رشیدالدین
راہول کا انٹرویو…کانگریس کے مسائل میں اضافہ
مسلم کش فسادات پر معذرت کیوں نہیں؟
کانگریس کے یوراج اور آئندہ عام انتخابات میں مہم کی قیادت کرنے والے راہول گاندھی بی جے پی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کو نشانہ بناتے ہوئے عوام سے روبرو ہوئے۔ راہول گاندھی کی جانب سے ایک ٹی وی چیانل کو دیا گیا انٹرویو سیاسی اور صحافتی حلقوں میں موضوع بحث بن چکا ہے۔ اس انٹرویو کے ذریعہ سیاسی حریفوں کو کمزور کرنے کے بجائے راہول گاندھی نے خود اپنی پارٹی کے مسائل میں اضافہ کردیا ۔ ویسے بھی اکثر دیکھا گیا کہ راہول گاندھی کے بیانات کے سبب پارٹی تنازعہ کا شکار ہوگئی اور دفاعی موقف میں نظر آئی۔ اسے سیاسی تجربہ کی کمی کہئے یا پھر مشیروں کی غلط رہنمائی۔ دونوں صورتوں میں خمیازہ تو پارٹی کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ انتخابی مہم کی ذمہ داری سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے انٹرویو میں راہول نے 1984 ء کے مخالف سکھ فسادات پر تبصرہ کرتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں کو تنقید کا موقع فراہم کیا۔ ساتھ ہی ایک اقلیتی فرقہ کی ناراضگی مول لی ہے۔ اس سے قبل مظفر نگر کے متاثرین کے آئی ایس آئی سے روابط سے متعلق بیان کے ذریعہ فساد متاثرین اور مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کیا گیا تھا۔
بعد میں پارٹی کو وضاحتوں کے ذریعہ مسئلہ کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرنی پڑ ی۔ اب جبکہ کانگریس اور بی جے پی کی جانب سے عملاً انتخابی مہم کا آغاز ہوچکا ہے۔ کانگریس کے اسٹار کمپینر کو چاہئے کہ وہ کوئی بھی بیان ملک اور اس کے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہوئے دیں تاکہ رائے دہندوں تک ان کا ویژن پہنچ سکے۔ برخلاف اس کے راہول گاندھی نے نریندر مودی ، مخالف سکھ فسادات اور بعض ایسے مسائل تک خود کو محدود رکھا جن کا عام آدمی کے ایجنڈہ سے تعلق نہیں۔ دہلی میں مخالف سکھ فسادات اور 2002 ء کے گجرات مسلم کش فسادات کے تقابل میں وہ اس قدر الجھ گئے کہ خود اپنی پار ٹی کو کٹہرے میں کھڑا کردیا۔ راہول گاندھی ایک تنازعہ سے بچنے کی کوشش میں دوسرے میں پھنس رہے تھے۔
انٹرویو میں ملک کی ترقی کیلئے ویژن اور حساس موضوعات پر گہرائی کی کمی صاف جھلک رہی تھی۔ نریندر مودی کو جس انداز میں نشانہ بنایا گیا، اس سے مودی کی اہمیت میں مزید اضافہ ہوگیا اور تاثر مل رہا تھا کہ کانگریس، مودی سے خوفزدہ ہے۔ گجرات فسادات میں مودی کے رول سے کون واقف نہیں ؟ لیکن ان پر تنقید کے بدلے راہول کو یہ اعتراف کرنا پڑا کہ1984 ء مخالف سکھ فسادات میں بعض کانگریس قائدین ملوث تھے۔ فسادات کو روکنے کے سلسلہ میں راہول نے گجرات میں مودی حکومت کی ناکامی کا ذکر کیا اور دہلی فسادات میں کانگریس حکومت کے رول کو موضوع بحث بنادیا ۔ سوال یہ ہے کہ کیا کانگریس پارٹی 1984 ء اور 2002 ء گجرات فسادات کے ایجنڈہ کے ساتھ چناؤ میں اترے گی؟ کیا ملک میں کرپشن، بڑھتی مہنگائی ، اسکامس ، عام آدمی کے مسائل، ترقی اور فلاح و بہبود انتخابی ایجنڈہ میں شامل نہیں رہیں گے ؟ ترقی اور عوامی مسائل کے علاوہ ملک کو اگر کسی اہم خطرہ کا سامنا ہے تو وہ ہندو قوم پرستی ہے جو کہ فرقہ پرستی سے زیادہ سنگین اور ملک کے لئے چیلنج بنتی جارہی ہیں۔
