وہ جنہوں نے کھیل ہی نہیں کھیلا وہی فاتح نکلے!

محمد مصطفی علی سروری
جون کی 23 تاریخ تھی ہفتہ کا دن تھا، تھائی لینڈ کے بچوں کی ایک فٹبال ٹیم نے اپنے کوچ کی نگرانی میں پریکٹس پوری کی جس کے بعد ان لوگوں نے اپنی ٹیم کے ایک ممبر کی سالگرہ منانے کیلئے اپنے ساتھ کچھ کھانے پینے کی چیزیں لیکر قریب میں موجود غار کا رُخ کیا۔ اپنی سائیکلیں باہر رکھ کر غار کے اندر آگے بڑھ گئے۔ ان 12 بچوں اور اُن کے کوچ کو خواب و خیال میں گمان نہیں آیا کہ جس غار میں وہ خود جارہے ہیں وہاں سے وہ خود باہر نہیں نکل پائیں گے، اور جس برتھ ڈے پارٹی میں وہ جارہے ہیں وہاں سے وہ لوگ دو ایک گھنٹے نہیں بلکہ دو ہفتوں تک پھنسے رہیں گے۔
غار کے باب الداخلہ پر ایک وارننگ لکھی تھی کہ بارش کے موسم میں اندر جانا خطرہ ہے۔ لیکن ان لوگوں نے اس وارننگ کو نظر انداز کردیا اور آگے بڑھتے چلے گئے۔ اب غار کے اندر ان لوگوں نے پارٹی منائی اور کیا کیا کسی کو نہیں معلوم، ہاں ہفتہ کے دن شام ہوجانے کے باوجود جب یہ 12 بچے اپنے گھروں کو واپس نہیں لوٹے تو ان بچوں کے سرپرستوں کو تشویش لاحق ہوئی اور وہ لوگ پولیس سے رجوع ہوئے، اب پولیس 12 بچوں اور ان کے کوچ کی تلاش میں سرگرم ہوئی اور ڈھونڈتے ڈھونڈتے غار کے باب الداخلہ تک پہنچ گئی وہاں رکھی بچوں کی سائیکلیں اس بات کا پتہ دے رہی تھیں کہ بچوںکی فٹ بال ٹیم غار کے اندر ہی گئی ہے۔ لیکن پولیس یہ دیکھ کر پریشان ہوگئی کہ جس غار کے دہانہ پر بچوں کی سائیکلیں ملی ہیں وہ غار تو پانی سے بھرگیا ہے۔ بچوں کی فٹبال ٹیم کے لاپتہ ہوجانے کی خبر آہستہ آہستہ پورے تھائی لینڈ اور وقت گذرنے کے ساتھ انٹر نیشنل خبررساں اداروں میں جگہ پانے لگی ۔ اب تو تھائی لینڈ کی فوج، ماہر غوطہ خوروں کی خدمات حاصل کی گئیں، صرف تھائی لینڈ سے نہیں دنیا بھر سے ماہر غوطہ خوروں کو طلب کیا گیا۔ بارش کے سبب غار میں پانی بڑھتا جارہا تھا اور ویسے ہی ان بچوں کے زندہ بچ رہنے کی اُمیدوں پر پانی پھررہا تھا۔ تقریباً 9 دن گذر گئے۔ فٹبال کی ٹیم کے یہ بچے کہاں ہیں کیسے ہیں، آیا زندہ بھی ہیں یا نہیں کسی کو نہیں پتہ۔ ہاں غار میں ہی تھوڑی دور جاکر ان بچوں کے جوتے مل گئے جس سے یہ یقین ہوگیا کہ بچے ضرور غار میں ہی ہوں گے چاہے جیسے بھی ہو۔ صرف تھائی لینڈ ہی نہیں بلکہ دیگر ملکوں سے بھی ماہر غوطہ خور ان بچوں کو ڈھونڈنے کے کام میں جُٹ گئے ۔ تھائی لینڈ سے 40 غوطہ خور تھے تو بیرون ملک سے 50 ماہر غوطہ خور غار میں بچوں کی تلاش کا کام کررہے تھے۔ برطانیہ سے تعلق رکھنے والے دو ماہر غوطہ خوروں کی ایک ٹیم نے بچوں کی گمشدگی کے نویں دن غار کے باب الداخلہ سے 400 میٹر کے فاصلے پر بالآخر 12 بچوں اور ان کے کوچ کو غار کے اندھیرے کونے میں ڈھونڈ نکالا۔ ( بحوالہ بی بی سی )
