وہ جا رہا ہے کوئی…

کے این واصف
میرے بہت اچھے دوست انجینئر عبدا لحمید صاحب پر خاکہ لکھنے بیٹھا تو اچانک ذہن میں فیص کا مصرعہ گونجا ’’ وہ جا رہا ہے کوئی شب غم گزارکے ‘‘۔ قلم میدان قرطاس پر ابھی اگلا قدم بڑھانا چاہتاتھا کہ خرد نے ٹوکا اور کہا میاں یہ مصرعہ حمید صاحب پر صادق نہیں آتاکیونکہ حمید صاحب نے نہ یہاں ’’ شب غم گزاری‘‘نہ کسی کی محبت میں دونوں جہاںہارے۔ انھو ں نے تو یہاں اپنی ’’را حت جاں‘‘ کے ساتھ ’’شب راحت ‘‘ گزاری ہے۔ حمید صاحب نے یہاں کچھ ہارا بھی نہیں بلکہ ان کے حصہ میں ہمیشہ جیت ہی جیت ر ہی۔ پھرمیرے ذہن میں میرے عزیز ترین دوست میر یوسف علی کا ایک شعر یاد آیاجو اس موقع کیلئے نہایت موزوں و مناسب لگا۔ یوسف علی نے زندگی کا بڑا حصہ ایران اور کویت میں گزارا اور ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے اہل و عیال کے ساتھ کینیڈا میں چین کی بانسری بجا رہے ہیں۔ متذکرہ شعر یوں ہے
غضب کی چال تھی ہم نے تو چاپ بھی نہ سنی
جو مڑ کے دیکھا تو اے میرؔپھر شباب نہ تھا
میر یوسف کایہ شعر خلیجی ممالک میں طویل عرصہ گزار کر واپس جانے والے تمام غیرملکیوں کی ترجمانی کرتا ہے۔ حمید صاحب بھی یہاں اپنی عین جوانی میں آے تھے اور ۴۱ سال جیسا طویل عرصہ گزار کر لوٹ رہے ہیں۔ سعودی عرب میں کام کرنے والے اسے ہمیشہ اپنا دوسرا وطن گردانتے ہیں۔ مگر وہ کتنا ہی لمبا عرصہ یہاں گزاریں ایک دن انھیں یہاں سے لوٹنا ہی پڑتا ہے۔
حمید بھائی میرے ان احبا ب میں سے ہیں جن سے میری شناسائی یہیں ریاض میں ہوئی۔ ربع صدی سے ہم ایک دوسرے کو جانتے ہیں ۔ ان سے تو تکار والی بے تکلفی نہ سہی مگر ان سے ہمارے مراسم کافی بے تکلفانہ ہیں ۔ ہم دونوں ایک ہی شہر کے رہنے والے ہیں ۔ اور ہماری عمروں میں انیس بیس کا ہی فرق ہوگا۔ اب اس میں انیس کون ہیں اور بیس کون ہیں پھر کبھی طے کرلیں گے۔ حمید صاحب اور ہمارے درمیان علیک سلیک کی ابتدا ہار ا (ریاض کا ایک محلہ) کی ایک پان کی دکان سے شروع ہوئی۔ حمید صاحب پان کھانے کو نشہ کرنے سے تعبیر کرتے ہیں اس طرح میں اور وہ ایک ہی نشہ کی دکان یا میکدے کے گاہک تھے اوراکثر اس میکدے سے ’’وہ آتا تھا کہ ہم نکلے‘‘ والا معاملہ تھا۔ پھر ان سے باضابطہ ملاقاتیں ’’الریاض ڈیولپمنٹ اتھاریٹی‘‘ کے آفس میں ہونے لگیں۔ جہاں وہ ایک اعلیٰ عہدہ پر فائز تھے اورہم بحیثیت صحافی ADA سے ریاض کے نئے پروجکٹ کی جانکاری حاصل کرنے جایا کرتے تھے۔ کچھ رو زحمید بھائی پان کی دکان پر نظر نہیں آئے ہم نے اپنے ایک ہم مشرب سے حمید بھائی کی غیر حاضری کے بارے میں پوچھاتو انھوں نے بتایا کہ حمید صاحب انہی دنوں میں پان کھاتے ہیں جن دنوں ان کی فیملی ریاض میں نہیں ہوتی۔تو ہم نے ان صاحب سے کہا کہ یہ ہوتی ہے نیک صفت اور خاندانی آدمی کی بات کہ فیملی نہ ہو تو صرف منہ لال کرتے ہیں۔
