مانا کنڈور 2 جنوری (سیاست ڈسٹرکٹ نیوز) آج سے پورے 30 سال قبل حیدرآباد کے ایک سرکاری سماجی بھلائی ہاسٹل میں رہتے ہوئے تعلیم حاصل کررہا تھا۔ وہاں مختلف مقامات کے غریب گھرانوں کے طلباء بھی میرے ساتھ ہی تھے۔ روزانہ صرف دو مرتبہ آدھا پیٹ کھانا نصیب ہوتا تھا۔ موٹے نرم چاول جس میں سفید کیڑے (سورسری)، کالے ڈھیرے ، کنکر بھی شامل رہتے تھے، اُنھیں چُن لینے، پھینکنے میں دس پندرہ منٹ لگتے تھے۔ چھوٹے برتن میں حساب سے کھانا ڈالا جاتا تھا جو آدھا پیٹ بھر پاتے تھے۔ کسی ایک دن بھی ہم نے شاید پیٹ بھر کھانا نہیں کھایا تھا۔ زیادہ بھوک لگنے پر کھانا مانگنے پر سر پر مار ہی پڑتی تھی۔ اس طرح روزانہ جہنم کے عذاب سے واقف کروانے کے لئے خالی گلاس برتن بجاتے ہوئے اسمبلی کا گھیراؤ کیا تھا۔ جب میں جماعت میں زیرتعلیم تھا، چیف منسٹر چناریڈی سے ملاقات کرکے صاف ستھرا پیٹ بھر کھانا دینے کی خواہش کی تھی۔ اس پر چناریڈی نے کہاکہ ……… انگلی برابر نہیں ہے۔ مجھ سے بات کرایا ہے۔ گرجتے برستے کا مظاہرہ کیا پھر بھی ہم خاوش اظہار نہ کرتے ہوئے بدل جاکر واقعات سے واقف کروایا تھا۔ اب ہاسٹلوں میں رہنے والے بچوں کو اُس طرح کا تجربہ نہیں ہوا ہے۔ باریک چاول صاف ستھرا دیا جارہا ہے۔ اس طرح سوپر فائن باریک چاول کے کھانے کی سربراہی ممکن نہیں ہے۔ کہا گیا ہماری حکومت نے اسے ممکن کر دکھایا۔ آج بچوں کو پیٹ بھر کھانا دیا جارہا ہے۔ آدھا پیٹ نہیں۔ طلباء و طالبات کی بہتری و بہبود کے تعلق سے کوئی سمجھوتی نہیں کیا جائے گا۔ کل کے ملک کے معمار ہیں۔ اس لئے ہاسٹلوں کے نگران کاروں کو ہدایت دی گئی ہے کہ بچے جتنا کھانا مانگیں پیٹ بھر کر دیں۔ تساہل ، غفلت پر وارڈن کے ساتھ سختی سے پیش آنے کا انتباہ دیا۔ حکومت نے عوام سے جو وعدہ کیا تھا آج پورا کیا جارہا ہے۔ جس کے بعد دیگر تمام وعدے پورے کریں گے۔ حضور آباد کے ہاسٹلوں میں مقیم بچوں کو وزیر نے اپنے ہاتھوں سے کھانا ڈال کر کھلادیا۔