قارئین کرام ، یہ واقعی بڑے تعجب کی بات رہی کہ 9 دنوں تک غار کے اندھیرے کونے میں رہنے کے باوجودیہ لوگ زندہ تھے ۔ آج کے اس کالم میں ہم مسلمانوں کی مایوسی کے دلدل سے نکال باہر لانے کے لئے تھائی لینڈ کے ایک غار کے اندھیروں سے 9 دن بعد زندہ برآمد ہونے والے ان بچوں اور ان کے کوچ کی جدوجہد اور کوششوں کے متعلق بات کرنا چاہتے ہیں۔
بی بی سی کے مطابق ماہرین یہ سوچ کر حیران تھے کہ 9 دنوں تک ان لوگوں نے اپنے آپ کو زندہ رکھنے کیلئے کیا کیا پاپڑ بیلے ہوں گے۔سب سے اہم بات قارئین یہ تھی کہ فٹبال کی ٹیم کے ان بچوں کی عمریں 11 سال اور 16 سال کے درمیان تھی اور خود ان کے کوچ کی عمر 25 برس بتلائی گئی۔ اب ذرا سوچیئے کہ اتنے چھوٹے بچوں نے غار کے اندھیروں میں جہاں دن اور رات کے درمیان کوئی فرق نہیں سمجھ میں آتا 9 دن کیسے گذارے ہوں گے۔ آیئے اب وہ خاص باتیں جاننے کی کوشش کرتے ہیں جن سے نوجوانوں کو خاص کر اور عام لوگوں کو بھی کچھ سیکھنے کا موقع مل سکتا ہے۔ آپ جتنی زیادہ زبانیں جانتے ہیں آپ کیلئے اتنے ہی زیادہ مواقع ملتے ہیں۔ یہ بات اس وقت درست ثابت ہوئی جب برطانیہ کے دو ماہر غوطہ خوروںنے غار کے اندھیرے کونے میں فٹبال کی اس ٹیم کو ڈھونڈ نکالا۔ برطانوی غوطہ خور انگریزی میں بات کررہے تھے اور بچوں کی فٹبال ٹیم میں صرف ایک 14 سال کا لڑکا تھا جو انگریزی جانتا تھا اب غوطہ خوروں کے سارے سوالات کا جواب وہی دے رہا تھا۔
مشکلات میں گھری اس فٹبال ٹیم کی ٹیم اسپرٹ پر بہت کچھ لکھا جاسکتا ہے۔ کامیاب ٹیم کیلئے درکار بہت سارے لوازمات ان بچوں کے پاس نظر آرہے ہیں۔ 9 دن کے موت کے اندھروں کو بڑی قریب سے دیکھنے والے ان بچوں کے لئے غوطہ خوروں کی بیاٹری کی روشنی ایک زندگی کی علامت تھی۔ لیکن ان لوگوں نے زندگی کی روشنی دیکھ کر نہ تو ایک دوسرے کو ڈھکیلا اور نہ آگے بڑھ کر مجھے بچالو، مجھے بچالو کی آواز لگائی۔ سب پرسکون بیٹھے رہے، ایک انگریزی جاننے والے بچے نے غوطہ خوروں سے بات کی اور جب غوطہ خوروں نے بتایا کہ وہ لوگ انہیں اپنے ساتھ نہیں لے جارہے ہیں بلکہ دوبارہ لوٹ کر آئیں گے اور پھر لے جائیں گے۔ تب بھی کسی نے بھی رونے کی آواز نہیں نکالی۔ قارئین ، ذرا تصور کیجئے یہ کوئی بڑے لوگ نہیں 11 تا16 سال کے بچے ہیں لیکن ان کی اسپرٹ اور ان کا ڈسپلن کہ وہ لوگ غوطہ خوروں کو پریشانی کے اس عالم میں بھی ” Thank you” کہنا نہیں بھولتے ہیں۔ ماہرین کے حوالے سے بی بی سی نے لکھا ہے کہ انسان کو زندہ رہنے آکسیجن اور پینے کے پانی کی ضر ورت سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ غار کے کئی حصوں میں موجود سوراخوں سے ان بچوں کو تازہ ہوا مل رہی تھی، اور پینے کیلئے ان لوگوں نے پانی بھی ڈھونڈ نکالا ہوگا۔اب آیئے سب سے اہم نکتہ کی جانب کہ 9 دنوں تک ان بچوں نے اپنے کھانے کیلئے کیا انتظام کیا ہوگا۔؟
