ووٹوں کی گنتی قریب، دل کی دھڑکن تیز

محمد نعیم وجاہت

آندھرا پردیش دونوں علاقوں (تلنگانہ اور سیما۔ آندھرا) میں رائے دہی کا عمل مکمل ہو چکا ہے اور امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ الکٹرانک ووٹنگ مشینوں میں بند ہوچکا ہے۔ 16 مئی کو رائے شماری مقرر ہے، اس دن دوپہر بارہ بجے تک دونوں ریاستوں کے اسمبلی حلقہ جات کے علاوہ 543 لوک سبھا حلقوں کے نتائج برآمد ہو جائیں گے۔ دونوں علاقوں میں رائے دہی کا تناسب بڑھا ہے، تاہم سب سے کم رائے دہی دارالحکومت حیدرآباد میں ہوئی۔ علاقہ تلنگانہ میں 70 فیصد اور سیما۔ آندھرا میں 80 فیصد رائے دہی ہوئی۔ رائے دہی کا تناسب اور کراس ووٹنگ کا جائزہ لینے کے بعد یہ اندازہ ہوتا ہے کہ عوام نے ترقی اور حکومت کی کار کردگی سے زیادہ ریاست کی تقسیم کو اہمیت دی ہے۔

تلنگانہ تحریک چلانے والی ٹی آر ایس کو علاقہ تلنگانہ میں اور وائی ایس آر کانگریس کو سیما۔ آندھرا میں سبقت حاصل ہے۔ یہ قطعی فیصلہ تو نہیں ہے، مگر عوامی رجحان سے کچھ اسی قسم کے اشارے مل رہے ہیں۔غور کرنے والی بات یہ ہے کہ دونوں ہی جماعتوں (ٹی آر ایس اور وائی ایس آر کانگریس) نے تلنگانہ اور سیما۔ آندھرا میں کسی بھی جماعت سے اتحاد نہیں کیا، بلکہ تنہا مقابلہ کیا۔ علاقہ تلنگانہ میں ٹی آر ایس اور کانگریس کے درمیان راست مقابلہ تھا، جب کہ سیما۔ آندھرا میں تلگودیشم اور وائی ایس آر کانگریس کے درمیان کانٹے کا مقابلہ تھا۔ سیما۔ آندھرا کے عوام نے ریاست کی تقسیم کے لئے کانگریس کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے اپنے غصے کا اظہار کیا، تاہم دونوں ایوانوں میں تلنگانہ بل کی تائید کرنے والی بی جے پی اور تلنگانہ کی تائید میں مرکز کو دو مکتوب پیش کرنے والی تلگودیشم کو سیما۔ آندھرا کے عوام نے گلے لگایا۔ کانگریس کی جانب سے ریاست کی تقسیم کا فیصلہ ہونے تک وائی ایس آر کانگریس بھی تلنگانہ کے خلاف نہیں تھی،

تاہم سیما۔ آندھرا عوام کے جذبات کو بھانپتے ہوئے جگن موہن ریڈی نے تلنگانہ کی مخالفت شروع کردی۔کانگریس پارٹی عوام کی نبض کو سمجھنے میں ناکام رہی، کیونکہ علحدہ ریاست تشکیل دینے کے بعد بھی وہ تلنگانہ میں خاطر خواہ فائدہ نہیں اُٹھاسکی۔ ایک سال قبل تک 119 اسمبلی اور 17 لوک سبھا حلقہ جات میں کئی ایسے حلقے تھے، جہاں سے مقابلہ کے لئے ٹی آر ایس کے پاس امیدوار ہی نہیں تھے، تاہم سربراہ ٹی آر ایس کی حکمت عملی کامیاب رہی۔ وہ عوام میں اس طرح گھل مل گئے کہ عوام نے انھیں تلنگانہ کا حقیقی لیڈر تصور کرلیا۔ عوام کا جھکاؤ دیکھ کر تلگودیشم، کانگریس اور دیگر جماعتوں کے علاوہ تلنگانہ تحریک میں اہم رول ادا کرنے والی تنظیموں کے نمائندے بھی ٹی آر ایس میں شامل ہو گئے۔ تلگودیشم سربراہ چندرا بابو نائیڈو کی دوہری پالیسی نے تلنگانہ میں ان کی پارٹی کو نقصان پہنچایا ہے۔ انھوں نے تلنگانہ کی تائید میں مرکز کو مکتوب روانہ کیا، جب کہ سیما۔ آندھرا میں سیاسی مفادات کے لئے کانگریس پر ریاست کی تقسیم کا الزام عائد کیا۔ اسی طرح مسلمانوں کو نظرانداز کرتے ہوئے مسٹر نائیڈو نے حصول اقتدار کے لئے بی جے پی سے اتحاد کیا، مگر اس اتحاد کے نفع و نقصان کا اندازہ انھیں ایک ہفتہ میں ہو جائے گا۔2014ء کے عام انتخابات تلنگانہ اور سیما۔ آندھرا کی سیاسی جماعتوں کے لئے بہت بڑا امتحان ثابت ہوئے۔ تمام جماعتوں اور ان کے امیدواروں نے اپنی اپنی کامیابی کے لئے ایڑی چوٹی کے زور کے ساتھ پیسہ اور شراب پانی کی طرح بہایا اور اپنی طاقت کا بیجا استعمال بھی کیا۔ ریاست کی تقسیم سرکاری طورپر 2 جون کو ہوگی۔ سپریم کورٹ نے ریاست کی تقسیم روکنے کے لئے عارضی حکم التواء جاری کرنے سے انکار کردیا ہے۔ اس کے علاوہ تقسیم ریاست کا بل منظور ہونے کے بعد پہلی مرتبہ عام انتخابات منعقد ہوئے۔