راہول گاندھی کا یہ کہنا باعث حیرت ہے کہ وہ معذرت خواہی اس لئے بھی ضروری نہیں سمجھتے کیونکہ وہ فسادات میں ملوث نہیں تھے۔ شاید وہ بھول گئے کہ وزیراعظم ڈاکٹر منموہن سنگھ اور صدر کانگریس سونیا گاندھی نے مخالف سکھ فسادات پر معذرت خواہی کی تھی۔ اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ یہ دونوں قائدین فسادات میں ملوث تھے اسی لئے انہوں نے معذرت خواہی کی۔ جہاں تک فسادات کی ذمہ داری کا معاملہ ہے، جو بھی حکومت ہو اخلاقی طور پر وہی ذمہ دار قرار پائے گی۔ جس طرح گجرات فسادات کیلئے مودی ذمہ دار ہیں اسی طرح 1984 ء کے مخالف سکھ فسادات کی ذمہ داری سے کانگریس بچ نہیں سکتی۔ عوامی جان و مال کا تحفظ مقامی حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ 1989 ء میں بہار کے بھاگلپور فسادات کیلئے کانگریس اور حال ہی میں مظفر نگر فساد کیلئے سماج وادی پار ٹی ذمہ دار ہوگی ۔ کیونکہ فسادات کے وقت ان جماعتوں کی حکومت تھی ۔ دہلی کے فسادات کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مشہور کالم نگار خشونت سنگھ کو اپنی جان بچانے کسی ملک کے سفارت خانہ میں پناہ لینی پڑی تھی۔
اب جبکہ ملک میں فسادات کے مسئل پر بحث چھڑ گئی ہے تو ہم کہنا چاہتے ہیں کہ سیاسی مقصد براری کیلئے کانگریس ، بی جے پی اور دیگر جماعتیں سکھوں سے ہمدردی کا اظہار کر رہی ہیں۔ یقیناً فسادات کے متاثرین کا تعلق کسی مذہب سے کیوں نہ ہوان سے ہمدردی انسانیت کا تقاضہ ہے لیکن ملک میں فسادات کی تاریخ لکھی جائے تو ہر صفحہ پر مسلمانوں کا خون دکھائی دے گا۔ آزادی سے لیکر آج تک ہزاروں فسادات ہوئے جن میں مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا گیا لیکن کسی پارٹی کو مسلمانوں سے معذرت خواہی کا خیال نہیں ہے ۔ آخر ملک کی سب سے بڑی اقلیت کے ساتھ اس طرح کا جانبدارانہ سلوک کیوں ؟ ہندوستان میں پانی کی قیمت ہے لیکن مسلمان کے خون کی اہمیت نہیں۔ ایک چھوٹی اقلیت سکھوں سے معذرت کی گئی لیکن اگر کانگریس اپنے دور کے فسادات پر معذرت خواہی کرنا چاہے تو شاید کئی برس معذرت خواہی میں گزر جائیں گے۔
مسلمانوں کے ساتھ جانبداری کا اس بڑھ کر ثبوت کیا ہوسکتا ہے کہ 1984 ء کے فساد سے متاثرہ سکھوں کے زخموں پر مرہم رکھنے نہ صرف معذرت خواہی کی گئی بلکہ سکھ طبقہ کی شخصیت کو ایک نہیں ، دو نہیں مسلسل 10 برس تک وزیراعظم کے عہدہ پر فائز کیا گیا۔ ان کے دور میں سکھوں کیلئے امدادی پیکیج کا بھی اعلان کیا گیا ۔ اس کے برخلاف 1947 ء سے قبل جدوجہد آزادی میں مسلمانوں نے اپنی جانوں کو قربان کرنے اور آزادی کے بعد آج تک فسادات میں اپنے خون سے مادر وطن کو سیراب کرنے والی قوم میں سے آج تک کسی کو وزیراعظم کے عہدہ پر فائز نہیں کیا گیا ۔
