رشیدالدین
پٹھان کوٹ دہشت گرد حملہ کے پس منظر میں ہند۔پاک معتمدین خارجہ کی بات چیت پر جو بادل منڈلا رہے تھے، وہ آخر کار برس ہی گئے۔ دونوں ممالک نے باہمی رضامندی سے مذاکرات کو موخر کرنے سے اتفاق کرلیا ہے۔ دونوں ممالک نے خالص سفارتی زبان اور محتاط لب و لہجہ اختیار کرتے ہوئے مذاکرات کے التواء کے بجائے ری شیڈول کا لفظ استعمال کیا، جس کا مطلب مذاکرات کے پروگرام کی تاریخ کو آگے بڑھانا ہے۔ اس موقف سے دونوں ممالک یکساں طور پر قصوروار دکھائی دے رہے ہیں ۔ حملہ آور اور مظلوم میں کوئی فرق نظر نہیں آرہا ہے۔ آخر اس طرح کے کمزور بلکہ دباؤ کے تحت کئے گئے فیصلہ کی کیا ضرورت تھی۔ پڑوسی ملک سے رشتوں کی استواری اور تعلقات میں استحکام اپنی جگہ ہے لیکن اس کیلئے قومی سلامتی پر کس طرح سمجھوتہ کیا جاسکتا ہے۔ ’’آزمائے ہوئے کو دوبارہ آزمانا جہل ہے‘‘، اس قول کے مطابق اب نریندر مودی حکومت کے اس موقف کو کیا کہا جائے۔نریندر مودی حکومت کے موجودہ موقف نے دراصل ہندوستانی افواج کے حوصلے پست کرنے کا کام کیا ہے۔ پٹھان کوٹ واقعہ کے بعد بھی دونوں ممالک کی جانب سے بات چیت جاری رکھنے کا فیصلہ خوش آئند اس وقت ہوتا جب پاکستان پٹھان کوٹ حملہ کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرتا۔ مرکز نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان کی جانب سے حملہ کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی پر مذاکرات کا انحصار ہوگا اور یہ اصولی موقف تھا۔ پاکستان نے حملہ کی جانچ کیلئے خصوصی ٹیم تشکیل دی ہے اور جیش محمد اور اس کے سربراہ مولانا مسعود اظہر کے خلاف رسمی کارروائی کی گئی جو مذاکرات کی برقراری کا جواز نہیں بن سکتا۔
ایسے مذاکرات کس کام کے جب دونوں ممالک میں عدم اعتماد کی فضاء برقرار رہے۔ حیرت تو وزیراعظم نریندر مودی پر ہے، جنہوں نے پاکستان کی رسمی کارروائیوں پر بھروسہ کرلیا۔ دراصل دونوں ممالک اس طرح کے فیصلوں میں آزاد نہیں ہیں اور کسی دباؤ کے تحت کٹھ پتلی کا کردار نبھا رہے ہیں۔ مذاکرات اور تعلقات کی صورتحال دونوں ممالک کے بس میں نظر نہیں آتی۔ امریکہ کے اشارہ پر خارجہ پالیسی کے اہم فیصلے کئے جارہے ہیں۔ مذاکرات یقینی بنانے کیلئے پاکستان نے پہلے تو مولانا مسعود اظہر کی گرفتاری کا اعلان کیا، بعد میں اس کی تردید کی گئی۔ جب ہندوستان کی جانب سے دباؤ بڑھنے لگا تو یہ اعلان کیا گیا کہ مسعود اظہر کو تحقیقات کیلئے حراست میں لیا گیا ہے ۔ اگر ہندوستان کی جانب سے ثبوت مولانا مسعود اظہر کے خلاف پائے گئے تو انہیں گرفتار کیا جائے گا۔ صاف ظاہر ہے کہ ہندوستان کی جانب سے فراہم کردہ ثبوتوں سے پاکستانی حکومت مطمئن نہیں ہے اور ویسے بھی پاکستانی حکومت کو کسی کے خلاف کارروائی سے قبل فوج کی منظوری ضروری ہے۔
ہوسکتا ہے کہ حکومت کارروائی کیلئے تیار ہو لیکن فوج رکاوٹ پیدا کر رہی ہے۔ چونکہ دونوں ممالک کو کسی قیمت پر مذاکرات پر قائم رہنا تھا ، لہذا فیس سیونگ کے طور پر تاریخ کو آگے کردیا گیا اور ملتوی کہنے سے دونوں بچ رہے ہیں۔ دونوں ممالک نے مل کر مذاکرات کے ری شیڈول کا ڈرامہ کیا ہے۔ عوام کی ناراضگی اور شرمندگی سے بچنے کیلئے بات چیت سے دوری کے بجائے اسے موخر کرنے کا اعلان کیا گیا۔ ہندوستان کے موقف سے اس کی کمزوری اور تیسرے فریق کا دباؤ صاف طور پر جھلک رہا ہے ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہندوستان سابقہ تجربات سے سبق لینا نہیں چاہتا۔ معاملہ تو یہ ہوگیا کہ پاکستان حملے جاری رکھے اور ہندوستان مذاکرات جاری رکھے گا۔ کیا یہ وہی مرد آہن نریندر مودی اور دیش بھکت بی جے پی کی حکومت ہے، جس نے یو پی اے حکومت کو پاکستان پر حملے کا مشورہ دیا تھا۔ معتمدین خارجہ کی بات چیت کے ری شیڈول کے سلسلہ میں ہندوستان کا جو لب و لہجہ ہے ، وہ عجیب ہی نہیں بلکہ زنانی انداز کا ہے۔ اگر کانگریس یہی لب و لہجہ اختیار کرتی تو کیا بی جے پی قبول کرتی؟ نریندر مودی شائد بھول گئے کہ انہوں نے منموہن سنگھ حکومت کو لو لیٹر لکھنے کے بجائے پاکستان کو اسی کی زبان میں جواب دینے کی صلاح دی تھی لیکن آج جب اپنا معاملہ آگیا تو نسوانی موقف کیوں ؟ نریندر مودی کے اچانک دورہ لاہور کا جواب پاکستان نے جس طرح پٹھان کوٹ حملہ کی صورت میں دیا، وہاں پر مذاکرات کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ ہم بھی مذاکرات کے خلاف نہیں ہیں لیکن اس کے لئے ماحول سازگار ہونا چاہئے۔
دونو ںجانب سے یکساں خیر سگالی کا عملی مظاہرہ ہو ۔ حملہ کے ذمہ داروں کے خلاف ٹھوس کارروائی کے بغیر مذاکرات جاری رکھنا ملک کے مفاد میں نہیں ہے۔ پاکستان کی جانب سے کی گئی کارروائی محض آئی واش اور دکھاوا ہے۔ پاکستان نے سابق میں پارلیمنٹ پر حملہ اور ممبئی دہشت گرد حملے کے ذمہ داروں کے خلاف کیا کارروائی کی جو پٹھان کوٹ کے خاطیوں کے خلاف کی جائے گی ۔ حالانکہ ان دونوں حملوں میں ملوث افراد کے بارے میں ہندوستان نے ثبوت فراہم کئے تھے۔ حافظ سعید اور ذکی الرحمن لکھوی کے خلاف یہ کہتے ہوئے کارروائی سے گریز کیا گیا کہ ان کے خلاف ثبوت ناکافی ہیں۔ پٹھان کوٹ کے معاملہ میں بھی یہی ہوگا ۔ ابتدائی دکھاوے کی کارر وائی کے بعد ناکافی ثبوت کا بہانہ بنادیا جائے گا ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پا کستان میں منتخب جمہوری حکومت ضرور ہے لیکن حکومت کی باگ ڈور فوج کے ہاتھ میں ہے، حکومت چاہے کسی کی ہو ، وہ فوج کے رحم کو کرم پر ہوتی ہے۔ جب تک فوج کی مرضی نہ ہو کوئی فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس کا اعتراف خود پاکستانی سیاستدانوں نے کیا ہے۔ ہندوستان نے صرف مذاکرات جاری رکھنے سے اتفاق نہیں کیا بلکہ پاکستان کی رسمی کارروائیوں کا خیرمقدم بھی کیا ہے ۔ نریندر مودی دراصل پاکستان کی محبت میں اس قدر آگے بڑھ گئے کہ واپسی کا کوئی راستہ باقی نہیں رہا۔
بی جے پی ہمیشہ اصول اور اقدار کی بات کرتی ہے۔ اس لحاظ سے پٹھان کوٹ حملہ کی اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے وزیر دفاع منوہر پریکر کو مستعفی ہوجانا چاہئے تھا۔ وزیر دفاع تو منہ توڑ جواب دینا کا دعویٰ کر رہے ہیں لیکن حکومت مذاکرات سے دستبردار ہونے تیار نہیں۔ کیا اس سے دنیا بھر میں مخالف ہندوستان عناصر کے حوصلے بلند نہیں ہوں گے؟ نریندر مودی لاہور میں نواز شریف کی پرتکلف ضیافت سے ابھی تک ابھر نہیں پائے ہیں۔ اگر پٹھان کوٹ حملوں کے باوجود مذاکرات سے دستبرداری نہیں تو پھر پاکستان ہائی کمشنر کی حریت قائدین سے ملاقات پر سابق میں مذاکرات سے کیوں علحدگی اختیار کرلی گئی تھی۔ ہائی کمشنر سے حریت قائدین سے ملاقات سنگین معاملہ تھا، یا پھر پٹھان کوٹ حملہ ۔ پھر دوہرے معیارات کیوں ؟ قومی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو ممبئی حملہ سے زیادہ سنگین پٹھان کوٹ حملہ تھا کیونکہ ایرفورس ہیڈکوارٹرس کو نشانہ بنایا گیا اور فضائیہ کا مرکز آزاد کرانے کیلئے دو دن لڑائی جاری رہی۔ یہ وقت تھا پاکستان کو خاطیوں کے خلاف کارروائی پر مجبور کیا جاتا۔ جب پاکستان پر دباؤ بنانے اور ایکشن کا وقت آیا تو مودی حکومت نے کمزور موقف اختیار کرتے ہوئے عوام کو مایوس کیا ہے ۔ ملک کا وقار داؤ پر ہے اور مرکز مفاہمانہ موڈ میں ہے۔ صورتحال تو یہ ہے کہ اگر مودی بیرونی سفر پر روانہ ہوں اور راستہ میں پاکستان پڑ جائے تو وہ دوبارہ وہاں جائیں گے۔ شائد وہاں کے کھانے مودی کو پسند آچکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مودی نے نواز شریف سے کہا ’’آنا جانا لگا رہے گا…‘‘ کہاں ہے آر ایس ایس اور سنگھ پریوار جو دیش بھکتی کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے۔
مودی حکومت موقف پر وہ خاموش کیوں لی ہے؟ نارتھ کوریا نے بم کا تجربہ کیا تو اقوام متحدہ سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس طلب کرتے ہوئے مذمت کی گئی لیکن پٹھان کوٹ حملہ پر آج تک اقوام متحدہ سے ہندوستان نے شکایت تک نہیں کی۔ حد تو یہ ہے کہ ہندوستان نے سفارتی سطح پر رسمی احتجاج تک نہیں کیا۔ حالانکہ اسے اپنا سفیر واپس طلب کرتے ہوئے یا پھر پاکستانی ہائی کمشنر کو وزارت خارجہ میں طلب کرتے ہوئے احتجاج درج کراناچاہئے تھا۔ منموہن سنگھ کی خاموشی کو مون ورت کہنے والے نریندر مودی پاکستان کی جارحیت پر اپنا مون ورت کب توڑیں گے ؟ موبائیل فون سے سیلفی کھینچنے کے ماہر وزیراعظم آج سائلینٹ موڈ پر کیوں ہیں؟ خارجہ سطح پر یہ صورتحال ہے تو دوسری طرف مہنگائی سے عوام پریشان ہیں۔ عالمی منڈی میں کروڈ آئیل کی قیمت گھٹنے سے عوام میں امید جاگی تھی کہ اشیائے ضروریہ کی قیمتیں کم ہوں گی لیکن عوام کی امیدوں پر پانی پھرگیا۔ کروڈ آئیل کی قیمت سے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں کا راست تعلق ہے۔ عالمی منڈی میں کروڈ آئیل جو حالیہ عرصہ تک 75 تا 80 ڈالر فی بیارل تھا، آج 30 ڈالر سے بھی کم ہوچکا ہے۔ کئی ممالک کی معیشت بحران کا شکار ہوچکی ہے اور خلیجی ممالک اپنی معیشت کو بچانے جدوجہد کر رہے ہیں۔ کروڈ آئیل کی قیمت میں کمی کے اثرات دنیا بھر میں دیکھے جارہے ہیں لیکن ہندوستان میں مہنگائی کی رفتار برقرار ہے۔ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں کوئی کمی نہیں کی گئی۔ الٹا زائد ٹیکسوں کے ذریعہ قیمتوں میں اضافہ کو برقرار رکھا گیا ہے ۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ عالمی منڈی میں کر وڈ آئیل کی موجودہ قیمت کے لحاظ سے ہندوستان میں پٹرول کی قیمت گھٹ کر 40 روپئے تک ہونی چاہئے تھی لیکن حکومت کو غریب اور متوسط طبقات کی کوئی فکر نہیں ہے۔ پٹرولیم اشیاء کی قیمتوں میں کمی سے مہنگائی پر بآسانی قابو پایا جاسکتا ہے ۔ 100 دن میں مہنگائی پر قابو پانے کا دعویٰ کرنے والے نریندر مودی کو لفاظی اور ڈائیلاگ ڈلیوری سے فرصت نہیں۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ عالمی منڈی میں کروڈ آئیل کی قیمت میں کمی سے ہندوستانی معیشت پر پڑنے والے اثرات کی عوام سے وضاحت کریں۔ ہند۔پاک مذاکرات کی ڈرامہ بازی پر اوجؔ یعقوبی کا یہ شعر صادق آتا ہے ۔
میں بھی ہوں تم بھی ہو وقت کا آئینہ بھی
وقت کا کون اداکار ہے تم خود سوچو