیا جس پر وزیر دفاع نے پرزور انداز میں کہہ دیا کہ ’’مجھے تحقیقات کا حکم کیوں دینا چاہیئے ‘‘ شک کا فائدہ دیتے ہوئے جو ہم ہمیشہ بے قصور افراد کو دیتے رہے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ وزیر دفاع کو صرف وجوہات سے واقف کروانا ہی منصفانہ ہوگا۔ ذیل میں دس وجوہات دی جارہی ہیں جس کی بنیاد پر اپوزیشن رافیل معاملت پر شکوک و شبہات کا اظہار کررہی ہے اور فرانس کے ساتھ طئے پائی اس معاملت میں کرپشن اور اقرباء پروری کے الزامات عائد کررہی ہے۔

1 ۔ ہندوستان اور فرانس کی حکومتوں نے ایک یادداشت مفاہمت پر دستخط کئے جس کے تحت ہندوستان نے دو انجنی اور حالت جنگ میں کئی کردار ادا کرنے والے 126 رافیل لڑاکا طیارے خریدنے کا اعلان کیا۔ اس کیلئے 12 ڈسمبر 2012 کو عالمی بولی کے ذریعہ قیمتوں کا جو تعین کیا گیا فی طیارہ 526.10 کروڑ روپئے کی قیمت منظر عام پر آئی۔ یادداشت مفاہمت میں یہ بھی طئے کیا گیا کہ لڑاکا رافیل طیارے تیار کرنے والی ڈسالٹ ایوی ایشن ہندوستان کو 18 تیار شدہ طیارے سربراہ کرے گی یعنی پرواز کے قابل طیاروں کی سربراہی سے ڈسالٹ نے اتفاق کیا اور مابقی 108 لڑاکا طیارے ہندوستان میں تیار کئے جائیں گے اور ان کی تیاری ہندوستان ایروناٹکس لمیٹیڈ بنگلور میں واقع اپنی سہولت سے عمل میں لائے گی اور اس کے لئے ڈسالٹ ٹکنالوجی کا استعمال کیا جائے گا جو ٹکنالوجی منتقلی سے متعلق ایک معاہدہ کے تحت دستیاب رہے گی۔ لیکن اس یادداشت مفاہمت کو منسوخ کردیا گیا اور وزیر اعظم نے 10اپریل 2015 کو ایک نئی معاملت کا اعلان کیا۔ ایسے میں کیا وزیر دفاع ہمیں یہ بتائیں گی کہ آخر پہلے طئے پائے یادداشت مفاہمت کو کیوں منسوخ کیا گیا اور ایک نیا معاہدہ کیوں کیا گیا؟۔

2 ۔ نئے معاہدہ کے تحت ہندوستان نے کتنی قیمت پر 36رافیل لڑاکا طیارے خریدنے کا اعلان کیا جس کا انکشاف ہی نہیں کیا گیا۔ یعنی حکومت ہند نے ہندوستانی عوام اور اپوزیشن کو یہ بتانے کی زحمت گوارا نہیں کی کہ اُس نے طیاروں کی قیمت کیا مقرر کی ہے۔ ہندوستانی فضائیہ نے کہا تھا کہ اُسے لڑاکا طیاروں کے 42 اسکواڈرنس کی ضرورت ہے اب اس کے پاس 31 اسکواڈرنس ہیں۔ حکومت نے آخر صرف 36 لڑاکا طیارے ( 2 اسکواڈرنس ) خریدنے کا فیصلہ کیا جب کہ ہمیں 126 لڑاکا طیاروں ( 7 اسکواڈرنس ) یا اس سے زائد کی ضرورت ہے۔
3 ۔ تمام زاویوں اور حساب کتاب سے دیکھا جائے تو حکومت وہی لڑاکا طیارے اُسی طیارہ ساز کمپنی اور اسی صلاحیت کے حامل طیاروں کی خریدی کررہی ہے۔ 10 اپریل 2015 کو حکومت ہند اور حکومت فرانس کی جانب سے جاری کردہ مشترکہ بیان میں جو جملہ ہے اس میں مذکورہ نکات ہی بیان کئے گئے ہیں۔ ایسے میں کیا یہ سچ ہے کہ نئے معاہدہ کے تحت لڑاکا طیاروں کی قیمت فی طیارہ 1670 کروڑ روپئے ہے ( جیسا کہ ڈسالٹ ایوی ایشن نے انکشاف کیا ہے) اور اگر یہ سچ ہے تو ان لڑاکا طیاروں کی قیمتوں میں تین گنا اضافہ آیا منصفانہ ہے ؟ ۔
4 ۔ اگر نئے معاہدہ کے تحت رافیل لڑاکا طیارہ کی قیمت حقیقت میں بہت ’’ ارزاں ‘‘ ہے 9 فیصد تک جیسا کہ حکومت نے دعویٰ کیا ہے تو پھر حکومت ہند ڈسالٹ کی پیشکش کے مطابق 126 لڑاکا طیارے خریدنے کی بجائے صرف 36 طیارے کیوں خرید رہی ہے۔

