رشیدالدین
دہلی ہندوستان کا دل ہے اور اس پر کس کا راج ہوگا، دہلی والوں کے دل میں کون جگہ بنا پائے گا اور کس کی حکمرانی ہے؟ اس کا فیصلہ رائے دہندوں نے ووٹنگ مشینوں میں بند کردیا ہے اور 2 دن بعد عوام کا فیصلہ منظر عام پر آئے گا۔عوامی فیصلہ کے بارے میں عام آدمی پارٹی اور بی جے پی کے دعوے اپنی جگہ برقرار ہیں۔ تاہم آثار و قرائن دہلی میں عام آدمی کو سبقت کا اشارہ دے رہے ہیں۔ نئی دہلی اسمبلی انتخابات ایک طرف نریندر مودی کی مقبولیت تو دوسری طرف ان کی قیادت میں مرکز کی 8 ماہ کی کارکردگی پر ریفرنڈم ہے تو ساتھ ہی اسے منی نیشنل الیکشن بھی کہا جاسکتا ہے۔ دہلی اگرچہ ایک ریاست ہے لیکن بی جے پی نے اسمبلی انتخابات کو لوک سبھا کے عام انتخابات کی طرح مقابلہ کیا۔ وزیراعظم نریندر مودی نے اپنی خطابت کی ساری صلاحیتوں کو جھونک دیا اور الفاظ کی جادوگری کے ذریعہ رائے دہندوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی۔
نہ صرف مودی بلکہ ان کے سپہ سالار امیت شاہ ساری فوج کے ساتھ انتخابی مہم میں کود پڑے۔ پوری طاقت جھونکنے کے باوجود بھی نتائج بی جے پی کے حق میں آنے کے امکانات کم ہی دکھائی دے رہے ہیں ۔ دہلی میں مودی کا میجک اپنا اثر دکھائے گا یا پھر جھاڑو کا جادو چلے گا۔ اس کا فیصلہ عوام نے کردیا ہے۔ عام انتخابات اور بعض ریاستوں کے اسمبلی انتخابات میں کامیابی کے نشہ میں چور بی جے پی نے دہلی میں نریندر مودی کی مقبولیت پر سوار ہوکر کامیابی کا خواب دیکھا تھا لیکن دہلی کے عوام نے جب بی جے پی کو کارکردگی کی کسوٹی پر جانچنا شروع کیا تو مودی کی جگہ کرن بیدی کے چہرہ کو آگے کردیا گیا تاکہ شکست کی صورت میں مودی پر ذمہ داری نہ آئے۔ کرن بیدی کے چہرہ کے ساتھ بی جے پی نے لوک سبھا کی طرح انتخابی مہم چلائی ۔ حکومت اور پارٹی کو انتخابی مہم میں جھونک دیا گیا۔
مودی نے دہلی اسمبلی چناؤ کو منی الیکشن کا رنگ دیا۔ 31 جنوری کی ریالی میں مودی نے کہا کہ ’’دہلی کے چناؤ پر دنیا بھر کی نظریں ہیں اور دہلی ہندوستان کا چہرہ ہے‘‘۔ بی جے پی جب دہلی والوں کا دل نہ جیت سکی تو رائے دہی سے عین قبل پارٹی نے کہہ دیا کہ نتائج مودی اور ان کی حکومت پر ریفرنڈم نہیں ہیں۔ ایک مرحلہ پر نریندر مودی نے نصیب کا مسئلہ اٹھاتے ہوئے خود کو خوش نصیب ثابت کرنے کی کوشش کی اور مخالفین کو بدنصیب قرار دیا۔ مودی شائد بھول گئے کہ نصیب کو بدنصیب ہونے میں دیر نہیں لگتی۔ مودی نے کہا تھا کہ ملک کا جو موڈ ہے ، وہی دہلی کا موڈ ہے۔ ملک جو چاہتا ہے ، دہلی وہی چاہتی ہے۔ مودی کی اس لفاظی کا عوام پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ رائے دہی سے عین قبل بی جے پی نے یہ کہتے ہوئے اپنی شکست کو تسلیم کرلیا کہ مقابلہ کرن بیدی اور کجریوال کے درمیان عوامی پسند کا ہے۔ لمحہ آخر میں بی جے پی نے نصف سے زائد مرکزی وزراء ، تین چیف منسٹرس اور 120 ارکان پارلیمنٹ کو انتخابی میدان میں اتارا۔ اس کے علاوہ عام آدمی پارٹی کی کردار کشی اور عوام کا دل جیتنے کوئی حربہ نہیں چھوڑا گیا۔ اگر بی جے پی کو کامیابی ملتی ہے تو یقینی طور پر اس کا کریڈٹ مودی لہر کو دیا جائے گا۔ بی جے پی کے داخلی سروے کے علاوہ آر ایس ایس قیادت نے بھی دبے الفاظ میں عام آدمی پارٹی کی برتری کو قبول کرلیا ہے سبرامنیم سوامی نے پارٹی میں محاسبہ کا مشورہ دیا جبکہ وینکیا نائیڈو نے یہ کہتے ہوئے وزیراعظم سے وفاداری جتائی کہ پارٹی کی شکست سے نریندر مودی کی مقبولیت میں فرق نہیں پڑے گا۔ امیت شاہ کا یہ کہنا کہ دہلی کے نتیجہ سے پارٹی کی آئندہ کامیابیوں کا تسلسل نہیں ٹوٹے گا، دراصل کمزور مظاہرہ کو قبول کرنے کے مترادف ہے۔ اگر نتائج انتخابی سروے کے مطابق رہے تو دہلی کی شکست کیلئے مودی اور امیت شاہ ذمہ دار ہوں گے۔
الیکشن سروے کے نتائج کو یقینی طور پر نریندر مودی کی 8 ماہ کی حکومت پر عوامی ریفرنڈم کہا جاسکتا ہے اور یہ ملک بھر میں بی جے پی کی شکست کا آغاز ثابت ہوگا۔ نریندر مودی جہاں بیٹھ کر ملک کے عوام کو سبز باغ دکھا رہے ہیں، وہیں پر ترقی اور بہتر حکمرانی کے دعوے کھوکھلے ثابت ہوں تو پھر دوسری ریاستوں کے انتخابات میں کامیابی کی توقع کس طرح کی جاسکتی ہے۔ لوک سبھا انتخابات کے وقت نریندر مودی کے ساتھ گجرات کی ترقی کا ماڈل تھا، اس کے علاوہ یو پی اے حکومت کے مختلف اسکامس اور کانگریس میں قیادت کے فقدان کا بی جے پی کو فائدہ ہوا تھا لیکن اب جبکہ حکومت کے 8 ماہ مکمل ہوچکے ہیں، دہلی کے عوام کارکردگی کی بنیاد پر فیصلہ کے حق میں ہیں۔ دہلی میں بی جے پی کے مقابلہ اروند کجریوال عوام کے سامنے بہتر متبادل کے طور پر کھڑے ہیں جنہوں نے 49 دن کی بہتر حکمرانی کے نقوش عوام کے ذہنوں پر چھوڑے ہیں۔ لوک سبھا انتخابات کے وقت عوام کے روبرو بی جے پی کا کوئی بہتر متبادل نہیں تھا جس کے سبب دہلی میں لوک سبھا کی تمام نشستوں پر اسے کامیابی ملی۔ تاہم 8 ماہ گزرنے کے بعد عوام ایسی حکومت چاہتے ہیں جو ان کے مسائل حل کرے۔ اگر بی جے پی دہلی کا قلعہ ہارجائے تو یہ 8 ماہ کی حکمرانی پر عوام کا فیصلہ ہوگا۔ مودی نے دنیا بھر میں بہتر حکمرانی اور وکاس کے نعرے کے سہارے خوب نام کمایا لیکن اب دہلی میں ان کی حقیقی مقبولیت کا امتحان ہے۔
مودی ، امیت شاہ اور ان کی ساری فوج کا مقابلہ اروند کجریوال نے تنہا طور پر کیا ۔ عام آدمی کے پاس وہی واحد اسٹار کیمپینر تھے ۔ لوک سبھا کے بعد جن ریاستوں میں بی جے پی کو کامیابی ملی، وہاں حکومتوں کے خلاف عوام میں ناراضگی تھی جس کا فائدہ بی جے پی کو ہوا۔ برخلاف اس کے دہلی میں عام آدمی پارٹی کے خلاف اس طرح کی کوئی مخالف لہر نہیں ہے بلکہ عوام اس کی 49 دن کی حکمرانی سے متاثر ہیں۔ یوں تو ابھی نتائج آنے باقی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ 8 ماہ میں نریندر مودی حکومت کا ایک بھی کام ایسا نہیں جسے کارنامہ قرار دیا جاسکے۔ صرف الفاظ کی جادوگری سے پیٹ نہیں بھرتا اور نہ ہی مسائل حل ہوتے ہیں۔ نریندر مودی نے عوام سے جو وعدے کئے تھے، وہ ابھی بھی وعدے ہی ہیں۔ کالے دھن کی واپسی، ہر عام شہری کے اکاؤنٹ میں 15 لاکھ روپئے، روزگار کے مواقع اور مہنگائی پر قابو پانا جیسے وعدے ابھی بھی عمل آوری سے کوسوں دور ہیں۔ نریندر مودی خوش کن اعلانات کا سلسلہ ابھی بھی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ امیت شاہ نے وعدوں کی حقیقت اور حکومت کی سنجیدگی کا اظہار کچھ اس طرح کیا کہ بینک کھاتوں میں 15 لاکھ کا وعدہ دراصل ’’انتخابی کہاوت‘‘ ہے۔ اس طرح امیت شاہ عوام سے کہنا چاہتے ہیں کہ وہ 15 لاکھ کی امید چھوڑ دیں ۔ سوال یہ ہے کہ نریندر مودی کے تمام وعدے انتخابی کہاوت تو نہیں؟ نریندر مودی نے 8 ماہ کے دوران ملک کی تمام ریاستوں کا دورہ تک نہیں کیا۔
