ولی دکنی پر فارسی شعراء کے اثرات

صابر علی سیوانی
ولیؔ دکنی نے جس دور میں آنکھیں کھولیں، وہ قطب شاہی اور عادل شاہی زوال کا دور تھا۔ اس کی بنیادیں کمزور پڑچکی تھیں۔ ولیؔ دکنی اورنگ آباد میں 1668ء یں پیدا ہوئے۔ شاہ وجیہ الدین سے مرید ہوئے وہ حنفی المسلک تھے۔ بیس برس تک علوم و فنون کی تحصیل کی، بعدازاں انہوں نے احمدآباد کا رُخ کیا جو اس زمانے میں علوم و فنون کا مرکز تھا۔ علوم کی تحصیل کے بعد ولی اپنے وطن واپس آگئے اور شعر و شاعری میں منہمک ہوگئے۔ اس دور میں مثنوی کا رواج عام تھا، لیکن ولیؔ نے اس سے الگ غزل کا انتخاب کیا اور غزل کی آبرو بن گئے۔ انہوں نے قصیدہ، مثنوی، مستزاد، رباعیات اور ترجیع بند بھی لکھیں۔ چونکہ وہ دور فارسی زبان و ادب سے بے اعتنائی اور اُردو زبان و ادب سے آشنائی کا دور تھا۔ اس لئے ولیؔ نے بھی اپنی شاعری کے لئے اُردو زبان کو ہی وسیلہ بنایا۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ فارسی زبان و ادب کا ایک وقیع ذخیرہ ولیؔ کے سامنے موجود تھا۔ ولیؔ نے فارسی ادبیات کا بغور مطالعہ بھی کیا تھا۔ 1700ء میں ولیؔ نے جب ولی ؔکا سفر کیا تو اسی دوران ان کی ملاقات ایک مشہور بزرگ شاہ سعد اللہ گلشن سے ہوئی ۔ انہوں نے ولیؔکو مشورہ دیا کہ فارسی کے مضامین، اسلوب اور لفظیات سے بلاجھجک استفادہ کریں، کیونکہ کوئی بھی اس کے متعلق بازپرس کرنے والا نہیں ہے۔ یہ مشورہ ولی کے لئے نہایت کارآمد ثابت ہوا۔ ولیؔ نے فارسی تراکیب، صنائع اور مرکب افعال کا استعمال اپنی شاعری میں کیا۔ فارسی شعراء کی غزلوں سے بخوبی استفادہ کیا

اور جابجا ان شاعروں کی شعری تخلیقات اُردو میں ہوبہو منتقل کرنے کی کوشش کی۔ کہیں کہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ولیؔ نے پورا کا پورا فارسی شعر اردو میں منتقل کردیا ہے، مگر سادگی، روانی، لطافت اور شستگی کو ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ ڈاکٹر شارب رُدولوی ’’مطالعہ ولیؔ تنقید و انتخاب‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’سادگی، روانی، رنگینی، سرخوشی، نشاطیہ کیفیت، تشبیہات و استعارات کی جدت، معنی آفریں تاثر وحسیت، تنوع اور ہندوستانی عنصر و فارسی کا بخوبی امتزاج ولیؔکا فن ہے۔ فارسی شاعری کے اثرات ولیؔکی شاعری پر نہایت گہرائی کے ساتھ موجود ہیں۔ چونکہ ان کے سامنے فارسی شاعری کا ایک وافر اور قابل لحاظ ذخیرہ موجود تھا، جسے انہوں نے بڑی مہارت سے اپنی شاعری کا حصہ بنایا اور شہرت و بلندی کی منزل پر پہنچے۔ جنوب سے شمال تک پورے ہندوستان میں ان کی شہرت کا سکہ جم گیا اور جب دوسری مرتبہ انہوں نے ابوالمعالی کے ہمراہ 1732ء میں دہلی کا سفر کیا تو اپنے ساتھ دیوان ریختہ بھی لے گئے، جو نہایت مقبول ہوا۔ بعدازاں سعدی، حافظ اور خسرو کے کلام کی جگہ قوال اور دوسرے لوگ ولیؔ کے اشعار گانے اور گنگنانے لگے۔ یہاں چند اشعار نقل کئے جاتے ہیں جس سے قارئین کو اندازہ ہوجائے گا کہ ولی ؔ کی شاعری پر فارسی شعراء نے کس قدر اثر ڈالا ہے۔ حافظ کے دیوان کا پہلا شعر ہے:

الا یاایھا الساقی ادرکاسا وناولھا
کہ عشق آسان نمود اول ولی افتاد مشکلہا
ولی نے اس مضمون کو یوں بیان کیا ہے:
اے ولی طرز عشق آساں نئیں
آزمایا ہوں میں کہ مشکل ہے
امیر خسرو کی ایک منزل کے یہ دو اشعار اور اسی بحر اور ردیف میں ولیؔ کا شعر ہے:
جان زتن بردی و درجانی ہنوز
دردہا دادی ودرمانی ہنوز
ملک دل کر دی خراب از تیغ ناز
و اندرین ویرانہ سلطانی ہنوز
ولیؔنے کہا ہے :
تو ہے رشک ِ ماہِ کنعانی ہنوز
تجھ کوں ہے خوباں میں سلطان ہنوز
نظیری کا ایک شعر ہے :
تو چنان گرفتہ ای جاں بہ میان جان شیریں
نہ تو ان تراز جان راز ہم امتیاز کردن
ولیؔنے نظیری کی پیروی کرتے ہوئے ہو بہو وہی مفہوم اپنے شعر میں نقل کیا ہے:
ایسا بسا ہے آکر تیرا خیال جیو میں
مشکل ہے جیو سوں تجھ کوں اب امتیاز کرنا
حافظ شیرازی کی اتباع کرتے ہوئے ولیؔ دکنی نے تعلی کے طور پر اپنی شاعری کی قدر و قیمت کا احساس دلانے کی کوشش کی ہے۔ حافظ شیرازی نے لکھا ہے:
قیمت در گراں مایہ چہ دانند عوام
حافظا گوہر یکدانہ مدہ جز بہ خواص
ولی نے حافظ کے اس شعر پر یوں طبع آزمائی کی ہے:
اے ولیؔ قدر تیرے شعر کی کیا بوجھے عوام
اپنے اشعار کوں ہرگز نہ تو دے جزبہ خواص
دوسری جگہ امیر خسرو کے عشقیہ شعر کے مفہوم کو من و عن نقل کرتے ہوئے اپنا مدعا ولیؔ نے بیان کیا ہے۔ امیر خسرو فرماتے ہیں:
از سر بالین من برخیز ای نادان طبیب
درد مند عشق را دارو بجز دیدار نیست
ولیؔ کہتے ہیں :-
مجھ درد پر دَوانہ کرو تم حکیم کا
بن وصل نئیں علاج برہ کے سقیم کا
الغرض ولیؔ کی شاعری پر فارسی شاعری کے اثرات نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔ فارسی تشبیہات و استعارات اور صنائع بدائع کی ولیؔ کی شاعری میں بھر مار ہے ۔

ولیؔ کی شاعری پر فارسی کے اثرات کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ چونکہ وہ دور فارسیکے جید شعراء متقدمین حافظ، سعدی اور خسرو وغیرہ کا تھا جس دور میں عوام بھی فارسی کا بخوبی ادراک و فہم رکھتے تھے اور خواص فارسی زبان میں گفتگو کرتے تھے۔ ولیؔ کے سامنے ایک عظیم سرمایہ شعر و سخن تھا۔ متقدمین اور عظیم نامور شعراء اپنا سرمایہ چھوڑ گئے تھے۔ فارسی شاعری ماحول میں ایسی رچ بس گئی تھی کہ اس سے دوری ممکن نہ تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ولیؔ کی شاعری فارسی کے اثرات سے مبرا نہ رہ سکی اور کافی حد تک اس کے اثرات ان کی شاعری پر مرتسم ہوئے۔ محاورے، تراکیب لفظی، صنائع و بدائع اور فکر و خیال کے ساتھ ساتھ اوزان و بحور بھی ان کی شاعری میں وہی در آئے جو فارسی شاعری کی بنیادی اوصاف تھے۔ ولیؔ نے اپنی شاعری میں اس قدر فارسی الفاظ کا استعمال کیا ہے کہ اگر ان کے اشعار سے فارسی کے الفاظ نکال دیئے جائیں تو صرف چند ہی الفاظ ایسے باقی بچیں گے جو اُردو کے ہوں گے، مثلاً یہ شعر:
درد مندوں کو سدا ہے قول مطرب دلنواز
گرمئی افسردہ طبعاں شعلہ ٔ آواز ہے
اگر اس شعر سے فارسی کے الفاظ ہٹادیئے جائیں تو پورے شعر میں ’کو‘ ہے کہ علاوہ اُردو کا کوئی لفظ نہیں رہے گا۔ اسی طرح مندرجہ ذیل اشعار کی تراکیب و مفہوم اور لفظیات پر غور کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ واقعی فارسیت کس قدردان کے ذہن پر غالب تھی۔
ماہِ نوتجھ بھواں پہ کرکے نظر
سوئے مغرب چلا ہے روبہ قفا
٭