آندھرا پردیش کے دونوں علاقوں میں 151 کروڑ روپئے، 134 کروڑ لیٹر شراب، 90 کیلو سونا اور 825 کیلو چاندی پولیس نے ضبط کئے، جس سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں اور مقابلہ کرنے والے امیدواروں نے رائے دہندوں کو خریدنے یا ان کے ووٹ حاصل کرنے کی کتنی کوشش کی ہے۔ رائے دہی اور رائے شماری کے درمیان زیادہ وقفہ ہونے کی وجہ سے امیدواروں اور عوام میں تجسس پایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ امیدواروں کی کامیابی اور ناکامی پر سٹہ بازی بھی جاری ہے۔ ہر گلی کے نکڑ پر امیدواروں کی جیت اور ہار پر عوام کے درمیان مباحث ہو رہے ہیں۔شہر حیدرآباد میں رائے دہی کا تناسب تشویش کا باعث ہے، کیونکہ دیہی علاقوں سے زیادہ شہری علاقوں کے عوام تعلیم یافتہ اور باشعور ہوتے ہیں، پھر کیا وجہ ہے کہ سب سے کم 52 فیصد رائے دہی حیدرآباد میں ہوئی؟۔ کہیں ایسا تو نہیں عوامی نمائندے اپنا اعتماد کھو چکے ہیں؟ یا ان کی کار کردگی سے عوام مطمئن نہیں ہیں؟ یا جو قائدین انتخابات میں حصہ لے رہے تھے، عوام کو ان پر بھروسہ نہیں تھا؟۔ ووٹ نہ دینا مسئلہ کا حل نہیں ہے، بلکہ ووٹ دے کر اپنی ناراضگی کا اظہار ضروری ہے۔ ووٹ دینے کے معاملے میں شہری علاقوں سے زیادہ دیہی علاقوں کے رائے دہندے باشعور نظر آئے، جنھوں نے اپنے فیصلہ (رائے دہی) سے سیاسی جماعتوں اور مقابلہ کرنے والے امیدواروں کو آگاہ کیا۔ جب تک رائے دہندے نہیں جاگتے، اس وقت تک ان کے منتخب نمائندے سوتے رہتے ہیں، جب کہ عوام کا ایک غلط فیصلہ پانچ سال تک کے لئے سزا بن جاتا ہے۔ الیکشن کمیشن نے حق رائے دہی کا شعور بیدار کرنے کے لئے تمام جتن کئے، مگر افسوس اس بات کا ہے کہ حیدرآباد کے رائے دہندوں نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی، جب کہ ووٹ نہ دے کر جیتنے والے امیدواروں پر اُنگلی اُٹھانا بھی درست نہیں ہے۔علاقہ تلنگانہ میں کانگریس اور ٹی آر ایس اپنی اپنی کامیابی کا ادعا کرتے ہوئے تشکیل حکومت کی حکمت عملی تیار کر رہی ہیں۔

مختلف سرکاری ملازمین کی تنظیمیں دونوں جماعتوں کے سربراہوں سے ملاقات کر رہی ہیں، جب کہ دونوں جماعتیں (کانگریس اور ٹی آر ایس) دیگر چھوٹی جماعتوں سے اپنے لئے تائید طلب کرنے کے علاوہ آزاد امیدواروں کی کامیابی پر بھی نظر رکھی ہوئی ہیں۔ تشکیل حکومت کے لئے تلگودیشم، مجلس اور بی جے پی اہم رول ادا کرسکتی ہیں۔ اگر کانگریس اور ٹی آر ایس کو تشکیل حکومت کے لئے واضح اکثریت حاصل ہوتی ہے تو انھیں کسی دوسری جماعت کی تائید کی ضرورت نہیں رہے گی، ورنہ مذکورہ تینوں جماعتیں تشکیل حکومت میں اہم رول ادا کریں گی۔ کانگریس پارٹی، بی جے پی اور تلگودیشم کی تائید حاصل نہیں کرے گی، جب کہ ٹی آر ایس کے لئے ہر چیز ممکن ہے۔ جیسے جیسے وقت گزر رہا ہے، سیاسی جماعتوں اور مقابلہ کرنے والے امیدواروں کی تشویش میں اضافہ ہو رہا ہے۔ فی الوقت یہ قائدین اپنے ارکان خاندان کے ساتھ بغرض تفریح ملک و بیرون ملک روانہ ہو چکے ہیں۔ 12 مئی کو آخری مرحلے کی رائے دہی ہوگی، جس کے بعد شام سے ہی پیش قیاسی (اوپنین پول اور اگزٹ پول) کی بنیاد پر سیاسی سرگرمیاں شروع ہو جائیں گی۔