تلنگانہ ؍ اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
دونوں شہروں حیدرآباد وسکندرآباد کے عوام کے ساتھ ہر مرتبہ ووٹر لسٹ سے ناموں کے اخراج کا مذاق کیا جاتا ہے۔ اب گریٹر حیدرآباد یونسپل کارپوریشن کے انتخابا ت سے قبل بھی یہی شور ہورہاہے کہ ٹی آر ایس حکومت نے کئی رائے دہندوں کے نام حذف کردیئے ہیں۔ اکثر موقع پر الیکشن کمیشن اور میونسپل کارپوریشن ووٹر لسٹ کی مہم چلاتے ہیں اور ہر بار کی طرح اس بار بھی ووٹر لسٹ کی تنقیح کی جارہی ہے، نئے نام شامل ہوں گے تو پرانے نام حذف پائے جائیں گے۔ شہریوں نے شکایت کی ہے کہ بغیر کسی انکوائری اور تصدیق کئے ہی ان کے نام ووٹر لسٹ سے حذف کردیئے گئے ہیں۔ جو شہری بچپن سے بڑے ہونے تک ایک ہی مکان میں مقیم ہیں ان کا نام بھی ووٹر لسٹ میںدستیاب نہیں ہوتا ، اوراب جی ایچ ایم سی انتخابات سے قبل حکمران پارٹی نے ووٹر لسٹ کو درست کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ 16ستمبر تک تقریباً 6.7 لاکھ ووٹرس کا نام حذف کیا جاچکا ہے تو نئے ناموں کی شمولیت ممکن نہیں ہوگی۔ چیف منسٹر کے سی آر پر الزام ہے کہ انہوں نے بوگس رائے دہی کی خاطر 15لاکھ رائے دہندوں کا نام نکال دیا ہے۔ رائے دہندوں کے ناموں کو حذف کرنے کا یہ عمل بلالحاظ مذہب و ملت ہے۔ لیکن یہاں رہنے والے 30فیصد مسلمانوں، 30فیصد جلا وطن اور شمالی ہند کے ہندی بولنے والے 10فیصد ہیں جن کے ناموں کو عمداً حذف کیا گیا ہے۔ الیکشن کمیشن کے رازوں کو اگر کوئی یوں ہی فراڈ کے ذریعہ کھلواڑ کرتا ہے تو یہ سب کی ملی بھگت کا نتیجہ ہوسکتے ہیں۔ سیاستدانوں کا یہ ایک عجیب پُرفتن دور ہے، لمحوں میں حالات بدل رہے ہیں۔ ورنگل کے ضمنی انتخابات میں لوک سبھا کی نشست پر مقابلہ کرنے کیلئے ہر پارٹی کا امیدوار کوشاں ہے۔ یہ بھی قیاس آرائی ہورہی ہے کہ ڈپٹی چیف منسٹر اورکے سی آر کے دست راست نے ایک قیاس آرائی کی ہے کہ ان انتخابات میں امیدوار کا اعلان کویتا کریں گی۔
چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے دہلی میں قیام کے دوران صدر جمہوریہ پرنب مکرجی سے ملاقات کرتے ہوئے شہر میں ترقیاتی کاموں کیلئے مرکز کے فنڈس کی اجرائی کا بھی ذکر کیا۔ مرکزی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ سے ہائیکورٹ کی تقسیم کا عمل پورا کرنے پر زور دیا۔ چیف منسٹر کی حیثیت سے کے چندر شیکھر راؤ نے مرکز سے نمائندگی میں اپنے فریضہ کو حتی الامکان ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ بی جے پی حکومت کی وجہ سے تلنگانہ کے ساتھ جو رویہ اختیار کیا گیا ہے وہ ٹی آر ایس حکومت کیلئے تکلیف دہ بنتا جارہا ہے۔ سی بی آئی کے نرغے سے بچنے کیلئے چیف منسٹر نے مرکز سے دشمنی رکھنے سے بھی گریز کیا ہے۔ کوئی بھی چیف منسٹر مرکز سے تصادم کی راہ اختیار نہیں کرسکتا۔ سی بی آئی نے چیف منسٹر کے سی آر کے خلاف ان کی بعض غلطیوں میں پھانسنے کا جال بچھایا ہے۔ دراصل سی بی آئی مرکز کا وہ ہتھیار ہے جو اپنے مخالفین یا اس کے ساتھ تصادم کا رویہ اختیار کرنے والے ریاستی قائدین کے خلاف استعمال کرتا ہے۔ کسی بھی ریاستی چیف منسٹر کو اپنے مستقبل کا چراغ اس لئے روشن کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ سیاسی تاریکی کا شکار نہ بنادیا جائے۔ جب گھر کی چھت گرنے کو ہو تو کھانے پکانے کی تیاری کا فیصلہ نہیں کیا جاتا۔ اس لئے اپنی حکومت کی چھت کو بچانے کیلئے اپنے سیاسی وعدوں اور مسلمانوں سے کئے گئے 12فیصد تحفظات کی تکمیل کی تیاری کرنے سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ یہ چیف منسٹر کی مجبوری ہی ہے کہ وہ بی جے پی کو ناراض کرنے والا کام نہیں کریں گے۔ مسلمانوں کو 12فیصد تحفظات یا مسلمانوں کے حق میں کوئی بھی فلاح و بہبود کا کام کرتے ہیں تو بی جے پی کی ناراضگی مول لینی پڑے گی۔ پھر بھی تلنگانہ کے مسلمانوں کو چیف منسٹر کے وعدوں پر یقین ہے۔ مسلمانوں کی یہ امیدیں ان کا ہتھیار ہے۔ انسانی سوچ، انسان سے آگے کا سفر کرتی ہے۔ اس لئے مسلمانوں کے حق میں بہتر سوچنے والے چیف منسٹر کو اپنے اندر کے انسان سے آگے لے جانے کی ضرورت ہے۔ تلنگانہ خاص کر شہر حیدرآباد میں پولیس کے رول اور جرائم کے بڑھتے واقات بھی چیف منسٹر کے لئے درد سر بنتے جارہے ہیں۔ خاص کر شہر میں چین چھین لینے کے واقعات نے پولیس کو بھی بے بس کردیا ہے۔ حیدرآباد پولیس اور سائبر آباد پولیس نے کئی ٹیمیں تشکیل دی ہیں لیکن جرائم کا گراف بڑھتا ہی جارہا ہے۔ خواتین کو راہ چلتے دیکھ کر ان کے گلے سے سونے کی چین چھین لینا آسان رہزنی کا واقعہ بنتا جارہا ہے۔ لڑکیوں سے چھیڑ چھاڑ اور دیگر جنسی ہراسانی کے واقعات کی روک تھام کیلئے پولیس نے اپنی ’ شی ٹیم ‘ تشکیل دی تھی مگر اس ’ شی ‘ SHE ٹیم کا نتیجہ حسب توقع برآمد نہیں ہوسکا۔
شی ٹیم کی قیادت کرنے والی ایڈیشنل کمشنر کرائمس سواتی لاکرا نے جنسی ہراسانی کے خلاف بڑے پیمانے پر بیداری مہم چلائی تو اس سے خواتین اور لڑکیوں میں خود اعتمادی کو فروغ حاصل ہوا ہے تاہم کئی خواتین پولیس سے رجوع ہوکر اپنے ساتھ ہونے والی جنسی ہراسانی کی شکایت کرنے سے ہنوز گریز کرتی ہیں۔ پولیس نے گزشتہ سال 24اکٹوبر کو ہی شی ٹیم تشکیل دی تھی جس کے بعد سینکڑوں شکایات موصول ہوئیں لیکن پولیس اب تک صرف 281 افراد کو ہی پکڑ سکی ہے۔ ان میں 12کو نربھئے ایکٹ کے تحت ماخوذ کیا گیا۔ شہر میں پولیس نے جگہ جگہ سی سی ٹی وی کیمرے لگائے ہیں اس کے باوجود جرائم کرنے والوں کے حوصلے پست نہیں ہوئے۔ اگرچیکہ پولیس کے چوکس اقدامات کی ستائش کی جارہی ہے اور حیدرآباد میں ہر جگہ کلوزڈ سرکٹ کیمروں کی تنصیب مقبولیت اختیار کررہی ہے۔ ایڈیشنل ویلفیر اسوسی ایشنوں، ٹریڈرس اسوسی ایشنوں اور غیر سرکاری تنظیموں نے اس طرح سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب میں دلچسپی دکھائی ہے لیکن چین چھین لینے کے واقعات کم نہیں ہوئے۔ ہمایوں نگر میں یہ واقعات نمایاں ہورہے ہیں جوبلی ہلزمیں 2014 میں گرے ہاونڈس کانسٹبل کی جانب سے ایک صنعت کار کے اغواء کا معمہ اسی سی سی ٹی وی کیمرے کے ذریعہ حل کرلیا گیا تھا ۔ بہر حال پولیس کی کارکردگی سے ہی حکومت کی نیک نامی اور بدنامی ہوتی ہے۔ چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کو اپنی حکومت کو لاحق بدنامی کی فکر کھائے جارہی ہے۔ اس لئے وہ ہر شعبہ پر نظر رکھ کر کارکردگی کو بہتر انداز سے انجام دینے کی کوشش کررہی ہے۔
kbaig920@gmail.com