صنم کے لعل پر وقتِ تکلم
رگِ یاقوت ہے موجِ تبسم
٭
تنگ چشمی ہے راہِ بے بصری
گرچہ مقدار چشمِ سوزن ہے
٭
اعجاز حسن دیکھ کے وہ روئے باعرق
پیدا کیا ہے چشمۂ آتش سوں آب آج
٭
ہر ذرۂ عالم میں ہے خورشید حقیقی
یوں بوجھ کہ بلبل ہوں ہر اک غنچہ دہاں کا
٭
آج سرسبز کوہ و صحرا ہے
ہر طرف سیر ہے تماشا ہے
٭
چہرۂ یار قامتِ زیبا
گل رنگین و سرو رعناہے
٭
معنیٔ حسن و معنیٔ خوبی
صورتِ یارسوں ہویدا ہے
٭
آج ہر گل نور کی فانوس ہے
کوہ و صحراء صورت طاؤس ہے
٭
کم نگاہی سے دیکھنے والے
کام اپنا تمام کرتے ہیں
٭
میرے سخن کو مہرسوں سنتا ہے وہ رنگین ادا
اے سرگزشت حال دل ، افسانہ ہو افسانہ ہو
مندرجہ بالا ابیات میں بالترتیب پہلے شعر میں ماہ ِنو، سوئے مغرب، روبہ قفاء، دوسرے شعر میں صنم، لعل ، وقت تکلم، رگِ یاقوت اور موج تبسم یہ سارے الفاظ فارسی سے اخذ کئے گئے ہیں۔ اگر ان الفاظ کو ہٹا دیا جائے تو صرف کرکے چلا ہے کہ علاوہ کوئی لفظ اُردو کا نہیں ہے۔ اسی طرح تیسرے شعر میں تنگ چشمی، راہ بے بصری، گرچہ، مقدار چشم سوزن جیسے الفاظ اس بات کی دلالت کرتے ہیں کہ ولیؔ کے اشعار میں فارسی الفاظ کا غلبہ ہے۔ اس شعر میں صرف دو الفاظ اُردو کے ہیں یعنی پہلے مصرعے میں لفظ ’’ہے‘‘ اور پھر دوسرے مصرعہ میں بھی وہی لفظ ’ہے‘ اُردو کا استعمال ہوا ہے۔ چوتھے شعر میں اعجاز ، زحسن روئے باعرق، چشمہ ٔ آتش، اور آب جیسے الفاظ و تراکیب مکمل طور پر فارسی کے ہیں۔ صرف دیکھ کے، آج، پیدا کیا ہے، جیسے الفاظ اُردو کے ہیں۔

