وقف بورڈ میں این او سی کی اجرائی کیلئے 35 لاکھ رشوت

منان فاروقی کو 25 لاکھ اور بروکر کو 10لاکھ، غیر مجاز قابضین نے صدر نشین محمد سلیم کے روبرو بھانڈہ پھوڑ دیا
پیر کو وقف بورڈ کے اجلاس میں طلبی
این او سی اسکام
’روزنامہ سیاست‘ کا انکشاف درست ثابت

حیدرآباد۔/12مئی، ( سیاست نیوز) تلنگانہ وقف بورڈ میں 35 لاکھ روپئے کا این او سی اسکام منظر عام پر آیا۔ روز نامہ ’’سیاست‘‘ نے 25 نومبر کو وقف بورڈ کی جانب سے جاری کردہ این او سی کو منظر عام پر لایا تھا جس میں اوقافی اراضی کو غیر اوقافی قرار دیتے ہوئے غیر مجاز قابضین کی مدد کی گئی تھی۔ 26 مئی 2017 کو جاری کئے گئے اس این او سی پر اس وقت کے چیف ایکزیکیٹو آفیسر منان فاروقی کے دستخط ہیں۔ ’سیاست‘ کی جانب سے این او سی اسکام کو منظر عام پر لانے کے بعد سے پولیس اور وقف بورڈ کی جانب سے دو علحدہ تحقیقات کا آغاز ہوا۔ لیکن آج تک کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ ابتداء میں اسے جعلی این او سی تصور کیا جارہا تھا لیکن اب بھاری رشوت کے عوض جاری کیا گیا اصلی این او سی ثابت ہوا ہے۔ جن افراد کے حق میں یہ این او سی جاری کیا گیا تھا انہوں نے تنگ آکر اسکام کا بھانڈہ پھوڑ دیا جس میں جملہ 35 لاکھ روپئے کی ادائیگی کو قبول کیا گیا۔کروڑہا روپئے مالیتی قیمتی اراضی پر قبضہ کے خواہشمند افراد اس وقت اسکام کو بے نقاب کرنے پر مجبور ہوگئے جب وقف بورڈ نے گزٹ نوٹیفکیشن کو نہ صرف منسوخ کردیا بلکہ اب اراضی اُن افراد کے ہاتھ سے نکل گئی۔ جن افراد کو رقم دی گئی وہ وعدہ کی تکمیل میں ناکام ثابت ہوئے۔ اسکام کو منظر عام پر لانے میں صدر نشین وقف بورڈ محمد سلیم کا سخت گیر رویہ نے بھی اہم رول ادا کیا جنہوں نے مکمل شفافیت کے ساتھ کارکردگی کو برقرار رکھتے ہوئے کسی بھی دباؤ کے آگے جھکنے سے انکار کردیا جس کے نتیجہ میں خود قابضین ان کے آگے سرینڈر ہوگئے۔ وقف بورڈ میں یوں تو کئی اسکام فائیلوں میں دبے ہوئے ہیں لیکن یہ اسکام حالیہ عرصہ کا سب سے بڑا اسکام ہے جس میں ملکاجگری کی 4 ایکر 5 گنٹے اوقافی اراضی کو وقف بورڈ نے غیر اوقافی قرار دیتے ہوئے نہ صرف این او سی جاری کیا بلکہ گزٹ نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا گیا۔ درگاہ حضرت میر محمود پہاڑی کے تحت موجود اس اراضی کو غیر اوقافی قرار دینے کیلئے 2 افراد نے جملہ 35 لاکھ روپئے حاصل کئے تھے۔