حمید صاحب ایک معزز ، دین دار ، تعلیم یافتہ اور زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم حیدرآباد میں حاصل کی اور NIT ورنگل سے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ دو سال مانیرو ڈیم کے پروجکٹ پر کام کیا۔ ستر کی دہائی میں ہر نوجوان کے سر میں خلیجی ممالک جانے کا سودا سوار رہتا تھا۔ حمید صاحب نے بھی سرزمین لیلیٰ جانے کا من بنا لیا اور 1977میں سعودی عرب منتقل ہوئے۔ ابتدا میں دمام میں آرمکو کے کسی پروجکٹ پر چھ سال کام کیا ۔ سعودی عرب میں جب ذر ا گردن ٹہری تو چھلانگ لگا کر ریاض آے اور ’’ الریاض ڈیولپمنٹ اتھاریٹی ‘‘ ADA جیسے باوقار ادارہ سے منسلک ہوئے۔ جہاں انھوں نے کوئی پینتیس سال جیسا طویل عرصہ خدمات انجام دیں۔ محنت اور قابلیت سے ترقی کے زینے طے کرتے ہوئے پلانگ انجینئر ، کانٹریکٹ اڈمنسٹریٹر ، پروجکٹ منیجر جیسے اعلیٰ ذمہ داریوں کو بحسن خوبی نبھایا۔ مملکت میں کسی غیر ملکی کا ایک نیم سرکاری ادارے میں اتنا لمبا عرصہ ٹکے رہنا اپنے آپ میں ایک بڑا امتیاز اور کارہائے نمایاں ہے۔ ADA نے صحرا نما ریاض کو پچھلی چار دہائیوں میں ایک عالمی معیار کا ایسا ترقی یافتہ شہر بنایا جس کا شمار دنیا کے بہترین شہروں میں کیا جاسکتا ہے۔ شہر ریاض کی اس تعمیر و ترقی میں حمید صاحب نے بھی اہم رول ادا کیا ہے جس کے نقوش آنے والی کئی دہائیوں تک قائم رہیں گے۔یہاں مجھے محمود شاہد کا ایک شعر یاد آرہا ہے جو انجینئرز کی ترجمانی کرتا ہے۔
ہم ہیں صحرا کے مکانوں سے ملانے والے
ہم سیکھے کوئی جینے کا سلیقہ لوگو
محمودشاہد دمام میں ایک Interior Decoration کی کمپنی میں کام کرتے تھے۔ حضرات میں حمید صاحب پر خاکہ لکھنے میں مصروف تھا کہ WhatsApp کا سندیس آنے کی صدا آئی۔ اسکرین پرنظر ڈالی تو پیام تھا کہ ’’ جوڑوں کا درد جوڑے ہی جانتے ہیں کنواروں کو اس کا کیا علم ‘‘ پھر ہماری نظریں میز پر پڑی جس میں ہم نے اپنی معلومات کیلئے حمید صاحب کے شخصی کوائف لکھ رکھے تھے۔ جس پر لکھی ان کی شادی کی تاریخ دیکھی تو پتہ چلا کہ حمید بھائی پچھلے39 سال سے جوڑوں کے درد کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ اللہ اس پرانے درد کو دراز کرے اور کوئی نیا درد نہ دے۔ حمید صاحب سعودی عرب کو کنوارے آے تھے اور اب یہاںسے ایک بیگم تین بچے اور فی الحال چھ پوتے پوتیوں کے بھرے پورے خاندان کے سربراہ بن کے لوٹ رہے ہیں۔ بیگم اور بچوں کی تعداد تو وہی رہے گی بے شک ناتے نواسوں میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے ۔ حمید صاحب کے فرزند بلال حمید اپنے والد کی طرح انجینئر ہیں اور کینیڈا میں مقیم ہیں ۔ جب کہ آپ کی دونوں لڑکیاں اسما ء اور ثناء ڈاکٹر ہیں اور امریکہ میں اپنی اپنی زندگیوں میں خوش ہیں۔ اسی طرح حمید صاحب اپنی تمام ذمہ داریوں سے آزاد ہیں اور شادی کے پنجرے میں بیگم فرحینہ کے ساتھ قید بے مشقت کاٹ رہے ہیں۔ اب یہ جوڑا باقی ماندہ زندگی ہندوستان اور کینیڈا میں بسر کرے گا۔
حضرات ریاض کی ان سڑکوں کا یہ حال جنھوں نے کیا ہے ان میں سے ایک سرغنہ ہمارے انجینئر عبدالحمید صاحب بھی ہیں۔ (اگر کسی کو اپنی تکلیف کا حساب برابر کر نا ہے تو آج آخر موقع ملے وہ کل یہاں سے جانے والے ہیں) ہم نے اس سلسلے میں سوال کیا کہ آخر عوام کو یہ تکلیف کتنے دن اٹھانے پڑے گی۔ تو انھوں نے مسکراکر کہا آپ لوگ اس تکلیف کو ’’درد سر‘‘ نہیں بلکہ ’’درد زہ‘‘ سمجھ کر برداشت کریں۔ کیونکہ اس تکلیف کے بعد راحت اور خوشی آے گی۔ ہم نے کہا ٹھیک ہے یہ ’’درد زہ‘‘ ہی سہی لیکن اتنا لمبا ؟۔ پھر ہمارادوسرا اعتراض یہ تھا کہ آپ ہمیں درد زہ میںمبتلا کرکے خود یہاں سے جارہے ہیں ۔ کم از کم ’’خوشی‘‘ آنے تک تو ٹہرتے۔ مگر انھوں نے اس بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔
حمید صاحب فطراً بڑے حلیم الطبع واقع ہوئے ہیں ۔ ہم نے کبھی انھیں جھلاتے ، چلاتے نہیں دیکھا۔ انھیں خود نمائی کی عادت ہے نہ نام و نمود کی خواہش۔ سماجی خدمات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں مگر بڑی خاموشی کے ساتھ ۔ یعنی وہ نیک کام بھی اتنے ڈھکے چھپے انداز میں کرتے ہیں کہ لوگ آج کل گناہ کرتے ہوئے بھی اتنے محتاط نہیں رہتے۔ انسانی خدمت کا جذبہ ان میں بدرجہ اتم پایا جاتا ہے۔ جو انھیں ورثہ میں ملا ہے۔ آپ کے والد محترم عبدالرشید صاحب ، سابق میونسپل کمشنر جو اپنے آپ میں ایک انجمن ہیں اپنی کبر سنی کے باوجود اب بھی دن رات خدمت خلق و خالق میں مشغول رہتے ہیں ۔ عبدالرشید صاحب ’’الحق ایجوکیشن سوسایٹی ‘‘ کے بانی رکن اور جنرل سکریٹری ہیں۔ اس سوسائیٹی کے تحت ایک اسکول چلتا ہے۔ اور سوسائٹی نے تلنگانہ کے اضلاع میں اب تک 125 مساجد تعمیر کی ہیں۔ حمید صاحب اب اپنے والد کے اس مشن کو آگے بڑھانے وقت دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