5 ۔ نئے معاہدہ کو ’’ ہنگامی خریدی ‘‘ کی حیثیت سے پیش کیا گیا اگر پہلے طیارے کی ڈیلیوری صرف ستمبر 2019 میں ہوگی( معاہدہ کے چار سال بعد ) اور آخری طیارہ 2022 میں ڈیلیور کیا جائے گا تو پھر اسے کس طرح اور کیسے ’’ ہنگامی خریدی ‘‘ کہا جاسکتا ہے۔
6 ۔ ہندوستان ایروناٹکس لمیٹیڈ کو طیارہ سازی کے شعبہ میں 77برسوں کا وسیع تر تجربہ ہے اور اُس نے متعلقہ طیارہ ساز کمپنی کے لائسنس کے تحت کئی ایک قسم کے طیارے تیار کئے ہیں لیکن جب معاہدہ کیا گیا اس میں ڈسالٹ سے HAL کو ٹکنالوجی کی منتقلی کا کوئی جواز نہیں دیا گیا۔ ان حالات میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر HAL کو ٹکنالوجی کی منتقلی کا معاہدہ کیوں برخواست کیا گیا۔
7 ۔ ہندوستان کی جانب سے کی گئی ہر دفاعی خریداری پر offset ذمہ داریاں فروخت کندہ پر نافذ کی جاتی ہیں لیکن ڈسالٹ ایوی ایشن نے اس بات کا اعتراف کیا کہ 36 لڑاکا طیاروں کی فروخت کی معاملت میں وہ 30 ہزار کروڑ کی آفسیٹ ذمہ داریاں نبھائے گا یا برداشت کرے گا۔ جہاں تک ہندوستان ایروناٹکس لمیٹیڈ کا سوال ہے یہ ایک سرکاری شعبہ کا ادارہ ہے اور اس نے 3 مارچ 2014 کو ڈسالٹ ایوی ایشن کے ساتھ Work Share ( کام کی تقسیم ) معاہدہ پر دستخط کئے ہیں اور اس کے آفسیٹ پارٹنر یعنی ہندوستان میں اس کے طیاروں کی تیاری کے عمل میں ایک شراکت دار کی حیثیت حاصل کی۔ فرانس کے سابق صدر مسٹر فرانکو ئی الاند نے انکشاف کیا کہ حکومت ہند نے خود ایک خانگی کمپنی کا نام ہندوستان میں ڈسالٹ ایوی ایشن کی آفسیٹ پارٹنر کے طور پر پیش کیا اور اس کمپنی کو آفسیٹ پارٹنر بنانے پر اصرار کیا جس پر فرانسیسی حکومت اور ڈسالٹ کے پاس حکومت ہند کی تجویز کو قبول کرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں رہا۔ اس کے برعکس حکومت ہند نے اس بات سے انکار کردیا کہ اس نے آفسیٹ پارٹنر کی حیثیت سے کسی بھی کمپنی یا ادارہ کا نام پیش نہیں کیا اگر اس نے ایسا نہیں کیا تو پھر HAL کا نام ڈسالٹ کے آفسیٹ پارٹنر کی حیثیت سے کیوں پیش نہیں کیا؟
8 ۔ فرانسیسی وزیر دفاع مس فلورنس پارلی نے 27 اکٹوبر 2017کو اپنی ہندوستانی ہم منصب سے نئی دہلی میں ملاقات کی اس دن مس پارلی بذریعہ طیارہ ناگپور پہنچی اور ایک تقریب میں شرکت کی جس میں مرکزی وزیر مسٹر نتن گڈکری ، چیف منسٹر مہاراشٹرا مسٹر فرنویس اور فرانسیسی سفیر متعینہ ہندوستان موجود تھے۔ تقریب دراصل ناگپور کے قریب میہان میں خانگی کمپنی کی فیکٹری کا سنگ بنیاد رکھنے منعقد ہوئی تھی۔ جہاں ہندوستان میں ڈسالٹ ٹکنالوجی کے ذریعہ طیاروں کی تیاری عمل میں آئے گی۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وزیر دفاع کو اس پروگرام کے بارے میں کوئی واقفیت نہیں تھی جبکہ کچھ گھنٹے قبل ان کی فرانسیسی وزیر دفاع سے ملاقات ہوچکی تھی اگر معاملہ ایسا بھی نہیں ہے تو کیا انہوں نے دوسرے دن اس تعلق سے اخبارات میں نہیں پڑھا؟۔

9 ۔ ڈسالٹ اور خانگی شعبہ کے آفسیٹ پارٹنر نے اکٹوبر 2016 میں ایک صحافتی اعلامیہ کے ذریعہ اپنے مشترکہ وینچر کا انکشاف کیا جو آفسیٹ ذمہ داریوں پر عمل آوری میں ایک کلیدی عنصر کا کردار ادا کرے گا۔ ان حالات میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وزیر دفاع نے اس وقت سچ بولا تھا جب انہوں نے کہا تھا کہ انہیں اس امر کا کوئی علم نہیں کہ ڈسالٹ نے خانگی کمپنی کا اپنے آفسیٹ پارٹنر کی حیثیت سے انتخاب کیا ہے۔
10 ۔ جہاں تک ہندوستان ایروناٹکس لمیٹیڈ کا سوال ہے وہ راکٹس کے تحت مگ و میراج اور سکھوئی کی تیاری کا ریکارڈ رکھتی ہے۔ یہاں تک کہ اُس نے اپنے دو تیجا لڑاکا طیارے بھی بنائے ہیں۔ HAL، 64 ہزار کروڑ روپئے مالیتی اثاثوں کی مالک ہے۔ سال 2017-18 میں اس کا ٹرن اوور یا کاروبار 18283 کروڑ روپئے رہا اور منافع 3322 کروڑ روپئے رہا۔ اپنے ایک حالیہ بیان میں وزیر دفاع نے مسٹر ٹی ایس راجو سابق سی ایم ڈی ہندوستان ایروناٹکس لمیٹیڈ کے بیان کے متضاد بیان دیا اور HAL کے خلاف توہین آمیز ریمارکس کئے۔ ایسے میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ حکومت کی جانب سے HAL کو خانگیانے یا اسے بند کرنے کا ارادہ تو نہیں۔