نکا نرسنگ راؤ نامی شخص کی درخواست پر اسوقت کے چیف ایکزیکیٹو آفیسر منان فاروقی نے این او سی جاری کیا تھا اور کلکٹر ملکاجگری کے نام مکتوب روانہ کرتے ہوئے اوقافی اراضی کے سروے نمبرات کو غیر اوقافی قرار دینے کی خواہش کی۔ چیف ایکزیکیٹو آفیسر کے مکتوب پر محکمہ پرنٹنگ اینڈ اسٹیشنری نے نیا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کیا جس میں اوقافی اراضی کے سروے نمبرات کو حذف کردیا گیا۔ ’سیاست‘ کی جانب سے اسکام کو منظر عام پر لائے جانے کے بعد وقف بورڈ نے پولیس میں شکایت درج کی تھی۔ اسوقت چیف ایکزیکیٹو آفیسر نے این او سی کی اجرائی کی تردید کی تھی اور اُن کے دستخط دھوکہ سے حاصل کرنے کا عذر پیش کیا تھا۔ فارنسک رپورٹ میں منان فاروقی کی دستخط اصلی ثابت ہوئی ہے اور آج متعلقہ پارٹی نے صدرنشین وقف بورڈ محمد سلیم کے روبرو 35 لاکھ روپئے کی ادائیگی کی تفصیلات بیان کی۔ ملکاجگری کی 4 ایکر 5 گنٹے اراضی کے دعویدار آج وقف بورڈ پہنچے اور صدرنشین کو بتایا کہ این او سی کی اجرائی کیلئے انہوں نے کھمم سے تعلق رکھنے والے ایک درمیانی شخص کی خدمات حاصل کی تھی جسے 10 لاکھ روپئے ادا کئے گئے جبکہ اسوقت کے چیف ایکزیکیٹو آفیسر کو 25 لاکھ روپئے ادا کئے گئے۔ صدرنشین وقف بورڈ نے ان افراد کو پیر کے دن وقف بورڈ طلب کیا جس دن وقف بورڈ کا اجلاس مقرر ہے۔ اجلاس میں مذکورہ افراد دوبارہ اپنا بیان دیں گے اور تفصیلات پیش کریں گے۔ مقامی افراد نے فارنسک رپورٹ کی نقل بھی صدرنشین وقف بورڈ کو پیش کی جس میں منان فاروقی کے دستخط اصلی ہونے کی بات کہی گئی ہے۔ پیر کے روز وقف بورڈ کا اجلاس ہنگامہ خیز ثابت ہوسکتا ہے اور سابق سی ای او کے خلاف فوجداری مقدمہ درج کیا جاسکتا ہے۔ اس معاملہ کو چیف منسٹر سے رجوع کرتے ہوئے اسکام میں ملوث دیگر افراد کا پتہ چلانے کیلئے سی بی سی آئی ڈی تحقیقات کی سفارش کی جاسکتی ہے۔ حالیہ عرصہ میں غیر مجاز قابضین کی جانب سے اوقافی جائیدادوں کی فروخت کے کئی معاملات منظر عام پر آئے لیکن بورڈ کے اعلیٰ عہدیدار کی جانب سے اُن کی مدد کے سلسلہ میں این او سی کی اجرائی اور گزٹ نوٹفکیشن کی تنسیخ سنگین جرم ہے۔ واضح رہے کہ وقف بورڈ کے ریکارڈ میں سروے نمبرات 648 ، 659 اور 660 اوقافی اراضی کے طور پر درج ہیں لیکن این او سی میں انہیں غیر اوقافی قرار دیا گیا۔

نکا نرسنگ راؤ نے یکم مئی 2017 کو وقف بورڈ میں درخواست داخل کی تھی اور 26 مئی کو تینوں سروے نمبرات غیر اوقافی قرار دیتے ہوئے ضلع کلکٹر کو مکتوب روانہ کردیا گیا۔ سروے نمبر 468کے تحت ایک ایکر 28 گنٹے، سروے نمبر 659 کے تحت 31 گنٹے اور سروے نمبر 660 کے تحت ایک ایکر 26 گنٹے اوقافی اراضی ہے۔ یہ تمام اسکام انتہائی رازداری میں انجام دیا گیا جس میں وقف بورڈ کے دیگر عہدیداروں اور بورڈ سے وابستہ بعض افراد کے ملوث ہونے کا شبہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ مذکورہ فائیل کو صدرنشین کے پاس روانہ کئے بغیر ہی این او سی جاری کردی گئی تھی۔ وقف ریکارڈ کے مطابق درگاہ حضرت میر محمود پہاڑی کے تحت 328 ایکر 19 گنٹے اراضی درج ہے لیکن بھاری رقم کیلئے وقف ریکارڈ کو جھٹلادیا گیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس معاملہ کی تفصیلی جانچ کی صورت میں کئی اور چہرے بے نقاب ہوسکتے ہیں۔ وقف مافیا کی سرگرمیاں عروج پر ہیں جس کا یہ جیتا جاگتا ثبوت ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس سی ای او نے این او سی جاری کیا اور گزٹ نوٹیفکیشن کی تنسیخ کے لئے پرنٹنگ اینڈ اسٹیشنری ڈپارٹمنٹ کو مکتوب لکھا اُسی سی ای او نے پولیس میں شکایت درج کی اور انھیں کی دستخط سے گزٹ نوٹیفکیشن کی تنسیخ کیلئے پرنٹنگ اینڈ اسٹیشنری ڈپارٹمنٹ کو درخواست دی گئی۔ اس طرح ایک ہی عہدیدار نے ڈبل رول ادا کیا اور خود کو بچانے کی کوشش کی۔ وقف بورڈ نے 3 ارکان پر مشتمل تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دی جس نے ابھی تک اپنی رپورٹ پیش نہیں کی۔ صدرنشین وقف بورڈ محمد سلیم نے تفصیلات جاننے کے بعد سخت برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ اسکام میں ملوث کوئی بھی ہوں انہیں بخشا نہیں جائیگا۔ انہوں نے کہا کہ 1969 سے اب تک جاری کردہ تمام این او سیز کی جانچ کیلئے کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