حضرات حمید صاحب ایک دولت مند ترین آدمی ہیں ۔ لفظ دولت کے ساتھ ہمارے ذہنوں میں کاغذ کے وہ ٹکڑے ہی آتے ہیں مگر اس کے علاوہ انسان کو بہت کچھ حاصل ہے جس کی وقعت ان کاغذ کے ٹکڑوں سے بہت زیادہ ہیں ۔ جیسے ہمیں جو علم حاصل ہے وہ دولت ہے ، اچھا ذریعہ معاش یا اکل ہلال دولت ہے۔اچھے دوست دولت ہے، سمجھدار بیوی دولت ہے، قابل اور اطاعت گزار اولاد دولت ہے، صحت مند زندگی دولت ہے۔ یہ ساری دولت حمید صاحب کو میسر ہے۔ ہاں جو سوئیز بنک میں ان کی دولت ہے اس کا مجھے علم نہیں۔
حمید صاحب سماجی خدمات کے علاوہ اردو کی ترقی و ترویج کی کاوشوں سے بھی جڑے رہتے ہیں۔ ہندوستانی بزم اردو ریاض کے بانی رکن اور کچھ عرصہ سے اس بزم کے صدر بھی ہیں۔ آپ اردو ٹوسٹ ماسٹرس کلب کے صدر بھی رہ چکے ہیں اوردیگر فلاحی اور پرفیشنل تنظیموں سے وابستہ ہیں۔ انھیں ان کی سماجی خدمات کے عوض کئی تنظیموں کی جانب سے اعزازات بخشے گئے ۔ پچھلے یوم جمہوریہ کی تقریب میں آپ کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے سفیرہند عزت مآب احمد جاوید نے ایمبیسی کی جانب سے آپ کو ایک مومنٹو بھی پیش کیا۔
حضرات آپ میں بیشتر کو علم ہوگا کہ دنیا میں ایک قدیم روایت ہے شہر کی چابی حوالے کرنے کی۔ یعنی کسی بھی ملک کا سربراہ اپنے ملک یا بیرون ملک کے کسی شہر کے دورے پر جانا ہے تو اس شہر کا میئر ایرپورٹ پر اسے ایک چابی پیش کرتا ہے۔ جس کا مطلب یہ شہر آپ کے حوالے ہوتا ہے۔ اور جب وہ اپنا دور مکمل کرکے واپس ہوتا ہے وہ چابی شہر کے میئر کو واپس کرکے جاتا ہے۔ اس بات کا ذکر یہاں کر نے کی وجہ یہ ہے کہ پچھلے ہفتہ ADA میں حمید صاحب کے اعزاز میں ایک الوداعی تقریب کا اہتمام ہوا جس میںشہر ریاض کے میئر انجینئر طارق الفارس نے بھی شرکت کی۔ ریاض شہر سے وداع لینے والے حمید صاحب سے ہم یہاں پوچھنا چاہیں گے کہ کیا ریاض کے میئر آپ سے چابی واپس لینے تو نہیں آئے تھے۔
حضرات حمید صاحب نے میئر کو چابی حوالے کی یا نہیں ہم اس با ت کو یہیں چھوڑتے ہیں مگر ہم ہندوستانیوں کیلئے ایک فخر کی بات ہے کہ حمید صاحب کی ؤوداعی تقریب میں شہر کے میئر نے شرکت کی اور انھیں تہنیت پیش کی اور تحایف سے نوازا۔ ہم یہاں پھر ایک بار یہ بات دہرائیں گے کہ سعودی عرب میں کسی خارجی باشندے کو اس طرح کا اعزاز حاصل ہونا بہت بڑی بات ہے اور ہندوستانی کمیونٹی اس بات پر ہمیشہ فخر کرے گی ۔
(انجینئر محمد عبدالحمید کی وداعی تقریب میں پڑھا گیا)