اس کالم کے لکھے جانے تک میڈیا کے کسی بھی گوشے میں ان بچوں اور ان کے کوچ کا کوئی بیان سامنے نہیں آیا تھا۔ بچوں کو یکے بعد دیگرے پانی سے بھرے تاریک غار سے باہر نکال کر سیدھے دواخانہ میں شریک کیا جارہا تھا۔ مجھے تو اُمید ہے کہ تھائی لینڈ کے غار میں 9 دنوں تک پھنسے رہنے کے بعد زندہ بچ جانے والے ان بچوں کی زندگیوں پر جلد ہی کوئی فلم بن جائے گی۔ خیر میں اب اپنے اُس سوال کی جانب لوٹ آؤنگا کہ ان بچوں نے 9 دنوں تک کیا کھایا ہوگا تو بی بی سی نے میڈیا کی بعض رپورٹس کے حوالے سے لکھا ہے کہ 9دن اندھیرے پانی سے بھرے غار میں زندہ بچ جانے والوں میں سب سے کمزور اور سے لاغر یقینی طور پر سب سے کم عمر لڑکا ہوگا۔ لیکن قارئین بی بی سی نے میڈیا کی بعض رپورٹس کے حوالے سے لکھا کہ غار میں امداد پہنچانے والے غوطہ خوروں کے مطابق سب سے کمزور اور لاغر ٹیم کا 25 سالہ کوچ تھا۔ بچوں کی اس ٹیم نے اپنے ایک ساتھی کی برتھ ڈے پارٹی کیلئے جو کچھ کھانے کا سامان لایا وہ لوگ 9 دنوں کے دوران اُس کو کھاتے رہے اور کوچ نے خود کچھ بھی نہیں کھایا اور جتنا کچھ کھانے کو تھا وہ سب بچوں کو کھلاتا رہا۔ یہ ہوتا ہے استاد، اور یہ ہوتا ہے وہ جذبہ۔ یہ کیسی قائدانہ صلاحیت ہے داد دینی چاہیئے۔ غار کے اندھیرے کونوں میں کوچ سے کوئی پوچھنے والا نہیں تھا لیکن کوچ نے اپنی اس ذمہ داری کو کبھی پیچھے نہیں ڈالا کہ کوچ صرف کھیل کے میدان میں اُستاد ہوتا ہے بلکہ اُستاد عملی طور پر زندگی کے ہر میدان میں اپنے بچوں کی فلاح و بہبود کے لئے ذمہ دار ہوتا ہے۔ اس کوچ نے خود کو بھوکا رکھا اور بچوں کو کھلایا۔
ٹیچر کے نام سے یاد آیا کہ جب ماہر غوطہ خوروں نے ان بچوں کو زندہ ڈھونڈ نکالا تو ان تک ابتدائی طبی اور غذائی امداد پہنچائی اور ان کے حوصلوں کو بڑھاوا دینے ان کو اپنے گھر والوں کے لئے خط لکھنے کا موقع فراہم کیا اور پھر گھر والوں کے خط ان تک پہنچائے۔ مارک نام کا ایک لڑکا جس کی عمر 11 برس بتائی گئی ہے غار کے اندھیرے کونے میں بیٹھ کر باہر نکالے جانے کا انتظار کررہا ہے اور بیاٹری کی روشنی میں اپنی ماں کو خط لکھ رہا ہے۔ خط میں مارک نے اپنی ماں کو لکھا کہ ’’ تم کیسی ہو، میں ٹھیک ہوں، کیا تم میری ٹیچر کو یہ بات بتاسکتی ہو۔‘‘
فٹبال کا ورلڈ کپ روس میں چل رہا ہے۔ ہم دیوانے آدھی رات تک جاگ کر ’’ بیگانی شادی میں عبداللہ دیوانہ ‘‘کی طرح اپنے معمولات بگاڑ رہے ہیں۔ فٹبال بھی ایک صحت مند کھیل ہے، اس سے کیا سیکھنا چاہیئے ہمیں نہیں معلوم۔ ہماری کئی نسلیں ہیں جو کرکٹ کھیلنے اور دیکھنے میں اپنی توانائیاں ضائع کرکے اپنے گھر اور خاندان کے لئے بوجھ بن گئی ہیں ۔ کرکٹ میں کیریئر بنانا تو دور کرکٹ کا Kit ( کٹ ) خود خرید سکیں اتنے پیسے بھی جمع نہیں کرسکے، جمع کرنا تو دور کما بھی نہیں سکتے۔
خیر تھائی لینڈ کے غار میں پھنس جانے والوں میں 14 سال کا (BEW) نام کا ایک لڑکا بھی شامل ہے، غار سے اُس نے اپنے گھر والوں کو خط لکھا ’’ ممی اور ڈیڈی پریشان نہ ہوں، میں صرف دو ہفتوں کیلئے گم ہوگیا تھا، میںاب دوبارہ اپنی ماں کا ہاتھ بٹاؤنگا اور اُنکے ساتھ دوکان جاکر سامان فروخت کرونگا۔‘‘ 14 سال کا لڑکا خود پریشانی میں پھنسا ہوا ہے پھر بھی ماں کو یقین دلا رہا ہے کہ میں باہر آتے ہی کام کرنے جاؤں گا۔
