کے ایس بھگوان
مذہبی بنیاد پرستی اور بدمعاشی سارے ہندوستان میں تشویشناک رفتار سے پھیل رہی ہے ۔ 2014 کے لوک سبھا انتخابات کے بعد سے ایک مذہب کی بالادستی کے احساس میں اضافہ ہوگیا ہے ۔
اس تباہ کن احساس کا نتیجہ ہے کہ نریندر دھابولکر ‘ گوند پنسارے ‘ ایم ایم کلبرگی اور گوری لنکیش جیسے معقولیت پسند افراد کو ہلاک کردیا گیا ۔ ان میں سے کسی نے کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی تھی ۔ نہ دستور کے خلاف ورزی کی تھی ۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے کوشش کی تھی کہ جمہوریت کا تحفظ ہوسکے اور اپنے کام کے ذریعہ سماجی شعور بیدار کیا جاسکے ۔ تاہم جاہل اور تنگ نظر افراد نے ان کا قتل کردیا جو اپنے مذہب کے اسباق کو غلط سمجھتے ہیں۔
میں گذشتہ چار دہوں سے کتابیں شائع کر رہا ہوں اور تحریر کر رہا ہوں۔ تقاریر کر رہا ہوں اور عوامی تحریکوں کا حصہ بن رہا ہوں اور ایسا کرنا میں اپنا فرض سمجھتا ہوں۔ دستور ہند میں کہا گیا ہے کہ ’’ یہ یہ ہر شخص کا فرض ہے کہ وہ معقولیت پسندی کو ‘ اصلاحات کو اور انسانیت کو فروغ دے‘‘ ۔ میں دستور کی ہدایت کے مطابق کام کرتا ہوں۔
1982 میں میں نے اپنی کتاب ’’ شنکر آچاریہ اور ان کی رد عمل کی فلاسفی ‘‘ تحریر کی تھی اور کہا تھا کہ شنکر آچاریہ کی فلاسفی مخالف عوام ہے ۔ میں نے ان کے ناگرجنا کونڈہ کے دورہ کی تفصیل بیان کی تھی جہاں انہوں نے بدھسٹ یادگاروں کو تباہ کردیا تھا ۔ میں نے اس کتاب کے ذریعہ اپنے دشمن پیدا کرلئے ۔ میں نے انہیں میرے خلاف شواہد پیش کرنے کی دعوت دی تھی تاہم آج تک کوئی بھی آگے نہیں آیا ۔ یہ در اصل دانشوری کا فقدان ہے جس سے لوگوں کو صحیح سوچ رکھنے والوں کے قتل کیلئے اکسایا جاتا ہے ۔
میرے معاملہ میں بیجا الزامات عائد کئے گئے اور مجھے ہلاک کرنے کی دھمکیاں دی گئیں۔ یہ دھمکیاں دیڑھ سال قبل رکیں جب پولیس نے مداخلت کرکے مناسب کارروائی کی ۔ میں شکر گذار ہوں آنجہانی کے ایس پٹنیا کا جو سابق رکن اسمبلی اور کرناٹک اسٹیٹ کسان اسوسی ایشن کے صدر تھے ۔ انہوں نے دھمکیاں دینے والوں کو چیلنج کیا تھا کہ وہ مجھے ( پروفیسر کے ایس بھگوان کو ) ودھان سودھا لائیں گے ۔ دھمکیاں دینے والے وہاں آئیں اور مجھے ہلاک کرکے دکھائیں۔
دھمکیاں دینے والوں کا دعوی ہے کہ وہ ہندو مذہب کی حفاظت کرتے ہیں۔ انہیں اندازہ ہی نہیں ہے کہ ہندو مذہب ہے کیا ۔ وہ صرف مندروں کو جانے ‘ تہوار منانے اور پوجا کرنے کو ہندو مذہب سمجھتے ہیں۔ انہیں ہندو مذہب کی تفصیل نہیں معلوم ہے ۔ مذہب میں چار ورنا ہے ۔ برہمن ‘ کشتریہ ‘ ویشیا اور شودر ۔ برہمن ‘ کشتریہ اور ویشیا کو جو مراعات حاصل ہیں وہ شودر کو نہیں ہیں کیونکہ وہ غلام ہیں۔ یہ سب کچھ منو سمرتی میں تحریر ہے ۔ منو سمرتی کے بموجب شودر غلام ہیں اور عصمت فروش عورتوں کی اولاد ہیں اور وہ زمین نہیںرکھ سکتے ۔
منو سمرتی 185 قبل مسیح میں تحریر کی گئی تھی اور اگر نچلی ذات والے ‘ دلت اور قبائلی وغیرہ اب تک پسماندگی کی زندگی گذار رہے ہیں تو یہ سماج میں منوسمرتی کو ماننے کا نتیجہ ہے ۔ حیرت کی بات یہ ہے جب کچھ قائدین یہ دعوی کرتے ہیں کہ وہ ہندوستانی دستور کی جگہ منو سمرتی کو لاگو کرنا چاہتے ہیں تو تقریبا سارے ہندوستانی خاموش رہتے ہیں۔ کیا مشکل صورتحال ہے ۔ میں نے اس طرح کے بیانات کے خلاف عوامی فورمس میں تقاریر کی ہیں۔ در اصل ڈاکٹر امبیڈکر اور پیریار نے منوسمرتی کی کاپیاں نذر آتش بھی کی تھیں۔