کیا ملک کے قانون اور دستور میں ایسی کوئی خفیہ دفعہ موجود ہے کہ جس کے تحت کسی مسلمان کو اس عہدہ پر فائز نہیں کیا جاسکتا۔ کانگریس ہو کہ بی جے پی یا پھر کوئی اور نام نہاد سیکولر علاقائی جماعتیں، انہیں مسلمانوں کے ووٹ تو چاہئے لیکن وہ مظالم کیلئے معذرت خواہی کو تیار نہیں۔ سکھوں کا مسئلہ آتے ہی تمام جماعتیں ایک آواز ہوکر ان سے ہمدردی کا اظہار کر رہی ہیں لیکن کسی نے بھی ہزاروں مسلم کش فسادات کا ذکر اور مسلمانوں سے ہمدردی کا اظہار نہیں کیا۔ بی جے پی کے وزارت عظمی کے امیدوار نریندر مودی چہرہ پر ترقی کا نقاب اوڑھے چند نام نہاد اور بکاؤ قائدین کو ساتھ لے کر وزارت عظمیٰ کی کرسی تک پہنچنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ ہمدردی کی دو باتیں اور ناچنے گانے والوں کے ساتھ پتنگ بازی کے ذریعہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کی تائید حاصل کرلیں گے تو وہ احمقوں کی جنت میں ہیں۔ مودی کی تائید اور انہیں گڈ میان قرار دینے والوں کا کیا حشر ہوا، یہ دنیا کے سامنے ہے۔ صرف مسلمانوں نے ہی نہیں ملک کے سیکولر عوام نے بھی مودی کے حمایتی فلم ایکٹرس کو گمنامی کی نذر کردیا اور ناکامی ان کا مقدر بن گئی ۔
نریندر مودی چار ریاستوں کے حالیہ نتائج کی بنیاد پر وزارت عظمیٰ تک نہیں پہنچ سکتے۔ ملک کی تقریباً 12 ریاستوں میں بی جے پی کا اقتدار نہیں۔ بعض ریاستوں میں تو اس کا وجود بھی نہیں ہے۔ انتخابی اعلامیہ کی اجرائی سے قبل قومی سطح پر نئی سیاسی صف بندیوں کے اشارے مل رہے ہیں۔ کانگریس اور بی جے پی کی حلیف جماعتوں میں بے چینی ہے اور تیسرے محاذ کے قیام کے امکانات واضح دکھائی دے رہے ہیں۔ چاہے وہ مابعد انتخابی نتائج کیوں نہ ہوں ۔ یو پی اے میں شامل نیشنلسٹ کانگریس اور نیشنل کانفرنس کے تیور بدلے نظر آرہے ہیں۔ امریکی انٹلیجنس نے بھی مرکز میں مخلوط حکومت کی پیش قیاسی کی ہے ۔ جنتا دل سیکولر ، سماج وادی ، بہوجن سماج ، ترنمول کانگریس ، عام آدمی پارٹی ، وائی ایس آر کانگریس اور دیگر علاقائی جماعتیں توازن قوت کے ساتھ تیسری طاقت کے طور پر ابھر سکتی ہیں اور حکومت سازی میں ان کا اہم رول ہوگا۔ بی جے پی میں وزارت عظمیٰ کا امیدوار مضبوط ضرور ہے لیکن پارٹی کئی ریاستوں میں تنظیمی طور پر کمزور ہے۔ جبکہ کانگریس ملک بھر میں تنظیمی طور پر مضبوط ہونے کے باوجود وزارت عظمیٰ کا امیدوار پردے میں ہے ۔
کانگریس میں اتنی ہمت نہیں کہ امیدوارکو عوام کے درمیان پیش کرے۔ چونکہ ملک میں سیکولر جماعتوں کی اکثریت ہے لیکن مخلوط پارلیمنٹ کی صورت میں ملک میں سیکولرازم کی برتری قائم رہے گی۔ کانگریس اور بی جے پی نے ابھی سے عوام کو لبھانے کیلئے وعدوں کا آغاز کردیا ہے ۔ یو پی اے نے شہرت پسند اسکیمات اور رعایتوں کا اعلان کیا اور اس کا سہرا راہول گاندھی کے سر باندھنے کی کوشش کی گئی ۔ لوک پال بل کی منطوری ، سبسیڈی پر مبنی گیاس سلینڈرس کی تعداد میں اضافہ، وقف ڈیولپمنٹ کارپوریشن کا قیام اسی مہم کا حصہ ہے۔ دونوں پارٹیوں نے پبلسٹی کیلئے ہزاروں کروڑ روپئے کے خرچ کا نشانہ مقرر کیا ہے اور یہ کام انٹرنیشنل ایجنسیز کو دیا گیا۔ جہاں تک غریب عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کا تعلق ہے، کوئی بھی پارٹی اس سلسلہ میں مبسوط لائحہ عمل سے عاری ہے۔ کانگریس ہو کہ بی جے پی اپنی ناکامیوں پر ندامت کے بجائے تحکمانہ انداز میں عوام سے تائید کی امید کر رہے ہیں، جیسے کہ وہ رائے دہندوں پر احسان کر رہے ہوں۔ معراج فیض آبادی نے شاید ایسے قائدین کیلئے ہی یہ شعر کہا
؎
وہ بھیک مانگتا ہے حاکموں کے لہجے میں
ہم اپنے بچوں کا حق بھی ادب سے مانگتے ہیں