پانچواں شعر ہر ذرۂ عالم میں ہے خورشید حقیقی، یوں بوجھ کہ بلبل ہوں ہر اک غنچہ وہاں کا۔ اس میں سے اگر فارسی الفاظ نکال دیئے جائیں تو صرف میں ہے یوں بوجھ، ہر ایک اور لفظ کا، باقی ، یہ پورا شعر فارسی ترکیب، اضافت لفظی اور تشبیہ و کنایہ سے مملو ہے۔
اسی طرح چھٹے اشعار میں سرسبز، کوہ و صحرا، سیر تماشا جیسے الفاظ اُردو کے نہیں ہیں، صرف لفظ آج ہے، ہر طرف وغیرہ الفاظ اُردو کے ہیں، اسی طرح اس کے بعد کے اشعار میں چہرہ یار، قامت زیبا، گل رنگین و سرو رعنا ہے۔ میں اُردو کا لفظ ڈھونڈنے سے صرف ایک ہی ملے گا اور وہ ہے لفظ ’’رہے‘‘ اسی طرح بعد کے شعر معنی حسن و معنی خوبی، صورت یارسوں ہویدا ہے۔ میں کس قدر فارسی الفاظ موجود ہیں۔ اس میں بھی صرف ایک لفظ ’’ہے‘‘ اُردو زبان کا استعمال ہوا ہے۔
آج ہر گل نور کی فانوس ہے
کوہ و صحرا صورت طاؤس ہے
یہ شعر بھی اپنی فارسی ترکیب، فارسی الفاظ اور فارسی خیال کا آئینہ دار ہے۔ فکر و خیال کی بلندی کے ساتھ ساتھ شعر میں موسیقیت اور روانی ہے۔ ایسا نہیں لگتا ہے کہ اس شعر میں اُردو کے علاوہ دوسری زبان کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔
ولیؔ کا یہ مشہور شعر جس میں محبوب کی اداؤں، خوبیوں اور اس کی دلفریبیوں کو بڑی خوبی سے بیان کیا ہے اور تکرار لفظی کا خوب فائدہ اٹھایا ہے، حالانکہ اس شعر میں اردو الفاظ ندارد ہیں، تاہم ایسا احساس نہیں ہوتا ہے کہ اس میں فارسی کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ وہ شعر یہ ہے :
خوب رو خوب کام کرتے ہیں
یک نگہ میں غلام کرتے ہیں
خوبرو خوب، یک نگہ، جیسے الفاظ اُردو میں اس طرح رچ بس گئے ہیں کہ اس بات کا احتمال ہی نہیں ہوتا کہ یہ فارسی کے الفاظ ہیں۔ اسی طرح کم نگاہی، ولے، کام تمام کرنا یہ تراکیب بھی فارسی کی ہیں اور الفاظ بھی فارسی سے مستعار لئے گئے ہیں۔

آخری شعر جس میں سرگزشت، حال دل، سخن، رنگین ادا جیسے الفاظ ولیؔ نے ذہنی و فکری رجحان کو بخوبی واضح کردیا ہے۔
چند اشعار کے حوالے سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ولیؔ نے اپنی فکری بساط کی بنیاد فارسی پر رکھی تھی۔ الفاظ و تراکیب، خیال و فکر، صنائع و بدائع، وغیرہ میں بھرپور فارسی کی عکاسی نظر آتی ہے۔ بہت سے فارسی اشعار کو ہوبہو چند الفاظ کے تغیر کے ساتھ اُردو میں نقل کردیا ہے۔ کہیں کہیں فارسی اشعار کے مفاہیم کو اُردو کے شعر میں موزوں کردیا ہے اور کہیں کہیں فارسی تراکیب کو اس طرح استعمال کیا ہے کہ ایسا احساس نہیں ہوتا ہے کہ یہ تراکیب اُردو کے نہیں ہیں۔

الغرض ولیؔ کی شاعری پر فارسی کے اثرات از ابتداء تا انتہائی دکھائی دیتے ہیں اور اس قدر اثرات دوسرے اُردو شعراء یا ان کے معاصرین کی شاعری پر نظر نہیں آتے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ولیؔ کی فارسی دانی بہ نسبت ان کے معاصر اُردو شعراء کہیں وسیع تر تھی۔ انہوں نے فارسی شاعری کا گہرا مطالعہ کیا تھا اور خصوصاً حافظ ، سعدی ،خسرو، نظیری وغیرہ سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ اس لئے ان شعراء کے اثرات بھی ان کی شاعری میں کہیں زیادہ نظر آتے ہیں۔
ولیؔ کی فارسی شاعری کی طرف رجحان کے متعلق نورالحسن ہاشمی اپنی کتاب ’’ولیؔ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’ولیؔ نے پہلے پہل دکنی زبان اور دکنی انداز میں سخن گوئی شروع کی مگر معلوم ہوتا ہے کہ انہیں جلد ہی اس کا احساس ہوگیا کہ فارسی زبان کے الفاظ اور فارسی انداز اختیار کرنے سے ان کی شاعری وسیع تر حلقوں میں مقبول ہوسکے گی۔ اس لئے انھوں نے ایسی زبان میں شعر گوئی شروع کردی جو دکن اور شمالی ہند دونوں جگہ آسانی سے سمجھی اور پسند کی جاسکتی تھی۔ بہت سے فارسی کے مرکب افعال کے ترجموں سے اُردو زبان کو مالا مال کیا جو اس وقت ہندی، ہندوی یا ہندوستانی کہلاتی تھی‘‘۔
mdsabirali70@gmail.com
m-m-m