بھگوت گیتا بھی منو سمرتی کی طرز پر ہی تحریر کی گئی تھی ۔ اس میں کرشنا کہتے ہیں کہ انہوں نے چار ورنا تخلیق کئے ہیں۔ کرشنا کے خیال میں بھی شودر ‘ خواتین اور ویشیا گناہ گار ہیں۔ شودر وں کو گناہ گار قرار دیتے ہوئے انہوں نے عزت کی زندگی کا موقع فراہم نہیں کیا۔ تاہم یہ شودروں کی سخت محنت کا نتیجہ ہے کہ ملک میں خوشحالی آئی ہے اور غذائی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے ۔ شودر گناہ گار نہیں خوش قسمت ہیں۔ جو اعلی ذات والے ہیں وہ در اصل مزدوروں کی محنت کا استحصال کرتے ہیں اور وہی گناہ گار ہیں۔
میں نے مذہب اور خداوں کے تعلق سے صرف عوام کو اس استحصال کے خلاف باشعور بنانے کیلئے لکھا ہے تاہم کچھ جاہل لوگ کتابیں پڑھنا بھی نہیں چاہتے اور برہمن وادی طاقتوں سے گمراہ ہوجاتے ہیں اور گوری لنکیش ‘ کلبرگی اور دوسروں کو قتل بھی کردیتے ہیں۔
اب یہ بھی سب کو معلوم ہے کہ مجھے بھی ہلاک کرنے کی سازش کی گئی تھی ۔ سازش کرنے والوں نے خصوصی تحقیقاتی ٹیم کے روبرو اس کا اعتراف بھی کیا ہے ۔ میرا استدلال یہ ہے کہ اگر لوگ جو جھوٹ بولنے کی ہمت رکھتے ہیں تو جو لوگ سچ بولتے ہیں وہ بھی کم ہمت نہیں ہیں۔ میں نے ہمیشہ وہی تحریر کیا ہے جو میں درست سمجھتا ہوں۔ کرناٹک حکومت نے میسورو میں میری قیامگاہ پر سکیوریٹی فراہم کی ہے ۔ سی سی ٹی وی کیمرے نصب کئے ہیں اور باڈی گارڈز بھی متعین کردئے ہیں۔ میں سابق چیف منسٹر سدارامیا کا اس کیلئے مشکور ہوں ۔ اس کے علاوہ موجودہ چیف منسٹر ایچ ڈی کمارا سوامی ‘ موجودہ وزیر داخلہ جی پرمیشور کا بھی شکر گذار ہوں کہ انہوں نے مجھے سکیوریٹی فراہم کی ہے ۔
گوری لنکیش کے قتل کے تقریبا دیڑھ ماہ قبل ایک ملزم نوین کمار عرف ہوتے مانجا نے میرے گھر کے اطراف کے حالات کا مشاہدہ کیا تھا ۔ اس نے اس کا اعتراف بھی کیا ہے ۔ چوبیس گھنٹے پولیس کی موجودگی کو دیکھتے ہوئے اس نے مجھے گولی مارنے کا منصوبہ ترک کردیا ۔ اگر پولیس کا تحفظ فراہم نہ ہوتا تو میں آج زندہ نہ ہوتا اور نہ یہ سطور تحریر کر پاتا ۔ نوین کی گرفتاری کے بعد اس کی تصویر اخبارات اور ٹی وی چینلوں پر پیش کی گئی ۔ جب میں میرے گھر کے قریب ایک ہوٹل میں کافی پینے گیا تو وہاں کے ملازمین نے کہا کہ نوین اکثر وہاں آیا کرتا تھا ۔ میں اس گھٹن والے ماحول سے آگے بڑھ کر ذہنی طور پر طاقتور ہوگیا ہوں۔ میں نے اپنی روزآنہ کی واک کے علاوہ گھر سے نکلنا ترک کردیا ہے اور پڑھنے لکھنے میں مشغول ہوں۔ میں نے والمیکی کی رامائن کا مطالعہ کیا ہے ۔ یہ کنڑ زبان میں اور دوسری ہندوستانی زبانوں میں مختلف ہے تاہم کہانیاں ملتی ہیں۔ کنڑ زبان میں کئی ذیلی کہانیوں کو حذف کردیا گیا ہے ۔ والمیکی رامائن ایک نظم تھی جو ورنا سسٹم کو اجاگر کرتی تھی ۔ عام خیال کے برعکس رام راجیہ سماجی انصاف پر مبنی نہیں تھا ۔ رام نے بھی ورنا نظام کا تحفظ کیا تھا ۔ میں نے اپنی کتاب میں اس کو تفصیل سے پیش کیا ہے اور اسی میں کہا ہے کہ ہمیں رام مندر کی ضرورت کیوں نہیں ہے ۔
رام جنم بھومی ۔ بابری مسجد مقدمہ حل نہیں ہوگا اگر دونوں میں سے کوئی ایک برادری کو متنازعہ اراضی نہ دیدی جائے ۔ اس کے نتیجہ میں خون خرابہ ہوسکتا ہے ۔ مناسب حل یہ ہوسکتا ہے کہ اس اراضی کو قومی جائیداد قرار دیتے ہوئے قانون سازی کردی جائے وہاں نادر پودوں کا باغ لگایا جائے یا دواخانہ بنایا جائے جس میں نہ صرف جسمانی عارضوں کا بلکہ ذات پات اور مذہب کی بیماریوں کا علاج بھی کیا جاسکے ۔
میں اپنے امکانی قاتلوں کو چیلنج کرتا ہوں کہ اگر وہ بزدل نہیں ہیں تو مجھے ودھان سودھا کے سامنے ہلاک کرنے کی تاریخ کا تعین کریں اور وہاں چیف منسٹر اور اعلی پولیس عہدیدار موجود ہوں۔ میں وہاں موت کا سامنا کرنے موجود رہوں گا ۔ اگر وہ کامیاب ہوجاتے ہیں تو پھر وہ ہیرو ہیں۔