بچوں کی فٹ بال ٹیم کے کوچ نے بھی اپنی طرف سے ایک خط لکھا اور بچوں کے والدین کو یقین دلایا ہے ’’ میں وعدہ کرتا ہوں کہ بچوں کا میں پوری طرح خیال رکھوں گا ، میں سبھی سرپرستوں سے معافی چاہتا ہوں۔‘‘
پریشان اور ناگہانی حالات میں جوکہ خود کوچ کے پیدا کردہ نہیں ہیں کوچ نے خود بھوکا رہ کر اپنی ٹیم کے بچوں کو کھانے کا موقع دیا اور غار کے اندھیرے کونے میں بیٹھ کر بھی بچوں کی ہمت اس وقت باندھے رکھی جب باہر نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آرہا تھا۔ راستہ ہی نہیں بلکہ اُمید کا بھی کوئی نشان نہیں تھا۔ کتنا مشکل ہوتا ہے ٹیم لیڈر کا کام جب خود اُس کو اندھیرا کیسے ختم ہوگا نہیں معلوم، لیکن وہ اپنے دل کے خوف و خدشات کو دباکر اپنی ٹیم کے ارکان کی ہمت باندھتا ہے۔ قارئین، ذرا آنکھ بند کرکے کچھ دیر کیلئے اس کیفیت کا اندازہ لگایئے کہ ایک جانب پتھریلی دیواریں اور دوسری جانب زمین سے چڑھتا ہوا پانی ہے۔ نہ روشنی ہے اور نہ کھانے پینے کا کوئی انتظام ، لیکن ان بارہ بچوں نے 9 دنوں تک اپنے کوچ کے ساتھ اور صرف اپنے جسم کے کپڑوں پر اُمید کی شمع کو جلائے رکھا۔
پاک ہے وہ ذات جس نے ان بچوں کو غار کے اندھیرے اور پانی سے بھرے کونے میں بھی زندہ رکھا اور پھر ان کو زندہ باہر لائے جانے کا انتظام کیا۔کتنا خطرناک مشن تھا یہ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ تھائی لینڈ کا ایک ماہر غوطہ خور ان بچوں کو بچانے کے دوران آکسیجن ختم ہوجانے کے سبب مارا گیا۔ بہت ساری باتیں اور بہت سارے سبق ایسے ہیں جو تھائی لینڈ کے ان بچوں سے ان کے کوچ سے سیکھی جاسکتی ہیں۔ ایک سب سے ہم سبق کہ: ’’ یہ جو دنیا میں بڑے بڑے سائین بورڈ Warning Sign لگائے جاتے ہیں وہ کافی طویل تجربے کا نچوڑ ہوتے ہیں۔ غار کے باب الداخلہ پر لکھا تھا کہ بارش کے موسم میں اندر جانا خطرہ ہے۔ اگر یہ بچے اور اُن کا کوچ اس سائین بورڈ کی ہدایت پر عمل کرلیتے تو پریشان نہیں ہوتے۔ سوائے اس غلطی کہ جو کہ جان لیوا ہوسکتی تھی ان لوگوں نے اپنی جدوجہد سے بہت ساری باتیں دنیا کو بتلائی ہیں۔‘‘
9 دن تک اندھیرے میں رہ کر ان لوگوں کا عالم یہ ہوگیا تھا کہ اچانک روشنی کا سامنا نہیں کرسکتے تھے ، اس لئے ان بچوں کو بچاکر جب غار سے باہر نکالا جارہا تھا تو ان کی آنکھوں پر کالا چشمہ لگایا گیا تھا۔قارئین ، عملی زندگی میں ہر انسان کو پریشانیاں ستاتی ہیں لیکن پریشان لوگوں کو ہمیشہ مدد نہیں ملتی ، ایسے میں ہمیں اپنے آپ کو تیار رکھنا ہوگا کہ اگر خدا نخواستہ ہمیں پریشانیاں آگھیرتی ہیں تو ہم اس سے کیسے نمٹ سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر طرح کی پریشانیوں سے محفوظ رکھے اور جو پریشان حال ہیں ان کے لئے آسانیاں پیدا کرے اور ہمیں ان لوگوں کی مدد کرنے کی توفیق عطا فرمائے جو پریشان ہیں ۔( آمین یا رب العالمین )
sarwari829@yahoo.com