صرف انہی ریاستوں میں وہ نظر آئے جہاں انتخابات ہوں۔ برخلاف اس کے جتنی ریاستوںکا انہوں نے دورہ کیا ، اس سے زائد ممالک کا وہ دورہ کرچکے ہیں۔ کیا ہندوستانیوں کے مسائل کی دیگر ممالک نے کھوج تو نہیں ہے؟ دہلی کے نتائج تو بہرحال کسی ریہرسل سے کم نہیں۔ اترپردیش، بہار اور مغربی بنگال کے مجوزہ چناؤ میں مودی اور بی جے پی کا حقیقی امتحان ہوگا۔ اسی دوران امریکی صدر براک اوباما نے پھر ایک مرتبہ ہندوستان کو مذہبی رواداری کا درس دیا ہے۔ دہلی کی انتخابی مہم کے دوران یوم جمہوریہ تقریب میں شرکت کے بعد اوباما نے پہلی مرتبہ ہندوستانی دستور کے حوالہ سے مذہبی رواداری کی تلقین کی تھی۔ امریکہ واپسی کے بعد انہوں نے عالمی مذہبی قائدین کے روبرو دوبارہ ہندوستان میں عدم رواداری کی شکایت کی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اوباما بار بار ہندوستان کو مذہبی رواداری اور تمام مذاہب کے ساتھ یکساں سلوک کا مشورہ کیوں دے رہے ہیں۔ مختلف مذاہب کے ماننے والوں کے خلاف تشدد کا بظاہر اوباما نے حوالہ دیا لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کا اشارہ صرف ایک مخصوص مذہب کی طرف ہے۔ اوباما کی ان نصیحتوں پر ان کے قریبی دوست اور ساتھ میں من کی بات کرنے والے نریندر مودی کو جواب دینا چاہئے ۔ اوباما ہو یا کوئی اور ان کی نصیحتوں کا فرقہ پرست طاقتوں پر کس حد تک اثر پڑے گا ، اس کا اندازہ پروین توگاڑیہ اور ساکشی مہاراج کے بیانات سے ہوتا ہے ۔ جارحانہ فرقہ پرستی کے ترجمان یہ قائدین اب کھل کر مودی حکومت کے خلاف اظہار خیال کر رہے ہیں۔ توگاڑیہ نے کہا کہ ہندو راشٹر کے بغیر ترقی کس کام کی۔
اسی طرح ساکشی مہاراج نے ہندو راشٹر کے بغیر حکومت کے وجود کو بے معنیٰ قرار دیدیا ۔ ظاہر ہے کہ ان کے پس پردہ سنگھ پریوار ہے جو ملک کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کا خواب دیکھ رہا ہے۔ ہندوستان کا دستور اور قانون اس قدر مستحکم ہے کہ کوئی بھی طاقت دستور کے بنیادی ڈھانچہ کو تبدیل کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتی۔ ملک کے عوام کی اکثریت سیکولرازم پر ایقان رکھتی ہیں اور مذہبی رواداری اور بھائی چارہ عوام کی گتھی میں ہے۔ مذہبی رواداری سے انحراف کی صورت میں ہندوستان عالمی مالیاتی اداروں کی امداد سے محروم ہوجائے گا اور اس کا حشر برما کی طرح ہوگا۔انتخابی مہم اور پھر رائے دہی سے عین قبل دہلی میں عیسائی عبادت گاہوں پر حملے، بی جے پی کیلئے مسائل میں اضافہ کا سبب بنے۔ بی جے پی نے اپنے ویژن ڈاکومنٹ میں شمال مشرقی ریاستوں کے عوام کو تارکین وطن قرار دیکر ان کی مخالفت کو دعوت دی ہے۔ الغرض نئی دہلی اسمبلی انتخابات کے نتائج ملک میں نئی سیاسی صف بندی کی راہ ہموار کرسکتے ہیں اور بی جے پی کو کامیابی کے تسلسل کو بریک لگے گا۔ موجودہ حالات پر جگجیت سنگھ کی گائی غزل کا یہ شعر صادق آتا ہے۔
وقت رہتا نہیں کہیں ٹک کر
اس کی عادت بھی آدمی سی ہے